مفتی محمد انصار قاسمی
جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ،سپول (بہار)
عزم وحوصلہ کےپیکر، کام کےدھنی، کردار میں پختہ، ملنسارومتواضع،ایک سےایک منصوبے کوزمینی سطح پراتارنے کےفکرمند،تعلیمی ،صحافتی ،ملی،فلاحی ،سماجی اورسیاسی میدان کےشہسوار، بیدار مغز عالم دین ، متوسط و درمیانہ قد، سانولارنگ، مسکراتاچہرہ،بغیر کسی چمک دمک کے اکثر وبیشتر رنگین کرتااور سفیدپائجامے میں ملبوس، آنکھوں پرچشمہ اورسرپرجالی دار ٹوپی ، چلتے پھرتےاوراٹھتے بیھٹتے بھی ذہن میں کوئی نہ کوئی خاکہ گردش کرتارہتا،ان کانام ہے مولانا ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی۔ ان کی انمول تحریروں کے ذریعے توپہلےسےہی واقفیت تھی؛ لیکن پہلی مرتبہ 2012 کےاواخر میں ان کے رفیق وہمدم حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی زیدمجدہ بانی ومہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدھوبنی سپول کےساتھ ارریہ ضلع کے گیاری (ان کے سسرال) میں ان سےملاقات ہوئی، غالباً وہ ایک دن قبل ہی حج بیت اللہ سےواپس ہوئے تھے،دسترخوان لگنےسےظہرانہ سےفراغت تک میں انہوں نےسفرحج اورحرمین شریفین کی پوری سرگذشت سنادی، یہ ان سےمیری پہلی ملاقات تھی، ان کی بابصیرت گفتگو، دل دردمند اورفکرارجمند نےایسی چھاپ چھوڑی کی کہ پھر قریب ہوتاگیا۔ آخری ملاقات 15/جون 2020 کوارریہ میں سابق رکن پارلیمنٹ سرفراز عالم کی رہائش گاہ پر ہوئی، لاک ڈاؤن کےبعد مزدوروں کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی،اس کسمپرسی کی حالت میں مزدور اور میڈل کلاس کے لوگ جو مختلف شہروں میں آباد تھے، ٹرکوں میں بھرکر، رکشہ، سائیکل اور بہتیرے توپیدل ہی اپنے گھر آنے پرمجبور ہوگئے، اس حالت زار کودیکھتے ہوئے انہوں نےسیمانچل گاندھی الحاج تسلیم الدین مرحوم کے صاحبزادے جناب سرفراز عالم سابق رکن پارلیمنٹ کی قیادت میں سیمانچل وکاس مورچہ کے زیر اہتمام ًسیمانچل مزدور آندولن ًکےنام سےمہاجر مزدوروں اورمحنت کش کسانوں کےلئے بگل بجایا، جس میں نمایاں حروف میں لکھا تھا:ابھی تویہ انگڑائی ہے، آگےاورلڑائی ہے۔ اس موقع پر سیمانچل کی مختلف ملی سماجی اور سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں،جنہوں نے یہ عہد کیاکہ مضبوطی کے ساتھ یہ لڑائی لڑی جائےگی،مستقبل کے لئے ایک جامع خاکہ اور منصوبہ بنایا گیا، تجاویز بھی تیار ہوئں، یہ ان سےمیری آخری ملاقات تھی۔ ویسےیکم جولائی کو ارریہ سےوایاکولکاتا دہلی جاتے ہوئے ان سےفون پربات ہوئی تھی، وہ کہنے لگےکہ ارداہ یہ تھاکہ وایاپٹنہ دہلی جائیں، مظفرپور میں فقیہ العصر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری کی عیادت کرتےہوئے(یکم ستمبر کو وہ بھی اللّہ کےپیارے ہوگئے اناللہ واناالیہ راجعون،طاب اللّہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ) مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کے ساتھ 2020 اسمبلی انتخاب کے سلسلے میں پٹنہ میں سیاسی رہنما سے ملاقات ہوجائے؛ ادھر سےجانہیں سکا، اچھا ان شاء اللّہ… کیامعلوم تھا کہ اب لوٹ کر نہیں آنےوالے ہیں،کہ اب وہ ایسے پردیس جارہے ہیں جہاں سےواپسی نہیں ہوگی!
