مسلم پرسنل لا ء پرلٹکتی تلوار!

خالدانورپورنوی
سوال مسلم پرسنل لاء بورڈکانہیں؟مسلم پرسنل لاء کاہے،یعنی ان مسائل کاجوقرآن وحدیث سے ثابت ہیں، جن پریقین وایمان رکھناہرمسلمان کیلئے لازم وضروری ہیں اورجن پرہندوستان کے آئین میں عمل کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہے،مگرنہ جانے کیوں طلاق ثلاثہ کے بہانے انہی مسائل سے چھیڑچھاڑ کوشش کی جارہی ہے۔
یہ ہندوستان ہے،بھارت اورانڈیابھی اسے ہم کہتے ہیں:مختلف تہذیبوں ،ثقافتوں،اورزبانوں کایہ حسین سنگم ہے،اس کی خوبصورتی ہے ہی اسی میں کہ کثرت میں وحدت نظرآئے،کسی کو پریشانئ خاطرمیں نہ ڈالاجائے اورہر ایک کواپنے اپنے پرسنل لاء،عائلی قانون پرعمل کی آزادی دی جائے۔
تمام ہندوستانیوں کے لئے یکساں قانون نافذکردیئے جائیں،یہ بات سننے میں بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے؛ مگر اہل نظرجانتے ہیں کہ اس راہ میں کتنی دشواریاں ہیں ، ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی میں سے ہرایک کامذہب الگ ، پابندیاں الگ، عبا د ت خانے الگ،تہوارالگ،کھان اورپان الگ،طورطریقے الگ،سسٹم الگ،لباس الگ، کپڑے الگ، کتابیں الگ، مگرسب کے رگوں میں ہندوستان کاخون شامل ہے،اورہندوستان ترقی کرے یہی سب کی خواہش ہوتی ہے۔
ہندولاء1955ء میں بنا،اوراسے انسانوں نے بنایا،اس میں تبدیلی ممکن بھی ہے؛ مگرمسلم پرسنل لاکوکسی انسا ن نہیں بنایا،انسانوں کوپیداکرنے والے نے بنایا،یعنی اس رب اورخالق ومالک نے جس سے پہلے کوئی نہیں، اسی لئے اس میں تبدیلی کاحق کسی مسلمان کوبھی حاصل نہیں ہے۔
ایک مسلمان گنہگارہوسکتاہے،اپنی کوتاہی ، سستی، اوردنیوی چمک،دمک سے مرعوب ہونے کی وجہ سے وہ اسلامی تعلیمات اوراس کے احکامات پرعمل پیرانہ ہو، یہ ممکن ہے،پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں ،ہرمسلمان جانتاہے،مسجدمیں باجماعت نمازاداکرنی ہے،ہرکوئی اس سے واقف ہے،مگربہت سے مسلمان نمازنہیں پڑھتے، اورمسجدوں سے بھی وہ دُوررہتے ہیں،لیکن جب نمازپرپابندی کی بات آئے گی ،دنیاکاایک گنہگار مسلمان بھی اسے برداشت نہیں کرسکتاہے،چونکہ شریعت اوراسلام کی تعلیمات کوبدل دیاجا ئے ، اس کاحق اللہ نے اپنے قریب سے قریب بندوں کوبھی نہیں دیاہے۔
جوعورتیں ٹی وی کی اسکرینوں پرنظرآتی ہیں اورمسلمانوں جیسانام رکھ کر پرسنل لاء یعنی اسلام اورقرآن وسنت پر تبدیلی کی بات کرتی ہیں،یقینااس کے پیچھے کو ئی بڑی طاقت کا رفرماہے ،یا پھر ان نام نہادمسلم خواتین کی روح اسلام سے بالکل خالی ہے، اورایساہردورمیں رہاہے۔
