مسلم پرسنل لاء کی آگہی مہم کیوں؟ اور کیسے؟

ahmad-shahzad-qasmiاحمد شہزاد قاسمی
گزشتہ رام انتخابات کے بعد سے مسلمانا نِ ہند کی مخصوص ملی شخصیت اور انفرادیت جس قسم کے کھلے ہوئے خطروں اور حملوں کے نرغہ میں گھری ہوئی ہے جیسے جیسے ہتھکنڈے اور ہر سطح کے منصوبہ بند طریقے اس کے تشخصات کو فنا کر دینے اور اول سے آخر تک اکثریت کا ہمہ رنگ ضمیمہ بنا دینے کے لئے استعمال ہوئے ہیں ان میں سب سے نمایاں مسلمانوں کے عائلی قوانین کو ختم کر کے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش ہے۔
اسلام کے قانونِ طلاق کو عورت کے حقوق و آزادی کے خلاف تصور کر کے اس پہ پابندی لگانے کی حالیہ کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے 1970 کی دہائی میں مرکزی قانون کمیشن کے چیئر مین اور سابق چیف جسٹس (سپریم کورٹ) ڈاکٹر پی بی گجندر گڈکر نے اپنے ایک لیکچر میں روایتی قانون اور سماجی تبدیلی کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فر مایا تھا کہ یکساں سول کوڈ کی طرف پہلے قدم کے طور پر مسلمانوں کے لئے شادی اور طلاق کے (نئے) قوانین بنائے جانے چاہیءں، انہوں نے صرف شادی اور طلاق کو ہی نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ پورے مسلم پرسنل لاء کو ہی ختم کر نے کے لئے یہ کہا تھا کہ مسلم پرسنل لاء ملک کی جمہوری روایات سے میل نہیں کھاتا اور اس میں تبدیلی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے موصوف نے اسی پر بس نہیں کیا تھا بلکہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی نصیحت کی تھی کہ وہ اپنے عام مسلمان بھائیوں کو سمجھائیں کہ شادی اور وراثت وغیرہ کے جو قوانین قرآن دیتا ہے، وہ اب بر محل نہیں ہیں۔ موصوف کی اس نصیحت سے مسلمانوں کے بزعمِ خود جدید دانشوروں کی کافی ہمت افزائی ہوئی تھی، چار دہائیوں بعد آج پھر وہی صورتِ حال ہے کہ مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے بھی کچھ لوگ اس بات کے کوشاں ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کی کچھ اصلاح کرائی جائے اس طرح کی صورتِ حال کے سدِ باب کے لئے ہندوستان میں علمِ دین کے سب سے بڑے مرکز دارالعلوم دیوبند کے سابق سربراہ حضرت مولا نا قاری محمد طیب صاحب نوّ راللہُ مَر قَدَہ نے ملت کے علماء اور راسخ العقیدہ اربابِ فکر و دانش کا ایک نمائندہ اور ہمہ گیر اجتماع کر نے کی طرف قدم اٹھایا تھا اور اس مقصد کے پہلے قدم کے طور پر ایک محدود اور مختصر سا اجتماع 14 ؍15 مارچ _ 1972 _ کو دارالعلوم دیوبند میں ہوا تھا، اس اجتماع میں کء اہم تجاویز پاس ہوئیں اور اسی اجتماع میں ایک ایسے بڑے اجتماع کے انعقاد کی ضرورت شدت سے محسوس کی گء جو بلا لحاظ اختلافِ مسالک تمام ہی مسلمانوں کی نمائندگی کرتاہو اسکے نتیجہ میں اپریل 1973 کے پہلے ہفتہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی تشکیل عمل میں آئی، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی خدمات کے مقاصد کے لئے دو محاذ چنے تھے، ایک دفاعی اور دوسرا آگاہی، شریعت دشمنوں کے ذریعہ مسلمانوں کے شرعی و عائلی معاملات میں کی جانے والی مداخلت کے خلاف محاذ آرائی دینی احکام کے خلاف نیز مسلمانوں کے پرسنل لاء کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا دفاع خصوصاً یکساں سول کوڈ کے عدمِ نفاذ کو یقینی بنانا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خدمات کا دفاعی پہلو ہے، دفاعی