گزشتہ آٹھ سالہ مدت میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی نسبت سے مختلف تقریبات، اجلاسوں، سیمیناروں، کنونشنز اور کانفرنسوں میں ان سے ملاقاتیں رہیں، جن میں ان کی سعی پیہم،خوبیوں، علمی کمالات،فکری وسعت کودیکھاجوانہیں دوسروں سےممتاز کرتی ہیں۔ ان کی حیات وخدمات کےکئی پہلوہیں:
1. ہرکامیاب اورہنرمندانسان کے پیچھےکسی نہ کسی کی تربیت کارفرما ہوتی ہے، مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کوپڑھنے لکھنے سےغیرمعمولی دلچسپی ورغبت شروع سےرہی، دارالعلوم دیوبند سےفراغت کے بعد آدرش مدھیہ ودیالیہ ککڑوا اسکول میں تدریس میں لگ گئے، اسی درمیان ان پرہمہ جہت خوبیوں کے مالک،رجال سازشخصیت،کامیاب مدرس ،صرف عالم ہی نہیں بلکہ عظیم مفکرودانشور،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر، آل انڈیا ملی کونسل کے بانی، امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے قاضی القضاۃ ونائب امیر شریعت، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کےروح رواں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی دوررس نگاہیں پڑگئیں، حضرت قاضی صاحب نےاس درنایاب،چمکتے شمس ، نوعمراور جواں سال فاضل کوآل انڈیا ملی کونسل بہار کےآرگنائزر کی حیثیت سے اپنےپاس رکھا، مولانا عبدالقادر شمس قاسمی خود لکھتے ہیں کہ :حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی میرے لئے عقیدت کےمحور کی حیثیت سے ہمیشہ ذہن ودماغ پرحاوی رہے، حضرت قاضی صاحب کی خصوصی تربیت اورسرپرستی مجھے حاصل رہی اور تقریباً آٹھ برسوں تک انہوں نے سایے کی طرح مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ (جن سے روشن ہے کائنات ص :120)
اس درمیان میں مولانا عبدالقادر شمس قاسمی ً ماہنامہ ملی کارواں ً اور ً ماہنامہ ملی اتحاد ً ًکےمدیر رہے، مزید انہیں نکھرنے کابہترین موقع یہ ملاکہ حضرت قاضی صاحب کےعلمی و تنظیمی سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے ملک اور بیرون ممالک کے اہم علمی، سیاسی اور سرکردہ شخصیات سےملنے، ملک کے گوشے گوشے میں جانےاور وہاں کی صورت حال سے واقفیت ، مختلف النوع پروگراموں میں شرکت، ملی تنظیموں تحریکوں اوراکیڈمیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جس سے ان کی صلاحیت پروان چڑھی، فکر میں وسعت اور کاموں کےسلیقے میں نکھار پیدا ہوا،حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تڑپ، لگن، ملت کے تئیں بےچینی، اور ان کی جدوجہد کو دیکھ کر ان کے اندر بھی جذبۂ عمل موجزن ہوااور کہا جا سکتا ہےکہ یہ آٹھ سال ان کی زندگی کاوہ حصہ ہے جس میں وہ ایک جوہر کی حیثیت سے اجاگر ہوئے اور پھر اپنے مربی اور محسن کےبعد اسی طرز پرچھوٹوں کوآگے بڑھاتے، کاموں کی حوصلہ افزائی کرتے، نئے نئے موضوعات پر اصحاب قلم کوابھارتےپھران کی تحریروں کوشائع کراتے۔ مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کےاس طریقۂ کار سے مستفید ہونے والی نئی نسل کی ایک بڑی جماعت ہے، جوآج قلمی و صحافتی دنیا میں جلوہ بکھیر رہی ہے، وہ ان کی حوصلہ افزائیوں کی مرہونِ منت ہے۔
