ساجد حسن رحمانی ویشالوی
(فاضل دار العلوم دیوبند)
یوں تو ہر وقت اور ہر ساعت دنیا میں آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے، ہر روز لاکھوں افراد دنیا میں آنکھیں کھولتے ہیں اور لاکھوں اپنی حیات مستعار پوری کرکے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر جاتے ہیں؛ لیکن ان جانے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کی وجہ سے صرف ایک ضلع یا ایک صوبہ ہی نہیں؛ بل کہ ملک وبیرونِ ملک کے موافق مخالف سارے لوگ افسردہ خاطر ، پزمردہ دل اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں، اور لوگوں کو ان کی یاد ان کے علم وعمل، عظمت و بڑائی، اخلاص وللہیت، زہدو تقوی اور قوم وملت کے تئیں دردمندی، فکرمند ی اور جاں گسلی کی وجہ سے ایک طویل عرصے تک ستاتی اور تڑپاتی رہتی ہے، ان ہی میں سے ایک فقیہ ملت، مصلح امت ، دردِ مند ملت، قاضی شریعت، درجنوں مدارس کے سرپرست، محدثِ کبیر حضرت علامہ و مولانا قاسم صاحب مظفر پوری بھی تھے، جنہوں نے تقریبا ساڑھے چھ دہائی تک علمی ، اخلاقی، انتظامی، سماجی و فلاحی اور دینی میدان میںقابلِ رشک خدمات انجام دیں۔
قاضی صاحب چونکہ میرے والد محترم ماسٹر آلِ حسن رحمانی صاحب (ہائی اسکول محمد پور پو سا ضلع سمستی پور)کے استاذ ِ خاص تھے؛ اس لیے سنِّ شعور ہی سے ان کی زبانی قاضی صاحب کی شخصیت، تبحر ِ علمی، اصابت رائے، دقتِ نظر، ذہانت و ظرافت، قوتِ فیصلہ وقوت استنباط، تواضع وانکساری ، خود اعتمادی، باریک بینی و نقطہ بیانی، عدل وانصاف اور پڑھانے، سمجھا نے اور طلبہ کی تربیت کرنے کا انوکھا، البیلا اور یگانہ انداز کا تذکرہ بار ہا سنتا رہا۔ پھر جب حفظ و دور کی تکمیل کے بعد شمالی بہار کا مشہور و معروف ادارہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامڑھی میں در جاتِ عربی میں داخل ہو ا تو وہاں بھی اساتذہ کرام کی زبانی ، قاضی صاحب کے بارے میں وہ سب باتیں دوبارہ، سہ بارہ سنا جو والد صاحب سے پہلے ہی سن رکھا تھا؛ جس کی وجہ سے ان کی ملاقات وزیارت کی تمنا و آرزو (جو پہلے ہی سے دل میں تھی) اور بڑھتی چلی گئی کہ میرے عربی دوم یا سوم کے سال اچانک ایک دن جامعہ اشرف العلوم کے ایک بڑے استاذ امام المنطق الفلسفہ حضرت مولانا نسیم احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے غالباً عصر کی نماز کے بعد تمام طلبہ کو روک کر اعلان کیا کہ ہندوستان کے مایہ ناز فقیہ اور ممتاز محدث حضرت اقدس مولانا قاسم صاحب مظفر پوری آپ کے ادارہ میں تشریف لا رہے ہیں۔ انشاءاللہ حضرت تم لوگوں کے سامنے خطاب بھی فر مائیں گے۔ پھر فرمایا:حضرت کا خطاب علماء و طلبہ کی مجلسوں میں عالمانہ، فاضلانہ اور محدثانہ ہوتاہے؛ لہذا اگر ہمہ تن گوش ہوکر سنو گے تو سمجھو گے ورنہ ان کی ساری قیمتی باتیں تمہارے سر سے گزر جائے گی۔ حضرت استاذ محترم کی زبانِ مبارک سے یہ اعلان سنتے ہی تمام ساتھیوں کا چہرہ خوشی ومسرت سے کھِل اٹھا اور سینہ فرحت وسرور سے لبریز ہو گیا، اور اسی وقت سے سارے طلبہ قاضی صاحب کی دید و ملاقات اور ان کا خطاب سننے کے لیے سراپا مشتاق بن گئے، حضرت تشریف لائے اور بعد نماز فجر ان کا بیان ہوا؛ چونکہ یہ وقت فجر کے بعد تھا، جس کی وجہ سے انھیں سننے کی تمام تر خواہش و آرزو کے بھی اونگھ نے ہمیں اور کئی ساتھیوں کو اس طرح اپنی آغوش میں لے لیا کہ بیان کا کچھ ہی حصہ سن سکا اور زیادہ تر وقت اونگھ کی نذر ہوگیا؛ لیکن پھر بھی یہ بات بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے بیان کا موضوع علم دین کی اہمیت تھا، جس پر انہوں نے مدلل و مفصل کلام کیا، اور اخیر میں فرمایا:میں عمر کی آخری منزل پر پہنچ گیا ہوں؛ اس لیے کوئی ٹھکانہ نہیں کہ کب موت کا فرشہ آجائے اور اس دنیا ئے آب وگل کو الوداع کہنا پڑجائے؛ لہذا آپ سبھوں سے میری ایک گزارش ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی آپ کو میرے انتقال کی خبر ملے، اسی وقت تین مرتبہ “قل هُو اللهُ أَحَدٌ الخ” پڑھ کر مجھے ایصالِ ثواب کردیجئے گا۔
قاضی صاحب کی دید وشنید کا یہی پہلا اور آخری موقع تھا جو ایک لمبے عرصے تک خواہشِ بسیار کے بعد پورا ہو تھا؛ لیکن راقم الحروف پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتاہے کہ ان کے متعلق جن جن خوبیوں اور کمالات کا تذکرہ پہلے سنا تھا وہ تمام ان میں بدرجہ ٔاتم موجود دیکھا، جانا ، اور محسوس کیا۔
قاضی صاحب کی پیدائش سنہ ۱۹۳۷ ء میں مادھو پور، ڈاکخانہ اگنواں، وایاں ججواں، ضلع مظفر پور ہوئی، والد ماجد کانام معین الحق تھا جن کی شرافت وعظمت کا پورے علاقہ میں چرچہ تھا۔ قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، متوسطات کی تعلیم مدرسہ حمید یہ “قلعہ گھاٹ” دربھنگہ اور مدرسہ امدادیہ “لہریا سرائے” دربھنگہ میں حاصل کی ، اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۵۲ءمیں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور سنہ ۱۹۵۷ ء، مطابق ۱۳۷۷ھ میں وہاں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن آسمان ِ علم وکمال سے اکتساب ِ فیض کیا ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔ علامہ ابراہیم بلیاوی رحمتہ اللہ علیہ، علامہ فخر الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ، مرجع الخلائق یکتائے زمانہ قدوۃ العلماء والصلحاء شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ۔ قاضی صاحب کا قوتِ حافظہ اور قوتِ فہم دونوں غضب کا تھا، اس کے باوجود انہوں نے انتہائی جانفشانی، جاں گدازی، کوہ کنی اور شب و روز ایک کر کے پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ علم حاصل کیا تھا، وہ جن ادارہ میں بھی زیر ِ تعلیم رہے، وہاں کے اساتذہ کے نورِ نظر اور ممتاز طلبہ میں بھی ممتاز رہے، اس کا اندازہ دارالعلوم دیوبند کے دورہء حدیث شریف میں ان کے حاصل کردہ نمبرات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، قاضی صاحب جس زمانہ میں دارالعلوم کے طالب علم تھے اس وقت وہاں فل نمبر پچاس ہی تھا جو ابھی چند سالوں پہلے تک باقی تھا، اور انہوں نے دورہ حدیث کے سال ایک کتاب چھوڑ کر ساری کتابوں میں پچاس سے زائد نمبر ات حاصل کیا، وہ نمبر ات مع کتب درجِ ذیل ہیں۔ بخاری شریف۵۳،مسلم شریف ٤۰،ابوداؤدشریف ۵۲نسائی شریف ۵۳ ،ابنِ ماجہ شریف ۵۳ ، طحاوی شریف ۵۲ ،مؤطاامام مالک ۵۲ مؤطاامام محمد ۵۳،شمائل ترمذی ۵۲ روداد دارالعلوم دیوبند بابت (۱۳۷۷)
