ایک دن میں ماب لنچنگ کا تین واقعہ: میڈیا خاموش، پولس تماشائی !

خبر در خبر (649)
شمس تبریز قاسمی
بھگوان رام اور جے شری رام کے نام پر رام کے پجاریوں نے آج پھر ایک مسلمان اور بے گناہ کا قتل کردیا ہے ، اور ماب لنچنگ کا یہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے بلکہ آج تین معاملے پیش آئے ہیں ۔ تینوں معاملہ ایک جیسا ہے جہاں بھیڑ نے بے گناہوں کی جان لے لی ہے ۔ آتنکی بھیڑ نے اتنی بے دردی سے مارا ہے کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتاہے۔ پورے جسم پر چاقو ، راڈ سے حملہ کا نشان ہے ۔ ایک واقعہ اس میں ایسا ہے کہ درندوں نے آر ا مشین سے کاٹ دیا ہے۔ میڈیا میں ان سب خبروں کا کوئی چرچا نہیں ہے ۔ مین اسٹریم میڈیا کو اس طرح کی خبروں میں دلچسپی بھی نہیں رہ گئی ہے ۔ آج خبر در خبر میں ہم ماب لنچنگ کے ان تینوں معاملہ مکمل تفصیل ۔ ثبوت اور دلائل کے ساتھ بتانے جارہے ہیں ۔
ماب لنچنگ کا پہلا واقعہ
دادری ۔ یہ ہندوستان کا وہ علاقہ ہے جہاں 2015 میں دوسو آتنکیوں کی بھیڑ اخلاق کے گھر میں گھس گئی اور اس کی بیوی ، بیٹی سب کے سامنے میں اس وقت تک پٹائی جاری رکھی جب تک اخلاق کی جان نہیں نکل گئی ۔ دادری کا یہ علاقہ ابھی تک ماب لنچنگ کا سینٹر بنا ہوا ہے ۔ اسی علاقے کے چٹارہ میں آج پھی ایک ایسا ہی سنگین او ردل دہلا دینے والا معاملہ پیش آیاہے ۔
ماب لنچنگ میں جس شخص کی موت ہوئی ہے اس کانام تھا محمد آفتاب ۔ 43 عمر تھی ۔ دہلی کے ترلوک پوری 35 بلاک میں اس کا گھر تھا ۔ 6ستمبر اتوار کو وہ گڑگاؤں سے بلند شہر اپنی گاڑی سے ایک کلائنٹ کو لیکر گئے۔ واپسی میں تین لوگ اسے راستے میں ملے جس نے آفتاب سے لفٹ مانگا اور کہاکہ آگے چھوڑ دو ۔ یہ تینوں گاڑی میں بیٹھنے کے بعد الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ۔مسلمانوں کے خلاف بولنے لگے ۔ محمد آفتا ب کو شک ہوا اور لگا کہ یہ لوگ صحیح نہیں ہیں ۔ انہوں نے فورا اپنے بیٹے کو فون لگادیا اور موبائل کالنگ پر رکھ کر چھوڑ دیا ۔ بیٹے صابر کو گاڑی میں بیٹھے لوگوں کی پوری آواز سنائی دے رہی تھی ۔ پانچ منٹ تک مسلمانوں کے خلاف الٹا سیدھے بولنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے ان لوگوں نے محمد آفتا ب سے کہا بولو جے شری رام ۔ جے شری رام بولو ۔ آفتا ب نے بولنے سے انکار کردیا ۔ لو شراب پیو ۔ آفتا ب نے شراب بھی پینے سے انکار کردیا ۔ یہ سب باتیں آفتاب کے بیٹے صابر آفتاب سن رہے تھے اورکال بھی ریکاڈ ہورہی تھی ۔ اس کے بعد تینوں نے ایک جگہ گاڑی روکنے کیلئے کہااور آفتاب کو گھسیٹ کر باہر نکال دیا ۔ موبائل آن تھا لیکن آفتاب کو اب کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد فون کٹ گیا ۔ادھر تینوں شدت پسندوں نے آفتاب کو گاڑی سے نکال کر پھر سے جے شری رام بولنے کو کہا اور مارنا شروع کردیا ۔ پورے جسم کو لہو لہان کر دیا ۔
فون پر کوئی آواز نہ آنے کی وجہ سے بیٹے صابر آفتاب کو شک ہوا ۔ وہ فوراً میور وہار تھانہ گیا اور پولس کو پورے معاملہ کی اطلاع دی ۔ پولس نے لاسٹ لوکیشن کاپتہ لگایا ۔ چتارہ نام کی جگہ آخری لوکیشن تھی جہاں پر کار رکی تھی۔ صابر آفتاب کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں پر فورا گئے ۔ جانے کے بعد گاڑی کو تلا ش کیا۔ سوفٹ ڈیزائر گاڑی تھی جو بادل پور تھانے سے چار کیلو میٹر آگے کھڑی مل گئی ۔ وہاں دو پولس اہلکار بھی موجود تھے ۔ صابر نے پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں ۔ پولس نے کہاکہ آپ کو ہسپتال جانا ہوگا ۔ ہسپتال جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے والد کی موت ہوچکی ہے ۔ آفتاب کا پورا جسم زخمی ہے ۔ جسم کے ہر ایک حصہ کو درندوں نے کاٹ رکھا ہے۔ میرے پاس لاش کی ویڈیو موجود ہے جو ہولناک ہے اور میں اسے یہاں نہیں دیکھا سکتاہوں ۔ ملت ٹائمز کو یہ جانکاری براہِ راست مرحوم آفتاب کے بیٹے محمد صابر آفتاب نے دی ہے ۔
پولس اس کو معمولی لڑائی کا و اقعہ بتارہی ہے۔ ایف آئی آر میں اسے لوٹ مار اور مڈر کا کیس بتایا گیا ہے ۔پولس نے یہ بھی کہاہے کہ تینوں کی شناخت ہوگئی ہے ۔ تنیوں کا نام ابھی تک پولس نے نہیں بتایا ہے ۔ صابر کا مطالبہ ہے کہ اسے ماب لنچنگ کا کیس بنایا جائے اور میر ے والد کو انصاف دیا جائے ۔ سچائی یہی ہے کہ یہ ماب لنچنگ کا کیس ہے ۔ مذہبی دہشت گردی ہے ۔
ماب لنچنگ کا دوسرا معاملہ
ماب لنچنگ کا دوسرا معاملہ ہریانہ کے پانی پت میں پیش آیاہے ۔ سہارنپور کے نانوتہ گاؤں سے تعلق رکھنے والا اخلاق سلمانی نام کا ایک نوجوان روزگار تلاش کرنے پانی پت گیا ۔ 23اگست کو وہ ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے پاس دو لڑکے آئے ۔ دو نوں نے نشا کررکھاتھا ۔ اخلاق کے ساتھ دونوں نے بدتمیزی کی اور معاملہ لڑائی تک پہونچ گیا ۔ دونوں نے مل کر ا خلاق کی پٹائی کردی ۔ اخلاق کو پیا س لگا ۔ پارک کے پاس ایک گھر تھا وہاں جاکر اس نے پانی مانگا۔ گھر سے کچھ لڑکوں نے نکل کر اس کو پانی دینے کے بجائے گھر کے اندر بند کردیا ۔ یہ گھر نہیں بلکہ ایک بڑا سا ہاؤس تھا ۔ اس میں ڈیری تھی ، آرا مشین تھی ۔ گھر میں دس سے زیادہ لوگ موجود تھے ۔ ایک دو عورت بھی تھی ۔ پارک میں جن لڑکوں نے مارا تھا وہ بھی یہاں پہونچ گئے ۔ دروازہ بند کرکے سبھی نے ایک ساتھ اخلاق کو مارنا شروع کردیا ۔ لاٹھی ، راڈ، لوہا جو ملا اسی سے اخلاق پر حملہ کردیا ۔ اخلاق کے ہاتھ کو کہنی تک ان درندوں نے آرا مشین سے کاٹ دیا ۔ ان درندوں اور آتنکو ادیوں کو جب یہ یقین ہوگیا کہ یہ مر گیا ہے تو رات میں جاکر اس کی لاش کو ریلوے ٹریک کے کنارے پھینک دیا ۔ 24اگست کی شام کو اخلاق کی آنکھ کھلی ۔ اس کو ہوش آیا تو دیکھاکہ وہ ریلو ے ٹریک کے کنارے ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے ایک آدمی وہاں نظر آیا ۔ اخلاق نے راہ گیر سے مدد طلب کی اور کہاکہ ایک نمبر پر فون لگا دو اور اس کو میرے بارے میں بتادو کہ تمہارا بھائی فلاں جگہ پر ہے اور بہت زخمی ہے ۔ اس کو لوگوں نے مارکر یہاں پھینک دیا ہے ۔ اخلاق کے بھائی اکرام سلمانی کو جب معاملے کی خبر ملی تو اس نے پانی پت میں موجود اپنے قریبی لوگوں کو واقعہ کی اطلاع دی اور کہاکہ جاکر دیکھو کیا سچ میں اخلاق کے ساتھ ایسا ہوا ہے ۔ رشتہ داروں نے دیکھنے کے بعد اخلاق سلمانی کو ہسپتال میں داخل کیا ۔ اکرام بھی پانی پت پہونچا ۔ ابھی تک اخلاق کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہے ۔ اس کی حالت جوں کی توں برقرار ہے ۔ 13 دن ہوچکے ہیں لیکن پولس نے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے ۔ بار بار پانی پات تھانے کا چکر لگانے کے بعد پولس اہلکار نے صرف اخلاق سلمانی کا بیان لیا ہے ۔ اس پورے معاملے کی جانکاری ہمیں براہِ راست اخلاق کے بھائی اکرام سے ملی ہے ۔
ماب لنچنگ کا تیسرا معاملہ
ماب لنچنگ کا تیسرا واقعہ اتر پردیش کے کشی نگر میں پیش آیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو بھی آج صبح سے وائرل ہورہی ہے ۔ اس ویڈیو کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ایک نوجوان کو پکڑ کر پولس کے سامنے بھیڑ نے مار دیا اور پولس تما شا دیکھتی رہی ۔ ویڈیو میں یہی دیکھا جارہا ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ۔۔۔ دو نوجوان آپس میں دوست تھے لیکن اس میں سے ایک دوست نے دوسرے کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا ۔ صبح میں اپنے اس دوست کے گھر گیا ۔ پہلے اس کے یہاں چائی پیا اور اس کے بعد سینے میں گولی مار دیا ۔ لوگوں نے چاروں طرف سے اس قاتل دوست کو گھیر لیا ۔ اس نے لوگوں کو خوف زدہ اور منتشر کرنے کیلئے تین راؤنڈ ہوائی فائرنگ کی ۔ اس بیچ وہاں پولس پہونچ گئی ۔ پولس نے کہاکہ سرینڈر کرو ۔ اس نے سرینڈر کرتے ہوئے خود کو پولس کے حوالے کردیا لیکن گاؤں والوں نے پکڑ کر اسے وہیں پر مارنا شروع کردیا اور پولس تماشا دیکھتی رہی ۔ وائرل ویڈیو میں یہی منظر ہے ۔