2. ازھرہند دارالعلوم دیوبند سےفراغت کے بعد انہوں نےالشمس ملیہ کالج ارریہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی سےاعلی تعلیم حاصل کی اورملک کی راجدھانی دہلی میں رہ کر صحافت کے ذریعے نہ صرف اپنی شناخت بنائی؛ بلکہ مین اسٹریم میڈیا میں رہے، لیکن وہ اپنے آبائی وطن کوکبھی نہ بھولے، وہ سیمانچل کی تعلیمی، اقتصادی اور معاشی پسماندگی و بدحالی کے تئیں ہمیشہ فکرمند رہے، یہی وجہ ہے کہ وہ صحافت سےوابستہ رہتے ہوئے اپنے علاقے میں تعلیمی، ملی اور فلاحی خدمات بھی انجام دیتے رہے جن کااحاطہ کرنامشکل ہے۔
3. مکاتب دینیہ کاقیام : مولانا عبدالقادر شمس قاسمی اور مولانا مفتی محمد عارف قاسمی استاد حدیث جامعہ حمیدیہ پانولی گجرات نے”دعوۃ القرآن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ” کے زیر اہتمام سیمانچل کےایسے گاؤں اوردیہاتوں میں جہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا،مکاتب قائم کئے،جس سے بڑی تعداد میں بچےاور بچیاں علم سےبہرور ہوکر دینی و ایمانی اخلاق و کردار کےسانچے میں ڈھل کرزندگی بسر کررہے ہیں، اس وقت مکاتب کےعلاوہ ارریہ ضلع کے ملت نگر فیٹکی چوک ڈوبا میں جامعہ دعوۃ القرآن کےنام سےایک ایسا ادارہ چل رہا ہے، جو دینی وعصری علوم کاحسین سنگم ہے، سیمانچل میں بہت کم وقت میں اپنی ایک شناخت بنالی ہے، تقریباً تین سو طلبہ ہاسٹل میں رہتے ہیں اور اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔
4. مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کاایک اہم کام خدمت خلق اور انسانی ہمدردی بھی تھا:
ہومیراکام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سےضعیفوں سےمحبت کرنا
کمزوروں ،غریبوں ،مجبوروں ،بیواؤں اور یتیموں کی ’’دعوۃ القرآن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘کےذریعے نہ صرف یہ کہ مالی تعاون اوردادرسی کرتےتھےبلکہ انہیں خود کفیل بنانےکےلئے ُ ُبکری پروری ٗ ٗجیسی اسکیم کےذریعے ان کی غربت کوختم کرنےکی کوشش کرتے،جس کانتیجہ بہت مفید رہا۔ اسی طرح ان کے عزائم اور منصوبے میں ہاسپٹل کاقیام بھی تھا، جس کی تعمیر تقریباً تکمیل کے مرحلے میں ہے، گاہے گاہے میڈیکل کیمپ کاسلسلہ اور ٹرسٹ کوحاصل شدہ ایمبولینس کے ذریعےعلاقےکےمریضوں کا کٹیہار میڈیکل کالج یامناسب جگہ علاج و معالجہ کراتے رہتے،ابھی کرونا وائرس کے شروعاتی دور میں ضلع کلکٹر کوپیش کش کی کہ اگرضرورت پڑے توجامعہ دعوۃ القرآن ملت نگر کی عمارت مریضوں کے لئے استعمال کرسکتے ہیں، ہم انہیں ہرطرح کی سہولت پہنچانےکےلئے تیار ہیں،ناگہانی آفات وحوادث کے موقع پر آگےبڑھ کرامداد رسانی کافریضہ انجام دیتے،ساتھ ہی ملک اوربیرون ملک کی ملی اور رفاہی تنظیموں کی توجہ اس علاقے میں مبذول کراتے،سرکاری پروجیکٹ بھی اس علاقے میں لانےکی حتی المقدور کوشش کرتے۔ انھوں نے اپنے واٹس ایپ کےاسٹیٹس(Status) پر لکھ رکھاتھا”میں ہرچہرےپرمسکان دیکھنا چاہتاہوں”اور عملی طورپر وہ اس کے لئے حتی الامکان عملی کوشش بھی کرتے رہے۔
5. مولانا عبدالقادر شمس قاسمی دیانت دار صحافی، سچےقلم کار،زود نویسی اور خوش نویسی کےمالک، اپنےجادوئی قلم سےجس موضوع پرلکھتےحق اداکردیتے،ان کے قلم کاشہرہ دورطالب علمی سے تھا، دارالعلوم دیوبند میں ارریہ ضلع کےدیواری پرچہ” الاصلاح” سےشروع ہوکر “ملی اتحاد” پھر “ملی کارواں” کے ذریعے بلندی طےکرتے ہوئے ہفت روزہ عالمی سہارا کےسب ایڈیٹر اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سینئر سب ایڈیٹر کےعہدے تک اپنی تحریروں کے ذریعے پہنچے، ان کی تحریریں صاف ستھری ہوتیں، اپنی بات جداگانہ انداز میں لکھتے، ہمیشہ ملک کے اقتصادی، سماجی اورسیاسی ایشوز کومضبوطی اوردیانت داری کےساتھ اٹھاتے، ان کی ایک خاص اور ممتاز خوبی یہ بھی ہے کہ جہاں انھوں نے ملک کےاہم معروف، ملی، دینی اورسیاسی شخصیات(جیسے :علامہ شبلی نعمانی، حضرت شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی، اعلی حضرت مولانااحمد رضا خان، ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد،مولانا سیدمنت اللّہ رحمانی،مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ،سرسیداحمد خاں رحمہم اللہ علیہم جواہرلعل نہرو، اندراگاندھی، نیلسن منڈیلاوغیرہ) کی حیات وخدمات پرروشنی ڈالی ،اور ان کے افکار و خیالات کو صفحۂ قرطاس پرثبت کیا وہیں انہوں نےعلاقہ، گاؤں اور دیہات کے وہ لعل وگوہر جن کی روشن خدمات کبھی اجاگر نہیں ہوتیں ،ایسی شخصیات کوبھی اجاگرکیا، اپنےاشہب قلم کی جولانیوں سےتاریخ کے صفحات میں ان گمناموں کے کارناموں کوبھی درج کیا،مثلاً :مخلص وپاکباز عالم دین مولانا علاءالدین مظاہری، الحاج افضل حسین اورشری سبرت رائےسہارا کے والد آنجہانی سدھیر چندرائے کے روشن نقوش اور حیات وخدمات کےضمن میں اس علاقے کی جغرافیائی حدود، دینی وملی تحریکات کاتعارف، یہاں کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کےساتھ ساتھ بےشمار علمی، ادبی سماجی،فلاحی اور سیاسی شخصیات جیسے:مولانا منور حسین صاحبؒ، شاعرمولانا عبدالوحیدثاقب نعمانی، شیخ الحدیث مولانا امام الدین صاحبؒ، ڈاکٹر مسعود شمس، مظہر القیوم مظہر، گولڈمڈلسٹ وثیق الرحمن ایڈووکیٹ، مجاہد آزادی حاجی اولادحسین، ضیاء الرحمن، سابق رکن پارلیمنٹ الحاج جمیل الرحمن وعبدالحلیم وغیرہ کاسرسری طورپرہی سہی لیکن ان کا تذکرہ بھی اپنی تحریروں میں کیا۔ یہ ان کی خوبی ہےکہ ملت کے مخلص اور فکر مند رہنے والے حضرات کوفراموش نہیں کیا۔
6. مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کی ہمیشہ کوشش یہ رہی کہ مسلمان احکام شریعت وسنت کےمطابق زندگی گزارے، عبادت وریاضت،نکاح وطلاق، خریدوفروخت،تجارت وزراعت حتی کہ زندگی کا ہرگوشہ اسلامی رنگ میں رنگ جائے اور مسلمان اپنے پیش آمدہ مسائل و مشکلات کاحل قرآن وسنت کی روشنی میں اصحاب فقہ و فتاویٰ سےمعلوم کرےاس کےلئے انہوں نے علاقہ کی سرکردہ شخصیات اور اصحابِ علم وفضل کی موجودگی میں جنوری 2020 میں دارالافتاء کاقیام عمل میں لایا، جس کےلئے باصلاحیت مفتیان کرام کی ایک ٹیم انہوں نے تیار کی،موقر عالم دین مولانا مفتی علیم الدین صاحب مظاہری شیخ الحدیث وناظم دارالعلوم رحمانی زیرو مائل ارریہ اور مفتی محمد اطہر قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم ترکیلی عیدگاہ ارریہ وجنرل سیکرٹری جمیعۃ علماء ارریہ کونگران اعلٰی اور ذمہ دار بنایا،دارالافتاء کی لائبریری کے لئےتفسیر وحدیث اورفقہ و فتاویٰ کی کتابیں بھی حاصل ہوگئیں،کہ اچانک لاک ڈاون نافذ ہوگیا البتہ آن لائن افادہ و استفادہ کا سلسلہ جاری ہے، لوگ رجوع بھی کررہے ہیں۔