محاذ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مکمل کامیاب رہا اور جب جب ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی گئی یا مسلمانوں کے قانونِ شریعت کے خلاف فیصلہ کیا گیا تو بورڈ نے اس کا بھر پور تعاقب کیا، بورڈ کی خدمات کا دوسرا پہلو آگاہی ہے، جس کے تحت بورڈ مسلمانوں کو ان کے جملہ شرعی و عائلی معاملات کا اسلام میں جو حل موجود ہے وہ احکامِ الٰہی اور احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بتائے گا اور ان کی اس جانب آگاہی اور تر بیت کی جائے گی نیز بین المسالک و بین المکاتب اتحاد واتفاق کا قیام کیا جائے، بورڈ کی خد مات کا یہ پہلو تا ہنوز تشنہ لبی کا شکار ہے۔
بورڈ نے اگرچہ مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لئے متعدد کانفرنسیں جلسے اور سیمینار وغیرہ منعقد کرائے ہیں لیکن عوامی سطح پر بورڈ کا پیغام پہنچانے کے لئے چند بڑے شہروں سیمینار اور جلسوں کا سہارا ناکافی ہے، اس کے لئے علاقائی سطح پر ضلع اور قصبات کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ کئی ماہرین اور دانشوران نے یہ تجویز رکھی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی نگرانی میں تحصیل یا ضلع سطح پر دارالقضا کا قیام عمل میں لائے، میرے خیال سے اسی نہج پہ حلقہ وارانہ گشتی گروپ تشکیل دئے جائیں جو ہر چھوٹے بڑے دیہات میں پہونچ کر مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ وہ اپنے عائلی مسائل کے مقدمات اگر ملکی عدالتوں میں لے کر جایءں گے تو آپ کے تشخص و انفرادیت کے ساتھ ساتھ آپ کے ایمان و عقائد پر بھی ضرب لگائی جائے گی۔ یکساں سول کوڈ کے مکھوٹہ کے ساتھ سامنے آنے والے دین دشمنوں کی راہ آسان ہو جائے گی، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد کے خطرات سے انہیں آگاہ کریں، انہیں بتائیں کہ اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو پھر مسلمانانِ ہند کے ساتھ غرناطہ اور اندلس کی تاریخ کا تکرار کیا جا ئے گا۔
دارالقضا (شرعی عدالتوں) کے فوائد بتاکر مسلمانوں کو شرعی عدالتوں کی طرف مائل کریں، برادرانِ وطن کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ طلاقیں تین ہی ہو تی ہیں ایک یا دو کا ان کو تصور بھی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ گاؤں دیہات میں جب طلاق کی نوبت آتی ہے اکثر تین طلاق ہی دی جاتی ہیں، دیہاتوں میں عام طور سے مساجد کے امام صرف حافظ ہوتے ہیں، جو دینی احکام کی تفصیلی سمجھ نہیں رکھتے اور نہ ہی جمعہ وغیرہ میں خطبات (مقامی زبان میں تقریر ) کی اہلیت رکھتے ہیں، اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ ایسی کمیٹیاں تشکیل دے جو گاؤں گاؤں پہونچ کر مسلمانوں کو دینی احکام کے بارے میں آگاہ کرے، خاص طور سے طلاق کے بارے میں کہ طلاق کیوں؟ کیسے؟ کب؟ اور کتنی؟ اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء کے متعلق صحیح صورتِ حال سے واقف کرائے اور وہ پوری بصیرت کے ساتھ جان لیں کہ مسلم پرسنل لاء کی بنیاد کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا رہی ہے؟ دستورِ ہند میں اسے کیا حیثیت دی گئی ہے؟ اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ حکومت یا نام نہاد ترقی پسندوں کو مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا حق ہے یا نہیں؟ تا کہ وہ پوری واقفیت اور ذہنی تیاری کے ساتھ نام نہاد ترقی پسبدوں کی یورش اور حکومت کے ارادوں کا مقابلہ کر سکیں۔(ملت ٹائمز)

SHARE