بات کہاں سے شروع ہوئی؟اتراکھنڈکے کانشی کی رہنے والی سائرہ بانوکی شادی 2002ء میں ہوئی تھی، شادی کے بارہ سال بعد2014ء میں شوہرنے طلاق دے دیا ، انصاف کیلئے سائرہ سپریم کورٹ گئی اور مختلف طرح کے مقدمات کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا،تین طلاق کاحق مردوں سے ختم کردیاجائے۔ ا س عرضی پرسماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے اس کاموقف جانناچاہا،مرکزی حکومت نے طلاق ثلاثہ کوختم کرنے کاحلف نامہ داخل کردیا،جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈنے بھی پوری مضبوطی سے حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کیاہے۔جس میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ تین طلاق کااختیاراسلام اور شریعت کی طرف سے مردوں کوحاصل ہے،اسے ختم کرنے یامنسوخ کرنے کاحق کسی کوبھی حاصل نہیں ہے۔
میڈیابرادری بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے،افواہوں کابازارگرم کرنے اورایک جھوٹ کوبے ڈھنگے طریقے سے پیش کرکے سچ بنانے میں انہیں خوب مہارت حاصل ہے ۔ ایسالگتاہے کہ مسلمان کئی شادیاں کرتاہے، ا و ر تین تین طلاق کے ذریعہ اپنی بیویوں کواپنی زندگی سے علیحدہ بھی کردیتاہے۔جبکہ حقیقت واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے ، 2011 کی سینسس رپورٹ بھی بتاتی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں اورطلاق کاتناسب مسلمانوں سے زیادہ ہندؤں میں ہے،بلکہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی اور طلاق کاتناسب سکھوں، جینیوں، عیسائیوں، پارسیوں سے بھی کم ہے،ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی 170 ملین ( 17 کروڑ) ہے،اور طلاق کی شرح0.5% ،طلاق سے8.5 لاکھ مسلمان متأثرہیں۔ہندؤں کی کل آبادی1 بلین (100)کروڑ، علحدگی Saparation کی شرح 3.7%۔مطلب بغیرطلاق کے علاحدگی کے معاملات میں تقریباً3کروڑ 70 لاکھ ہیں۔
ظ ظ ظ
اس ملک میں صرف مسلمانوں کاہی پرسنل لاء نہیں ہے،بلکہ ہرایک کاالگ الگ ہے،قبائل کاالگ پرسنل لاء ہے،دلتوں کاالگ پرسنل لاء ہے، سکھوں، پارسیوں، جینیوں ،اوربدھوں وناگاوں کاالگ پرسنل لاء ہے، اور سبھی لوگ اپنے اپنے پرسنل لاء ،عائلی قوانین پرعمل کرتے ہیں،توکیاایسی صورت میں یکساں سول کوڈنا فذ کرنا اتنا آسان ہوگا؟ڈاکٹرامبیڈکرنے اسی لئے کہاتھا:کوئی پاگل حکومت ہی ہوگی جواس ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے بارے میں سوچے گی!
حدتویہ ہے کہ لاء کمیشن نے ہندوستانی قانون کے دفعہ44؍کاحوالہ دیتے ہوئے یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کیلئے16؍سوالنامے بھی قائم کئے،اورمذہبی جماعتوں،سماجی واقلیتی گروپوں،غیرسرکاری تنظیموں، سیاسی پارٹیوں،سول سوسائٹیز اورسرکاری ایجنسیوں سے اس سلسلے میں رائے بھی مانگی ہے۔سب سے پہلے ان کے سوالنامے ملاحظہ فرمائیں،جس سے لاء کمیشن اورحکومت دونوں کی نیت واضح ہوکرسامنے آجائیگی!