7. عید الاضحی کے دن ہی ان کی طبیعت علیل ہوگئی،دوا سےافاقہ نہ ہونےکی وجہ سے ہولی فیملی میں ایڈمیٹ کیاگیا،پھر شاہین باغ کے کریپس ہاسپٹل میں داخل ہوئے، طبیعت زیادہ بگڑنےپرجامعہ ہمدرد کےمجیدیہ ہاسپٹل میں زیر علاج رہے، جان لیوابیماری کرونا سے متاثر ہوگئے،پلازمہ بھی چڑھایاگیا، اخیر دنوں میں رپورٹ منفی (نگیٹیو ) آئ،امید روشن ہوئی کہ بہت جلد صحت یاب ہوکرواپس لوٹیں گے، تمام تدبیریں اور علاج و معالجہ اپنی جگہ؛ لیکن ٥/محرم الحرام ١٤٤٢ مطابق 25 /اگست 2020 کوڈیڑھ بجے کے قریب زندگی کی48/بہاریں دیکھ کر اپنےمالک حقیقی سے جاملے۔(اناللہ واناالیہ راجعون)
آنکھ سےدورسہی دل سےکہاں جائے گا
جانےوالےتوہمیں یادبہت آئےگا
انتقال کی خبر ملتے ہی ہرطرف سناٹاچھاگیا، جسدخاکی کوآبائی وطن لانےکی تیاری ہورہی تھی کہ احباب و متعلقین آخری دیدار کے لئے جامعہ ہمدرد میں جمع ہوگئے، پہلی نماز جنازہ دہلی میں ہی مولانا شمس تبریز قاسمی چیف ایڈیٹر ملت ٹائمز نےپڑھائی،پھر ایمبولینس کے ذریعے ان کو آبائی وطن ڈوبا ارریہ لایاگیا،26/اگست کوتین بجے کے قریب وہ ارریہ جس کے وہ میرمحفل ہوتےتھے، علمی ادبی اور ثقافتی پروگرام سے زینت بخشتےتھے، نئے نئے عنوان سے تقریب منعقد کرکےلوگوں مدعو کرنے والے،آج ان کاجسد خاکی وہاں سے گذر رہاتھا، غم و اداسی میں ڈوبےہوئے ان کے محبین ،انہی میں ہمارابھی قافلہ (ان کے مخلص دوست ڈاکٹر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی ومہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ بارک اللہ فی عمرہ وعملہ،جناب شاہ جہاں شاد جنرل سیکرٹری سیمانچل ڈیولپمنٹ فرنٹ ،مولانا محمد رضوان قاسمی مظفرپوری نائب صدر خدمت خلق ٹرسٹ انڈیا،مولانا شاہ نواز بدر قاسمی ڈائریکٹروژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ،قاری ظفر اقبال مدنی نائب مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ ،مولانا محمد فیاض قاسمی ،بندہ محمد انصار قاسمی) ان کے پیچھے چل رہا تھا، علاقہ سوگوار تھا، گاؤں میں تاریکی اورافسردگی چھائی ہوئی تھی،گاؤں میں جگہ جگہ دروازے پر وضواور تدفین کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے پانی رکھا تھا، نہلادھلااورکفن پہناکر گھر کے سامنے رکھاگیا، لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے بانس سےگھیر دیاگیا، لگ رہا تھا کہ تھکا مسافرآرام کی نیند لےرہاہے، آہ عبدالقادر شمس! ان کے معاون ودست راست مفتی محمد عارف قاسمی نے بھرائی ہوئی آواز میں ان کی خدمات کامختصرتذکرہ کرتے ہوئے دعاء مغفرت اور بلندی درجات کی درخواست کی، یہیں پہ بعدنماز عصر قریب پانچ بج کر دس منٹ پہ ان کے برادر صغیر مولانا عبدالواحد رحمانی قاسمی نےنماز جنازہ پڑھائی،ارریہ سپول،پورنیہ،کشن گنج ،کٹیہار ،بھاگل پور، سہرسہ اور مظفرپور وغیرہ سےملی، دینی سیاسی و سماجی شخصیات ان کے محبین، احباب اور متعلقین کی بڑی تعدادنےجنازہ میں شرکت کی اور نم آنکھوں سے گاؤں کے متصل ہی آبائی قبرستان میں سپردخاک کردیا۔
آج ہر کوئ اپنی اپنی زبان میں یہ کہ رہاتھاکہ میرامحسن، میرامشفق، میرامونس،میرامعاون،میراہمدم، انگلی پکڑ کر چلانےوالا،اچھاراستہ دکھانےوالا،میرارہبر،میرارہنما اورمیرامشیر چلاگیا ،یہ حقیقت ہے کہ ان کاانتقال ان کے اہل خانہ، جامعہ دعوۃ القرآن ،دعوۃ القرآن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ہی کےلئےنہیں بلکہ نسل نوکے بےشمار نوجوان جن کی وہ آبیاری کرتے تھےاور پردے کے پیچھے جن تنظیموں، تحریکوں، اداروں،ٹرسٹوں کا تعاون کرتے تھے، ان سب کا عظیم خسارہ ہے:
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم