حضرت مولانا قاسم مظفر پوریؒ: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

 مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

(نائب ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ) 

دار القضاء امارت شرعیہ کے قاضی شریعت، وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق صدر مدرس، مدرسۃ البنات مادھوپور مظفر پور کے بانی و ناظم درجنوں مدرس سلامیہ بشمول ادارہ سبیل الشریعہ آواپور، شاہ پور سیتامڑھی کے سر پرست، اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن اساسی، مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ دربھنگہ کے صدر، نامور عالم دین، مشہور فقیہ، بڑے محدث، ادلۃ الحنفیہ کے مصنف، اچھے خطیب، اسلاف کی نشانی، تواضع، انکساری کے پیکر، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ کا یکم ستمبر ۲۰۲۰ء مطابق ۲۱/ محرم ۱۴۴۲ھ بروز سوموار صبح کے تین بجے وصال ہو گیا، ان کی عمر تراسی (۸۳) سال تھی، گذشتہ کئی ماہ سے وہ صاحب فراش تھے، پہلے فالج کا حملہ ہوا، قبل ہی سے دوران سر اور کان میں تکلیف رہا کرتی تھی، پھر سانس کی تکلیف بڑھی، پھیپھڑے میں بلغم جم گیا، پہلے مظفر پور اوشا نرسنگ ہوم جورن چھپرہ، مظفر پور میں علاج چلتا رہا، پھر مظفرپور ہی کے ایک نامور اسپتال گلیکسی میں بھرتی کرایا گیا، دوا علاج کے ساتھ دعا بھی مسلسل جاری رہی، تندرست ہو کر گھر لوٹ آئے، کھانا پینا بھی جاری ہو گیا، تنفس کی کیفیت بھی جاتی رہی، لیکن وقت موعود آگیا تھا، اس لیے جب لوگ ان کی صحت کے بارے میں پر امید ہوگیے تھے تو اچانک چل بسے، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز ظہر کوئی سوا دو بجے ان کی رہائش گاہ زکریا کالونی نزد مسجد ادا کی گئی، حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب دامت برکاتہم نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور زکریا کالونی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ایک صاحب زادہ اور دو صاحب زادیوں کو چھوڑا، صاحب زادہ مولانا عبد اللہ مبارک ندوی قطر کی ایک مسجد میں امام ہیں، لاک ڈاؤن اور پروازوں کے موقوف ہونے کی وجہ سے ان کی شرکت تجہیز وتکفین میں نہیں ہو سکی، امارت شرعیہ، المعہد العالی اور دار العلوم الاسلامیہ کے ذمہ داروں اور اساتذہ پر مشتمل ایک مؤقر وفد حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے تجہیز وتکفین میں شریک ہوا، جس میں راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) بھی تھا۔ انتقال سے ایک ہفتہ قبل امارت شرعیہ کا ایک مؤقر وفد مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب قائم مقام ناظم امارت شرعیہ کی قیادت میں عیادت کے لیے بھی حاضر ہوا تھا۔

حضرت کے وصال سے پوری علمی وروحانی دنیا سو گوار ہوئی اور کہنا چاہیے کہ ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، رسماً نہیں حقیقتاً۔ ان کے انتقال سے علماء، صلحاء، شاگرد، اور خدمت گذاروں کا مغموم وملول ہونا فطری تھا، لیکن سب سے زیادہ اس جدائی کا اثر حضرت کے بھائی حافظ محمد ناظم اور حضرت کے ناتی مولانا تقی احمد القاسمی پر دیکھنے کو ملا، دونوں بھائی کی محبت مثالی اور نواسہ سے حضرت کی محبت فطری تھی، اب حضرت کی ترقی درجات، مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کے علاوہ کیا بچ گیا ہے۔

حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری بن محمد معین الحق بن محمد ابراہیم بن فخر الدین بن لال محمد کی پیدائش ١٩٣٧ اور(اسناد کے مطابق ۲۲/ شوال ١٣٦٢ھ مطابق ٢٣/ اکتوبر ١٩٤٣ء) میں مادھوپور، ڈاک خانہ انگواں وایا ججوارہ ضلع مظفر پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مادھوپور سے متصل موضع انگواں میں پائی، پھر قریب کے گاؤں ملک پور میں تعلیم حاصل کرنے لگے، یہ گاؤں دربھنگہ ضلع میں ہے، لیکن مادھوپور سے قریب ہی ہے، ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں داخل ہوئے یہاں عربی اول کا سال مکمل کیا، مولانا عبدا لجبار مونگیریؒ اور مولانا مقبول احمد خان صاحب سے عربی کی ابتدائی کتابیں نحو میر وغیرہ کا درس لیا، ١٩٥١ء میں مدرسہ امدادیہ چلے آئے اور یہاں متوسطات تک تعلیم حاصل کی، یہاں انہوں نے حضرت مولانا ریاض احمد چمپارنی، مولانا محی الدین صاحب سمستی پوری، مولانا عبد الرحیم صاحب دربھنگوی، مولانا عبد الحفیظ صاحب سدھولوی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا، ١٩٥٤ ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کا قصد کیا اور کوئی پانچ سال دار العلوم دیو بند میں گذارے، حضرت مولانا فخر الدین صاحب سے بخاری شریف پڑھی، بخاری شریف کے چونسٹھ اسباق شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒصاحب سے پڑھنے کی سعادت پائی،علامہ ابراہیم بلیاویؒ کی توجہ خاص سے منطق وفلسفہ اور حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ کے زیر سایہ عربی زبان وادب سے رشتہ قائم ہوا، ١٣٧٧ھ مطابق ١٩٥٨ء (١٩٥٧انہیں) میں سند فراغ حاصل کیا، اور اس شان سے حاصل کیا کہ حضرت مولانا فخر الدین صاحب ؒ اور حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ نے خصوصی سند سے نوازا، مسلسلات، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ سے پڑھ کر حضرت سے سند مسلسلات الحدیث پائی، اس طرح حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ کا علمی رشتہ مظاہر علوم سہارن پور سے بھی قائم ہو گیا، دورہئ حدیث کے سال جو حاضری کی رپورٹ دفتر تعلیمات نے حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی (اس وقت کے ناظم تعلیمات) کے دستخط سے ان کے والد کو روانہ کیا تھا اس کے مطابق ان کا فارم نمبر ٤٤٧ تھا، پورے سال مولانا مسلم، ترمذی، ابو داؤد میں ایک دن بھی غیر حاضر نہیں رہے، بخاری شریف میں ایک دن، نسائی شریف میں تین دن اور قرأت کی گھنٹی میں دو دن کسی عذر کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے، کامیابی دورہ میں اول پوزیشن سے حاصل کی، بخاری شریف میں ٥٣، نسائی شریف میں ٥٣، ابن ماجہ میں ٥٣، مسلم شریف میں ٤٠، ابو داؤد میں ٥٢، ترمذی شریف میں ٥٢، طحاوی شریف، شمائل ترمذی، مؤطا امام مالک اور مؤطا امام محمد سے ہر کتاب میں ٥٢،٥٢، قراء ت میں ٤٨، اور فوائد مکیہ میں ٤٩ نمبرات حاصل کئے، اس زمانہ میں مجموعی نمبرات صرف پچاس ہوا کرتے تھے، ۷۷۔٧٦ھ کے دا رالعلوم دیو بند کی تعلیمی رپورٹ میں درج ہے کہ ”دورہ حدیث کے امتحان میں مولوی محمد قاسم مظفر پوری (فارم نمبر) ٤٤٧ اول نمبر سے کامیاب ہوئے، دوسرے نمبر پر مولوی سید اسماعیل شہاب الدین مدراسی (فارم نمبر) ٤٠٥ کا میاب ہوئے اور تیسرے نمبر پر مولوی قمر الدین گورکھپوری (فارم نمبر) ٤٣٠، محمد اکیابی (فارم نمبر) ١٦٥رہے، اس سال دورہ حدیث میں ایک سو تراسی طلبہ شریک امتحان ہوئے تھے۔

اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ ثانی حضرت مولانا قمر الدین صاحب دامت برکاتہم حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری کے رفیق درس تھے اور وہ تیسری پوزیشن لائے تھے، حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری کو دورہ میں اس نمایاں کامیابی پر تقسیم انعامات کے موقع سے حسامی مع شرح نامی، ایضاح الادلۃ، الابواب التراجم، مسلم الثبوت، خلاصۃ البیان دیا گیا تھا، ان دنوں دو انعامات دیے جاتے تھے ایک خصوصی، دوسرے عمومی، یہ عمومی انعام کی تفصیل ہے، خصوصی انعام میں ترمذی شریف، نور الانوار، شرح وقایہ اور ایک کتاب دی گئی تھی جس کا نام سند انعام امتحان سالانہ دار العلوم دیوبند بابت ١٣٧٧ھ میں پڑھا نہیں جا سکا، تدریسی زندگی کا آغاز مادر علمی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ سے کیا، صرف ایک سال کے بعد ١٩٥٩ء میں مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول دربھنگہ آئے اور کم و بیش ٤٦/ سال تک یہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے،ان کا درس انتہائی مقبول تھا، انہوں نے جو علماء کی فوج در فوج تیار کی وہ ملک وبیرون ملک میں اپنی ملی، علمی اور تعلیمی خدمات کی وجہ سے معروف ومشہور ہے۔ حضرت مولانا محمد عثمان صاحب قاضی شریعت دربھنگہ کی زندگی میں وہ بطور معاون قاضی دربھنگہ کے کار قضا کو دیکھتے رہے، ان کے وصال کے بعد ١٩٧٧ء میں وہ امارت شرعیہ کے مستقل قاضی بنائے گئے، مدرسہ رحمانیہ سوپول سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ برسوں تک سوپول اور شہر دربھنگہ میں کار قضا کو انجام دیتے رہے، پورے ہندوستان میں کار قضا کی تربیت کے کیمپوں میں اصل مربی وہی ہوا کرتے تھے، ان کی معاونت کے لیے رفیق سفر کے طور پر مولانا انظار عالم قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ ان کے ساتھ ہوتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ اور موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے دور میں امیر شریعت کے نام استغاثہ کی درخواستوں کی سماعت کی ذمہ داری بھی انہیں کی تھی، انہیں ان حضرات سے قلبی محبت تھی، وہ امارت شرعیہ کو اپنے ایمان و یقین کا جز سمجھتے تھے، اس کے استحکام، وفود کے دورے اور دیگر معاملات میں ان کی فکر مندی قابل رشک اور لائق ستائش تھی، انہوں نے دوران علالت اپنے قریبی لوگوں سے بار بار اس بات کو دہرایا کہ امارت شرعیہ سے میرے بعد تم لوگوں کا رشتہ کسی طرح کمزور نہ ہو۔

مولانا کو اللہ تعالیٰ نے مشکل جھگڑوں کے تصفیہ کی غیر معمولی صلاحیت دی تھی، وفود کے دورے میں ہم لوگ تقریر وغیرہ میں مشغول ہوتے اور مولانا یا تو جھگڑوں کے تصفیے میں مشغول رہتے یا بیت المال کے استحکام کے لیے خصوصی ملاقاتیں کرتے ہوتے۔ ۲۰۰۲ء میں حضرت قاضی صاحب نے اپنے انتقال سے ایک ماہ قبل انہیں مدرسہ اسلامیہ شکر پور کا صدر نامزد کیا تھا، اس کے علاوہ قاضی صاحب کے بعد وہ وفاق المدارس کے صدر منتخب ہوئے اور تا حیات ان دونوں عہدوں کو عزت بخشی، آپ نے تین حج اور کئی عمرے کیے، ٢٠١٥ء میں جب میں شاہ سلمان کی دعوت پر غسل کعبہ کی تقریب کے موقع سے عمرہ کو جا رہا تھا تو سفارت خانہ کے ایک ذمہ دار نے مجھے ایک اور عالم کا نام عمرہ کے لیے پیش کرنے کو کہا، میں نے حضرت کا نام پیش کر دیا، چنانچہ عمرہ کے اس سفر میں مجھے ان کے ساتھ رہنے کا طویل موقع ملا، وہ بار بار کہتے تھے کہ آپ کی وجہ سے میرا یہ عمرہ آخری ہو گیا،میں عمر کی جس منزل میں ہوں اس اعتبار سے یہ آخری ہی معلوم ہوتا ہے، اور واقعی وہ ان کا آخری عمرہ ثابت ہوا۔

حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا، سادی اور صاف ستھری زبان میں اپنی بات لوگوں تک پہونچا دیتے، خطیبانہ گھن گرج اور لفاظی انہیں نہیں آتی تھی، ان کی تقریر از دل خیز د بردل ریزد کی صحیح مصداق تھی، ان کی تقریروں سے بہار ہی نہیں ہندوستان کے بہت سارے علاقوں میں بڑا فائدہ پہونچا اور بہت سارے لوگ گناہوں سے تائب ہوئے۔چشمہئ فیض ململ مدھوبنی کے ایک جلسہ میں میری بھی تقریر ہونی تھی، میں نے دریافت کیا اتنے بڑے بڑے لوگوں کی موجوگی میں میں کیا بولوں، فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کرسی پر بیٹھ جاؤ، جو آیت اللہ ذہن میں ڈالیں، تلاوت کرو اور شروع ہوجاؤ، اللہ کی مدد آئے گی، تب سے تقریر میں میرا یہی معمول ہے۔

مولانا درس و تدریس اور وعظ وخطابت کے ساتھ تصنیف وتالیف اور تحقیق کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے، تعلیمی دور سے آخر عمر تک بہت سارے علمی تحقیقی کام کیے، حدیث شریف پر ان کی تحقیق اور تخریج کا بڑا ذخیرہ ان کے محفوظے میں ہے، نافعہ فی علم اصول الحدیث، اسلام اور دولت کی تقسیم، مکاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت وضرورت، رہنمائے مفتی، قرآنی سورتوں کا تعارف غیر مطبوعہ شکل میں ہے، جب کہ رشتہ داروں کا احترام کیجئے اور یتیموں کا اکرام کیجئے، بینک سے متعلق چند مسائل، مسجد کے آداب اور اس کے احکام، مکاتیب رحمانی اور رہنمائے قاضی، معلم ومربی کی بنیادی صفات، مطبوعہ شکل میں موجود ہے، ان کا سب سے بڑا مضبوط علمی کام الادلۃ الحنفیہ ہے، جس کی دوسری جلد ان کے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ ندوی کے تحشیہ کے ساتھ دار القلم دمشق سے چھپ چکی ہے، تیسری جلد ابھی آنہیں پائی تھی کہ حضرت نے اس دنیا سے ہی منہ موڑ لیا، الادلۃ الحنفیہ کی پہلی جلد علامہ محمد بن عبد اللہ مسلم البھلوی نے تصنیف کی ہے؛ لیکن وہ اس کتاب کی پہلی جلد جو مسائل عبادت پر مشتمل ہے، مکمل کرسکے تھے، اس کا تکملہ دو جلدوں میں حضرت نے کیا تھا، اس کتاب کو دیکھ کر ان کی علمی عبقریت، نصوص کے استحضار، علت وحکم کی تخریج اور فقہی جزئیات پر کامل نظر کا پتہ چلتا ہے۔