قاضی صاحب نے حصولِ علم سے رسمی فراغت کے بعد اپنی پوری زندگی درس وتدریس، تصنیف وتالیف، تقریر وخطابت، تبلیغِ دین، رجال سازی و مردم گری اور لوگوں کے باہمی نزاع با الخصوص میاں بیوی کے الجھے اور مغلق مسائل کے حل کرنے کے لیے وقف کر دی۔ قاضی صاحب علم کے بحرِ ناپید کنار تھے، قدیم وجدید اور ضخیم کتابوں کے مسائل ومضامین مع صفحات یاد تھے، اکثر درسی کتابوں کی اکثر عبارتیں بھی زبانی یاد تھی اور متنبی و دیوانِ حماسہ تو از ابتدا تا انتہاء بالکل ازبر تھا ، یہ دونوں کتابیں اکثر زبانی ہی پڑھاتے تھے، اشعار پڑھتے، لغات حل کرتے، حلِّ لغات کے دوران ایک لفظ کے مختلف صلات کے ساتھ جو مختلف معانی آتے ہیں تقریباً وہ سب بتاتے، نیز اگر وہ لفظ قرآن و حدیث میں ہوتا تو اس کی بھی وضاحت کرتے کہ یہ لفظ وہاں فلاں صلہ کے ساتھ ہے اور فلاں معنی دے رہا ہے، پھر مطالب بیان کرتے تھے ، گویا کہ علم کا سیلِ رواں جاری ہے۔ اللہ تعالی نے قاضی صاحب کو جس طرح علمی گیرائی و گہرائی اور بے مثال قوتِ فہم کی دولت سے نواز ا تھا اسی طرح تفہیم کا بھی ملکہ راسخہ عطا کیا تھا، ان کے شاگرد حضرات اور کسبِ فیض کرنے والے بتاتے ہیں کہ آپ جب کوئی کتاب پڑھاتے تو اس کی تقریباً ایک ایک عبارت کند سے کند اور بودھ سے بودہ طالب علم کو سمجھ میں آجاتی تھی؛ بل کہ بعض بعض عبارتیں بھی زبانی یاد ہو جاتی تھی۔ قاضی صاحب کی تدریس کے اس نرالے اور منفرد انداز سے سارے طلبہ خوش ہو کر عش عش کرنے لگتے تھے۔
قاضی صاحب بے مثال مدر س ہونے کے ساتھ ساتھ یگانہ روزگار قاضی بھی تھے؛ انہوں نے شروع میں بحیثیتِ معاون قاضی کارِ قضا انجام دیا، ۱۹۷۶ء میں با ضابطہ قاضی بنے، آپ دور بینی ودور اندیشی، سلامت ِ فکر، اخاذ ذہانت، نقطہ فہمی، اور فریقین کو مسکت کرنے والے فیصلے کی صلاحیت کی دولت سے مالامال تھے، وہ قدیم سے قدیم اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل و معاملات کو اس طرح چٹکییوں میں سلجھا دیتے اور حل کردیتے کہ بہت سے قاضیوں اور مفتیوں کے لیے مہینوں غور وفکر کے بعد بھی وہاں تک رسائی نہ ہوتی تھی۔ کارِ قضا میں آپ کی بے نظیر صلاحیت کی وجہ سے اکابرین امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کو آپ پر بہت زیادہ اعتماد تھا اور اُن بزرگوں نے اِن کی نہ خواہی کے باوجود قاضی القضاۃ جیسا اہم، بڑا اور نازک منصب انھیں سپرد کر دیا، جس پر وہ تادمِ زیست فائز رہے ۔
عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک اچھا مدرس بہتر ین مقرر نہیں ہوتا ہے؛ لیکن قاضی صاحب اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول ومشہور خطیب بھی تھے، وہ تقریر میں مجمع اور عوام کی ذہنی سطح اور ذہنی معیار کا بہت پاس ولحاظ کرتے تھے، علماء ہوں تو عالمانہ گفتگو کرتے، عوام ہوں تو عام فہم اور سادہ زبان میں تقریر کرتے اور اگر عصری علوم یافتہ ہوں تو ان کے مزاج و مذاق کا خیال رکھتے ہوئے تقریر کیا کرتے تھے۔ قاضی صاحب کی زبان ولہجہ میں اس قدر چاشنی، شیرینی، سلاست، نہر کی روانی اور عشق کرشمہ ساز کی وارفتگی پائی جاتی تھی کہ سامعین حضرات وجد کرنے لگتے تھے ، اسلامی جذبات و رجحانات سے ان کا سینہ معمور ہوجاتا تھا اور ان کے اندر سنت پر عمل کرنے اور بدعات وخرافات اور رسوم ورواج سے نفرت کرنے کا صحیح اور سچا جذبہ پیدا ہو جاتا تھا ۔ یقیناً ان کی تقریر سن کر بہت سے بدعتی اور باطل عقائد و نظریات کی دلدل میں پھنسے لوگ ، متبعِ سنت اور درست عقائد و افکار کے حامل عناصر اور مبلغ بن گئے قاضی صاحب جہاں بہت سی خوبیوں اور صفات حمیدہ سے آراستہ وپیراستہ تھے وہیں ان کی ایک بہت بڑی صفت تواضع تھی جو ان کا طرۂ امتیاز بھی تھی اور جس کا تذکرہ وفات کے بعد ان کی خوبیاں قلم بند کر نے والے تقریباً سارے اہل قلم اور تعزیتی بیان جاری کر نے والے تقریباً سارے حضرات نے اس کاتذکرہ کیا ہے، وہ آسمان ِ علم وفضل کے درخشندہ ماہتاب تھے؛ لیکن ان کے کسی عمل یا کسی حرکت سے اس کا اظہار نہ ہوتا تھا؛ بل کہ اگر کوئی ایسا شخص جو پہلے سے ان کی ذات اور ان کے نام سے شناسا نہ ہوتا ، اس کے لیے قاضی صاحب کو دیکھ کر اور ان سے ملاقات کرکے یہ جاننا، سمجھنا اور یقین کرنا مشکل ہوتا کہ یہ عالم ہیں؛ چہ جائیکہ وہ آپ کو علامہ یقین کرے، قاضی صاحب بے حد متواضع اور نرم خو تھے؛ بل کہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سراپا تواضع ہی تھے تو بے جا نہ ہوگا، جو جب چاہتا پہلے سے وقت لیے بغیر ملاقات کا شرف حاصل کر لیتا، جو مسئلہ پوچھنا چاہتا، مشورہ لینا چاہتا یا نزاعی معاملہ کا تصفیہ کرانا چاہتا، وہ ان سب کی خدمت کے لیے مستعد بیٹھے ہوتے تھے۔ قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے قوم وملت کی خدمت کے لیے جس طرح خود کو وقف کر رکھا تھا اسے دیکھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ آپ شاعر کے اس شعر کے مکمل مصداق ہیں۔
میری آرزو یہی ہے کہ ہر اک کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گزر ہوں مجھے شوق سے جلاؤ
لیکن افسوس کہ وہ علامہ جوہر محفل اور ہر مجلس میں اور ہر ایک کے سامنے علمی موتی لٹاتا رہا، وہ بے لوث معلم ومربی جو کتاب ِ آداب ِ حیات پڑھاتا اور سمجھاتا رہا، وہ متواضع اور حلیم جو عفو و درگزر اور نرم خوئی کی تعلیم دیتا رہا، وہ رہبر شریعت اور حامی سنت جو لوگوں کی شریعت وسنت سے دوری اور بے راہ روی پر نالاں کناں تھا اور انھیں شریعت سے قریب لانے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرتا رہا ، وہ آسمان علم وادب کا آفتاب جس کی چکا چوند روشنی سے صحرا ودریا سب روشن تھے، یکم ستمبر/۲۰۲۰/ سہ شنبہ کو ۳/بجے صبح طلوع آفتاب سے قبل ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہو گیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے