بھارت اور چین میں لڑائی کی اصل وجہ کیا ہے ؟ 

خبر در خبر (652)

شمس تبریز قاسمی

ہندوستان اور چین کے درمیان ایک سمجھوتہ پر اتفاق ہوگیا ہے اور امید ہے کہ اب کشیدگی ختم ہوجائے گی ۔ مشرقی لداخ میں ہندوستان اور چین کے بیچ حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر کئی مہینوں سے لگاتار تناؤ جاری ہے۔ روس، ہندوستان اور چین کے سہ طرفہ پلیٹ فارم ’آر آئی سی‘ کے تحت ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی ماسکو میں ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور چین نے سرحدی تنازعہ کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے بیچ 5 نکاتی فارمولے پر اتفاق رائے بھی ہوا ہے۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ذریعہ دی گئی معلومات کے مطابق انہوں نے آر آئی سی وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کی جس میں ڈاکٹر جے شنکر کے علاوہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ای شامل ہوئے۔ وزیر خارجہ نے شاندار مہمان نوازی کے لئے روس کا شکریہ ادا کیا اور ہندوستان کے آر آئی سی کی صدارت سنبھالنے کی بھی معلومات دی۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یہ واضح کیا ہے کہ ہندوستان حقیقی کنٹرول لائن پر جاری تناؤ میں اضافہ نہیں چاہتا اور چین کے تئیں ہندوستان کی پالیسی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ادھر چینی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی بیان دیا گیا ہے کہ دو پڑوسی مالک ہونے کے ناطہ سرحد پر چین اور ہندوستان کے مابین کچھ نااتفاقیاں ہیں لیکن یہ فطری ہیں۔ ضروری بات یہ ہے ان نااتفاقیوں کو دور کرنے کے لئے مثبت نظریہ اختیار کیا جائے۔

بعد میں روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ میٹنگ میں روس چین اور ہندوستان کے مابین سہ طرفہ تعاون اور بین الاقوامی اور علاقائی اہمیت کے امور پر احترام، دوستی اور اعتماد کے جذبہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ روسی بیان کے مطابق ان لیڈروں نے تسلیم کیا کہ تینوں ممالک کے مابین تعاون اور احترام میں پیش رفت سے عالمی ترقی اور امن او استحکام میں اضافہ ہوگا۔ ان تینوں وزرائے خارجہ نے یہ بھی مانا کہ کووڈ۔ 19عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے مضبوط سائنسی اور صنعتی صلاحیت ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

پچھلے چار مہینوں سے زیادہ سے مشرقی لداخ میں جاری کشیدگی کے درمیان ہندستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے بیچ یہ پہلی میٹنگ تھی۔ اس سے پہلے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای کے درمیان ایک مہینہ قبل ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بات چیت ہوئی تھی۔ کشیدگی کم کرنے پر اتفاق بھی ہوگیا تھا لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا ۔

اس کے علاوہ اس سے پہلے دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان بھی ماسکو میں ایس سی او میٹنگ کے دوران ہی ملاقات ہوئی تھی۔

میٹنگ میں ہندوستان اور چین کے درمیان پانچ نکاتی فارمولہ پر اتفاق ہوا۔

باہمی اختلافات کو تنازعہ نہیں بننے دیا جائے گا۔

دونوں ممالک کی فوجیں متنازعہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائیں گی۔

دونوں ممالک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق باہمی گفت و شنید کرتے رہیں گے۔

موجودہ معاہدوں اور پروٹوکول پر دونوں ممالک عمل پیرا ہوں گے۔

دونوں ممالک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے تناؤ میں اضافہ ہو۔

تجزیہ کاروں نے دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی سطح پر ہونے والی بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کاکوئی ٹھوس اثر اسی وقت دیکھنے کو ملے گا جب لداخ میں چینی فوجی موجودہ پوزیشن سے پیچھے ہٹیں گے۔بعض ماہرین نے اس بات پر تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ دونوں فریقین میں سے کسی نے بھی ایل اے سی پر فوجی تصادم شروع ہونے سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ چین، بھارتی صوبے اروناچل پردیش سمیت تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کا دعوی ہے کہ چین نے اکسائی چن علاقے میں اس کے 38ہزارمربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سرحد ی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان ایک درجن سے زائد دور کی بات چیت ہوچکی ہے لیکن اب تک کوئی قابل ذکرپیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان 1962میں باضابطہ جنگ ہوچکی ہے۔ چین کا دعوی ہے کہ ہماری جیت ہوئی تھی جبکہ اسے بھارت کی حقیقی جیت مانا جاتا ہے۔ تازہ سرحدی تنازعہ ایل اے سی پر 5مئی 2020کو شروع ہوا جب دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان زبردست ہاتھاپائی ہوئی ۔ اس ہاتھا پائی میں بھارت کے بیس جوان ہلاک ہوگئے۔ چین نے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی ۔

دونوں ممالک حالیہ سرحدی کشیدگی کو حل کرنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر مسلسل بات چیت کررہے ہیں لیکن اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک موجودہ صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی لیکن بھارت اور چین دونوں نے اسے مسترد کردیا۔

آب آئیے جانتے ہیں چین اور بھار ت کا تقابلی جائزہ۔

بھارت کا رقبہ 3287469 ( بتتیس لاکھ) مربع کلو میٹر ہے اور چین کا رقبہ 9596960 مربع کلو میٹر( پنچانویں لاکھ)

بھارت کا ساحلی علاقہ 7516 کلو میٹر ہے اور ، چین کا ساحلی علاقہ 14,500 کلو میٹر ہے ۔

بھارت کی آبادی ایک ارب 33 کڑور ہے اور چین کی آبادی ایک ارب 37 کڑور ہے۔۔

بھارت میں جمہوری پارلیمانی نظام ہے اور چین میں یک جماعتی غیر جمہوری نظام ہے۔

بھارت کی جی ڈی پی 2256 بلین ڈالر ہے اور چین کی جی ڈی پی 11218 بلین ڈالر ہے۔

بھارت میں پر کیپٹا جی ڈی پی 6616 ڈالر ہے اور چین میں پر کپٹا جی ڈی پی 15399 ڈالر ہے ۔

بھارت میں فی کس آمدنی 1743 ڈالر ہے اور چین میں فی کس آمدنی 8806 ڈالر ہے ۔

بھارت میں ایجوکیشن کی شرح 74.04 فیصد ہے اور چین میں ایجوکیشن کی شرح 91.6 فیصد ہے۔

بھارت میں فوج کی تعداد بارہ لاکھ 1200000 سے زیادہ ہے ۔، چین میں فوج کی تعداد 2300000 تئیس لاکھ ہے ۔

بھارت میں 12 بڑی اور 200 چھوٹی بندر گاہیں ہیں۔ چین میں 130 بڑی اور 2000 درمیانے سائز کی بندرگاہیں ہیں ۔

بھارت میں 126 ایئر پورٹ ہیں اور چین میں 220 سے زیادہ ایئر پورٹ ہیں ۔

ریلوے نیٹ ورک بھارت میں ایک لاکھ انیس ہزار 119630 کلو میٹر، ہے ۔ چین میں ریلوے نیٹ ورک ایک لاکھ اکیس ہزار 121000 کلو میٹر ہے ۔

بھارت میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد ہے ۔ چین میں بھی بے روزگاری کی شرح دس فیصد ہے ۔

stqasmi@gmail.com