حضرت مولانا سے میری ملاقات کوئی تیس سال پرانی تھی، پہلی ملاقات میں ہی ان کی تواضع اور انکساری کا سکہ قلب پر جم گیا، ہوا یہ کہ میں جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی کے جلسے میں گیا تھا، حضرت کی عادت تھی کہ وہ علماء کو اپنے گاؤں اور ١٤٤١ھ میں جب انہوں نے مدرسۃ طیبہ مادھوپور میں قائم کیا تو مدرسہ کے جائزہ کے لیے لے جانے پر مخلصانہ زور دیتے تھے، اس سفر میں مجھے بھی پکڑ لیا کہ تہیں جانا ہے، سفر کے لیے اس وقت جیپ دستیاب تھی، بیچ والی سیٹ پر دوسرے لوگ تھے، میں آگے کی سیٹ پر اندر بیٹھ گیا اور میرے بازو میں حضرت مولانا تشریف فرما ہوئے، کچھ دور جا کر گاڑی رکوائی اور مجھے اترنے کو کہا، میں کچھ سمجھ پاتا اس کے قبل ہی وہ اندر گیر کے پاس بیٹھ گیے اور مجھے اپنی والی جگہ پر بٹھا یا، میرے اصرار کرنے پر کہنے لگے میں کمزور آدمی ہوں کسی جھولے میں پھینکا گیا تو ہاتھ پیر سب ٹوٹیں گے، آپ مضبوط آدمی ہیں رکاوٹ بن کر بیٹھیں گے تو میں بھی محفوظ رہوں گا، حضرت نے ایسا صرف اس لیے کیا تاکہ مجھے گِیَر کے پاس بیٹھنے سے جو کلفت ہو رہی تھی اس سے محفوظ رہوں۔ وہ اپنے گھر اور مدرسہ آنے والے علماء اور صلحاء کو ہدیہ دینے کا خاص اہتمام کرتے، اس مرض الموت میں بھی عیادت کرنے والوں کو ہدیہ سے نوازتے رہے، یہ ان کے مزاج کا لازمی حصہ تھا، میں نے طبقہ علماء میں مفتی سعید احمد پالن پوریؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ سے زیادہ اس پر عامل کسی کو نہیں پایا۔ احقر پر شفقت اور توجہ کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے کوئی پندرہ دن قبل اپنے نواسہ مولانا تقی القاسمی اور مولانا کلیم اللہ صاحب نائب ناظم مدرسہ طیبہ کو بعد نماز مغرب میرے گھر بھیجا اور سلام کے بعد دعا کے لیے کہلوایا، بیماری کے زمانہ میں میرا آنا جانا کثرت سے ہو رہا تھا، اس کے باوجود ان کا یہ کہلوانا توجہ خاص کی علامت ہے۔

حضرت مولانا بعض موضوعات پر لکھنے کو مجھے اکساتے رہتے تھے، جب دہلی میں ایک لڑکی نربھیا کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، تو حضرت نے اس موضوع پر لکھنے کا مجھے حکم دیا، میرا تفصیلی مضمون ”عزت وناموس کی حفاظت ملک کے لئے بڑا چیلنج“ ان کی اسی خواہش کی یادگار ہے، جب وہ مضمون شائع ہوا تو بڑی دعائیں دیں۔ وہ اسلام کے اجتماعی نظام پر پوری کتاب تیار کرانے کے خواہشمند تھے اس کے لیے میں نے خاکہ بھی تیار کر لیا تھا؛ لیکن مشغولیات کی وجہ سے یہ کام اب تک آگے نہیں بڑھ سکا۔

وہ اصلاح معاشرہ کے لیے انتہائی فکر مند تھے، اور پیرانہ سالی کے باوجود پورے ملک کا سفر کیا کرتے تھے، قادیانیوں کے تعاقب کے لیے بھی ان کی محنت مثالی تھی، جب میرامقالہ ”قادیانیت اور اس کے شرعی احکام“ منظر عام پر آیا تو اسے انتہائی مفید بتایا اور بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ وہ اردو کے ساتھ اسلامی موضوعات پر پمفلیٹ اور ہینڈبل بندی میں بھی طبع کرانے پر زور دیتے، فرماتے کہ اردو کی محبت اپنی جگہ؛ لیکن اگر آپ کو اپنی باتیں بڑے حلقوں تک پہونچانی ہے تو ہندی میں کتابوں کا چھپوانا انتہائی ضروری ہے۔

حضرت مولانا خط لکھنے میں کوتاہی نہیں کرتے تھے، کثرت سے خط لکھتے، میرے پاس ان کے درجنوں خطوط محفوظ ہیں، جو انہوں نے مختلف موقعوں پر مختلف مسائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لکھے، کبھی موقع ہوا تو ان خطوط کے حوالہ سے بھی کچھ گفتگو کروں گا۔مولانا ہم سے جدا ہو گئے، ان کی یادوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہے۔

زکریا کالونی مظفر پور کے قبرستان میں ہم نے ایک شخص کو دفن نہیں کیا، بلکہ علم وعمل کے پیکر، اسلاف کی یادگار بڑے فقیہ، بڑے محدث، بڑے خطیب کو سپرد خاک کر دیا ہے، ایک گنج گراں مایہ کو تہہ خاک ڈال دیا ہے اور اب خاک سے یہ پوچھنے کی بھی سکت نہیں ہے کہ:

تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

(بشکریہ نقیب)