(1)کیاآپ اس بات سے واقف ہیں کہ دستورہندکے دفعہ نمبر44؍میں درج ہے کہ ریاست پورے ہندوستان میںیکساں سول کوڈکیلئے کوشش کریگی؟کیاآپ کے خیال میں اس معاملہ میں مزید اقدا ما ت کی ضرورت ہے؟(2)مختلف مذاہب کے عرف وعادت اورعائلی وخاندانی قوانین پرسنل لاء کے ماتحت ہیں، توکیا مندرجہ ذیل کویکساں سول کے اندرشامل کرناچائیے؟شادی بیاہ،طلاق،گودلینا،سرپرستی اوربچوں پرقبضہ، اخراجات ، جانشینی،وراثت(3)کیاآپ اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ پرسنل لاء اوررسم ورواج کومرتب کرنے کی ضرورت ہے؟ اس سے لوگوں کوفائدہ ہوگا؟(4)کیایکساں سول کوڈیاپرسنل لاء کی قانونی ترتیب سے صنفی مساوات یقینی ہوجائیگی؟(5)کیایکساں سول کوڈاختیاری ہوناچائیے؟(6)کیادرج ذیل چلن پرپابندی عائدکردی جائے یاجاری رکھاجائے؟ (الف) تعددازدواج (ب)چندشوئی(د)روایتی رواج جیسے میتری قرار(7)کیاتین طلاق کے عمل کو منسوخ کردیاجائے ،یاباقی رکھاجائے، یامناسب ترمیمات کے ساتھ باقی رکھاجائے؟(8) کیاآپ سمجھتے ہیں کہ ہندو عورتوں کو جائدادکے اپنے حق سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنانے کیلئے مزید اقدامات کئے جانے چائیے جو سماجی رواج کی وجہ سے اکثرلڑکوں کے حق میں وصیت کردی جاتی ہے؟ (9) کیاآپ اس بات سے متفق ہیں کہ طلاق کے معاملہ کوانجام تک پہونچانے کیلئے دوسال کے انتظارکی مدت عیسائی عورتوں کے حق میں مساوات کونقصان پہونچارہی ہے۔(10)کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ شادی کی منظوری کیلئے تمام پرسنل لاء اورسماج میں یکساں عمرہونا چائیے ؟ (11)کیاآپ اس بات سے متفق ہیں کہ تمام مذاہب میں طلاق کی وجوہات مشترکہ ہوں؟(12)کیا یکساں سول کوڈطلاق کے بعدعورتوں کے اخراجات کے انکاریاناکافی اخراجات کے مسئلہ کوحل کرنے میں مدد کریگا ؟ (13)شادی کے لازمی رجسٹرڈکرانے کوکیسے بہترطورپرنافذکیاجاسکتاہے؟(14) ایسے جوڑوں کے تحفظ کیلئے کیااقدامات کئے جائیں جودومختلف مذہب کے ماننے والے یادومختلف ذات کے ہوتے ہیں؟(15)کیایکساں سول کوڈایک آدمی کی مذہبی آزادی کے حق میں خلل اندازہوگا؟(16) یکساں سول کوڈیاپرسنل لاء کی ازسرنوترتیب کے تئیں معاشرہ کوحساس بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں؟
ان سولہ سوالوں میں اکثرکے جوابات ہاں/نہیں سے مانگے گئے ہیں،جبکہ بہت سے سوالوں کے جوابات کے ساتھ ساتھ وجوہات بتانے کابھی مطالبہ کیاگیاہے،مگریہ سارے سوالات وہ ہیں جسے پڑھ کر ہم یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ کس طرح ہماری حکومت یکساں سول کوڈکی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔اسی لئے مسلمانوں کی متعددتنظیموں نے اورمسلم پرسنل لاء بورڈنے اس سوالنامے کے بائیکاٹ کااعلان کیاہے۔
لاء کمیشن کے سوالنامے کاآغازآئین ہندکے آرٹیکل 44؍کے حوالہ جات سے ہوتاہے،جس میں کہاگیاہے کہ ریاست پورے ہندوستان میں اپنے شہریوں کویکساں سول کوڈفراہم کرنے کی کوشش کریگی۔ تو آئیے دیکھتے ہیں: یکساں سول کوڈکیاہے؟اگرزمینی حقائق دیکھیں تو90 فیصدی ایسے معاملات ہیں جن پر یکساں قانون پہلے سے رائج ہیں ، کچھ ہی معاملات ایسے ہیں مثلاًنکاح،طلاق ،خلع،وراثت وغیرہ جن پرآئینِ ہند میں تمام مذاہب والوں کواپنے اپنے مذہب پرعمل کی آزادی دی گئی ہے،توپھریکساں سول کوڈکے نفاذ اور اُس پرسیاست کرنے والی بات مذاق نہیں تو اورکیاہے؟