یہ دونوں دوست کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں مجھے نہیں معلوم ہے ۔ نہ یہ معلوم ہے کہ ان دونوں کا نام کیا ہے ۔ یہ بھی نہیں پتہ کس معاملے کی وجہ سے دونوں دوست دشمن بن گئے ۔ لیکن یہ واقعہ سچ ہے ۔۔ اور یہی سب سے اہم پوائنٹ ہے کہ آخر ایک نے دوسرے کی جان لے لی اورقاتل کی جان بھیڑ نے اپنے ہاتھوں سے لے لی ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔ قانون کا خوف کیوں نہیں ہے ۔ جرم کرتے وقت ان لوگوں کو ڈر کیوں نہیں لگتا ہے ۔ مارنے والا یا مرنے والا ہندو ہے یا مسلما ن ۔۔۔ یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ یہ ایک انسان ہے ۔ ایک بھارتیہ ہے جس کا قتل ہوا ہے اور قتل کرنے والوں کے دل میں قانون کا خوف نہیں ہے ۔ کرائم کرتے وقت پولس کا ڈر نہیں ہے۔ عدالت جانے کے بجائے یہ اپنا معاملہ خود اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں ۔ تھانہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود جج اورمنصف بن رہے ہیں ۔ آخرکیوں ۔۔۔۔
اس سب کی وجہ صرف یہ ہے کہ بھیڑ کو سرکار نے چھوٹ دے رکھی ہے بے گناہوں کو مارنے کی ۔ قتل کرنے کی ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی، اور جب یہ بھیڑ قتل کی عادی ہوچکی ہے ۔ خون پینے کی لت لگ چکی ہے ۔۔ اسے معلوم ہے کہ قانون ہمارے خلاف نہیں جائے گا تو اب یہ بھیڑ کسی کی بھی جان آسانی سے لینے لگی ہے ۔ نہ پولس کا خوف، نہ قانون کا ڈر ۔۔ اسی کو بولتے ہیں جنگل راج ۔
ماب لنچنگ کا ایک اور واقعہ دو دن پہلے اتر پردیش کے بریلی میں پیش آیاتھا جہاں 32 سال کے محمد باسط کو درندوں اور شدت پسندوں نے چوری کے جھوٹے الزام میں درخت سے باندھ کر مارا ، اتنا مارا کہ ہسپتال پہونچتے پہونچتے اس نے دم توڑ دیا ۔
ماب لنچنگ 2014 سے لگاتار جاری ہے اور ان دنوں پھر ملک کے مختلف حصوں میں یہ واقعہ پیش آنے لگاہے ۔ میڈیا اور ٹی وی چینلوں کو ششانت سنگھ او ریا چکرورتی کے معاملے سے فرصت نہیں مل رہی ہے ۔ شسانت او رریا کے کمر ے کی لائٹ کب بجھی ۔ ٹوائلٹ کب کیا ۔ یہی سب ان کے پاس ہے ، لیکن ہم ملت ٹائمز کے سبھی پلیٹ فارم پر یہ سارے حقائق اور سچ پر مبنی خبریں دیکھاتے رہیں گے ۔ آپ سے ریکویسٹ ہے کہ ہمار ا ساتھ دیں ۔ ملت ٹائمز کو یوٹیوب پر سبسکرائب کریں ۔ فیس بک پر پیج لائک کریں ۔ ٹوئٹر پر فلو کریں ۔ ہماری خبروں کا لنک کاپی کرکے وہاٹس ایپ اور فیس بک پر زیادہ سے زیادہ شیر کریں ۔ ایک اور بات ماب لنچنگ کے بڑھتے سلسلہ کو روکنے اور ان دنوں پیش آئے چاروں واقعہ میں مجرموں کی گرفتاری اور مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے ٹوئٹر پر ملت ٹائمز کے ساتھ جڑیں اور ہمای طرف سے یوز کئے گئے ہیش ٹیگ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹوئٹ کریں ۔
نوٹ: یوٹیوب چینل پر ہمارے پروگرام خبردر خبر کو ڈیلیٹ کردیا گیا تھا، اپیل کرنے کے بعد یوٹیوب نے دوبارہ اسے بحال کیا ہے لیکن محدو د اور مشروط کردیا ہے ۔ پروگرام انہیں امور کا تذکرہ تھا، اس حوالے سے مکمل تفصیل ہم جلد ملت ٹائمز میں شائع کریں گے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com