کیایہ ممکن ہے کہ پورے ملک کوایک ہی قانون کاپابندبنادیاجائے،جینی،سنتوں کوہم دیکھتے ہیں کہ وہ ننگا رہتے ہیں،اب دوہی شکل ہے یاتواس کو روکیں گے یا پھر سب کو ننگارہنے کاحق دیں گے،سکھوں سے کرپان رکھنے کاحق چھین لیں گے یاسب کو حق دیں گے،دفعہ341 سے مذہب کی بندش ختم کرکے ایس سی اورایس ٹی کا فائدہ ہندؤں کی طرح مسلمانوں کوبھی دیں گے،یاکسی کوبھی نہیں دیں گے۔اسی لئے سچائی یہ ہے کہ اگریکساں سول کوڈنافذکیاجاتاہے،توصرف مسلمان ہی نہیں،دیگرمذاہب کے لوگ بھی اس کی زدمیں آجائیں گے۔ شاید اسی لئے آرایس ایس کے سابق سربراہ گروگوالکرنے1972ء میں مدرلینڈنامی ایک اخبارمیں انٹریو دیتے ہوئے کہاتھا:قانون میں یکسانیت قوموں کی تباہی کاپیغام ہے۔
ظ ظ ظ
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمدسے قبل عورتوں پربہت زیادہ ظلم ہوتاتھا،جس عورت کی جس مردسے شادی ہوگئی وہ جنم جنم کاساتھی شمارہوتی تھی،شوہرظالم ہو،جابرہو،یاشرابی ہو،وہ کھانے،پینے کاخرچہ برداشت نہ کرتاہو،یاپھرصبح وشام ڈنڈوں کی بارش کرتاہو،مگرعورت شوہرسے علیحدگی کاتصوربھی نہیں کرسکتی تھی ، اور اگر شوہر مرجاتا تواس کی چتاپرجل کر راکھ ہوجاتی۔
سرزمین عرب سے جب اسلام کی کرنیں پھوٹیں اوردنیابھرمیں اس کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی، تو ہندوستان میں بھی اسلام پہونچا،اورہندومسلم ایک ساتھ رہنے لگے،یہاں کی عورتوں نے جب اسلام کے نظام طلاق کو دیکھاتووہ دنگ رہ گئی اورپھردھیرے دھیرے انہیں اپنے حقوق کاعلم ہوا،اورآج بہت سی اچھی چیزیں جوہندوایکٹ میں شامل ہیں وہ اسی مذہب اسلام کی تعلیمات سے ہی لی گئی ہیں۔
ایک لڑکی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی،لڑکابھی خوبرو،نوجوان ہے،خوشحال گھرانہ ہے،کسی چیزکی کوئی کمی نہیں ہے،شادی کے پانچ دن ہوئے ہیں،لڑکی گھروالوں سے کہتی ہے مجھے طلاق چائیے۔ ساس ، سسر اور سسرال والے پریشان ہیں،بات کیاہے؟صرف پانچ دنوں میں ایساکیاہوگیا؟مگرلڑکی اپنے فیصلے پر قائم ہے ، لڑکانہایت شریف ہے،زبان پر کوئی بھی شکوہ شکایت نہیں،گھروالے بیٹھے ہیں اورپوچھتے ہیں:بیٹی ایساکیاہے جو تم نہیں ر ہناچاہتی ہو؟وہ کہتی ہے:بات ایسی جوآپ سب سوچ بھی نہیں سکتے ہیں؟لوگوں نے اصرارکیاتوبتادی لڑکا نامرد ہے۔ لڑکاسے پوچھا،مگروہ چپ رہا،کئی بارپوچھا،مگرجواب نہیں دیا۔لوگوں نے سمجھ لیا،بات صحیح ہے،لڑکی کوطلاق ہوگئی اوردوسرے لڑکاسے اس نے شادی کرلی،کئی بچے ہوگئے،اوریہ لڑکااکیلئے گھرمیں ہے۔
یہ لڑکی کیاکرتی،اگرہندوانہ رسم جنم جنم کے ساتھی والاقانون مانتی تووہ پوری زندگی گھٹ گھٹ کرزندگی گذارتی، مگرجب اُس نے اسلام کی پیروی کی اوراس کی تعلیمات کواپنایا،توآج ان کی زندگی بڑی اچھی گذر رہی ہے۔ اوریہ لڑکابھی اپنے آپ میں خوش ہے!
نہ کبھی ہم نے کہاہے کہ تین طلاق دیناکوئی اچھاعمل ہے،اورنہ ہی مذہب اسلام ایساکرنے کوکہتاہے، بلکہ اسلام توطلاق دینے سے سختی سے منع کرتاہے،اورقرآن وحدیث میں اس کی سخت ممانعت بھی آئی ہے، اورتین طلاق دیناتواس سے بھی بڑاجرم ہے۔
مگراس کے باوجودتین طلاق قرآن وحدیث سے ثابت ہے اوراسلام وشریعت کاایک ایسا جزوجسے ختم کردینے،بدلدینے کاحق کسی مسلمان کوبھی حاصل نہیں ہے۔یہ جھوٹ ہے اور پروپیگنڈہ ہے ،اورآپس میں مسلمانوں کو لڑانے ،اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کہاجارہاہے کہ دنیاکے مسلم ممالک سے تین طلاق کو ختم کردیا گیاہے،ہاں یہ الگ مسئلہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہوگی یاایک ہوگی ،اور یہ نہ تو ہماراموضوع ہے اور نہ ہی سرکار نے اس پر حلف نامہ داخل کیاہے،بلکہ سرکار تو تین طلاق کو ہی سرے سے ختم کرناچاہتی ہے ،جو سراسر ظلم ہے ، اوریہی حکم تعددازدواج کے بارے میں بھی ہے۔
تین طلاق کے ذریعہ مذہب اسلام کونشانہ بنانے والے حضرات ذراغورکریں :ایک عورت ہے، جس کی شادی ہوئی،نباہ نہیں ہوا،شوہرگھرسے چلاگیا،پھروہ ایک بڑاسیاست داں بن گیا،آہستہ آہستہ اقتدار کی کرسی پربھی براجمان ہوگیا۔اِدھربیوی نے اپنی پوری زندگی شوہرکے انتظارمیں گذاردی۔
دوسری عورت وہ ہے کہ میاں بیوی میں موافقت نہ ہوسکی ،ہزارکوشش کے باوجودبھی دونوں کادل نہیں مل سکا ، شوہرنے غصہ میں آکرپہلے ایک طلاق دیا،پھردوسرے مہینہ میں دوسری ا،اورپھرتیسری طلاق دیا،دونوں ایک دوسرے سے جداہوگئے،لڑکانے دوسری لڑکی سے شادی کرلی اورہنسی خوشی زندگی گذارنے لگا،اوراِدھرلڑکی نے دوسرے لڑکاسے شادی کرلی اورپُرمسرت زندگی گذارنے لگی۔بتائیں دونوں رویوں میں سے کون سارویہ اچھا ہے؟ بیوی کولٹکاکررکھنااورگھٹ گھٹ کرزندگی جینے پر مجبورکرنا ، یاپھر آزا د کردینا تاکہ دوسرارشتہ کرکے لڑکی نئی زندگی کا آغاز کر ے۔
اسی لئے ابھی ایک ماہ قبل مہاراشٹرنونرمان سیناکے پرمکھ راج ٹھاکرے نے کہاتھا:عورتوں اوربچوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو شریعت اسلامی جیساقانون بناناپڑیگا،اوریہ سچ بھی ہے کہ صرف ایک ہی مذہب ہے اوروہ اسلام، جس نے سب سے زیادہ عورتوں کی حفاظت کی،اورشادی ،بیاہ کے بارے میں انہیں حق دیاکہ جب تک تمہاری رضامندی نہیں ہوگی شادی نہیں ہوسکتی ہے،اوراگرشوہرکوطلاق کاحق دیاتوعورتوں کوبھی خلع اورفسخ نکاح کا اختیا ر دیا ۔
ہم مسلمان ہیں ،اور ہمیں اس پر فخر ہے ،چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ اور تعلیم ہمیں ورثہ میں ملاہے،اس کی حفاظت کرناہمارادینی اور ایمانی فریضہ ہے ،اس کے کل یا جز کو حذف کردیاجائے،یاترمیم واضافہ کی راہ نکالی جائے ،یقیناہم برداشت نہیں کرسکتے ہیں،اور ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان مسلک ومکتب سے اوپر اٹھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوچکے ہیں ۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ،دستخطی مہم میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں ،،اور اس عہد کے ساتھ خود بھی دستخط کریں گھر والوں ،اور دوست واحباب کو بھی پابند بنائیں :کہ ہم اسلام اور اس کی تعلیمات پر مکمل اطمینان رکھتے ہیں:
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لاالہ الااللہ
ملت ٹائمز
(مضمون نگار ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ کے ایڈیٹر ہیں)
nedaequasim@gmail.com
-91+9934556027

SHARE