معصوم مرادآبادی
دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد ات کے سلسلہ میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جو فردجرم داخل کی ہے، اس کی اصلیت اگلے ہی روز دہلی کی ایک عدالت نے بے نقاب کردی۔ اس فرد جرم میں جن لوگوں کو کلیدی ملزم بنایا گیا ہے، ان میں سے ایک ملزمہ نتاشا نروال کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ پولیس نے ملزمہ کے خلاف جو ثبوت پیش کئے ہیں، ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تشدد میں شامل تھی۔
” پنجڑہ توڑ ” گروپ کی سرکردہ ممبر نتاشا نروال، ان پندرہ کلیدی ملزمان میں شامل ہے، جن پر گز شتہ فروری میں شمال مشرقی دہلی میں فساد برپا کرنے کی سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔ان سبھی لوگوں پر دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے تاکہ وہ آسانی سے ضمانت حاصل نہ کرسکیں۔ نتاشا کو تشدد پھیلانے کے الزام میں ضمانت ضرور مل گئی ہے لیکن وہ ابھی دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت جیل میں رہے گی ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس نے دہلی فساد کے تعلق سے 17500 صفحات کی جو فردجرم داخل کی ہے، اس میں فساد بھڑکانے والے کسی اصل مجرم کا نام شامل نہیں ہے۔ اس انوکھی فردجرم میں ان لوگوں کو سازشی کے طور پر شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے دہلی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ دہلی پولیس نے اس انتہائی ہولناک فساد کے سلسلہ میں شروع سے ہی جو رویہ اختیارکر رکھا ہے، اس پر مسلسل انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور کئی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ پولیس فساد کے اصل مجرموں کو بچانے کے لئے بے گناہوں کو قربانی کابکرا بنا رہی ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ راجدھانی دہلی میں اسمبلی انتخابات جیتنے کے لئے بی جے پی نے جو بساط بچھائی تھی، اس میں شاہین باغ اس کا سب سے بڑا مہرہ تھا۔ خود مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں اپنے ووٹروں سے کہا تھا کہ وہ پولنگ کے دن ای وی ایم کا بٹن اتنے زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے شاہین باغ کے مظاہرین کے بارے میں کہا تھا کہ یہ لوگ آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کی بہن بیٹیوں کو ریپ کریں گے۔ مرکزی وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر نے ایک انتخابی ریلی میں ’دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔ کو۔“ کا نعرہ پورے زور شور سے لگوایا تھا جبکہ کپل مشرا نے خود ڈی سی پی کی موجودگی میں یہ دھمکی دی تھی کہ اگر جعفرآباد کادھرنا ختم نہیں کیا گیاتو وہ پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔فساد سے قبل راگنی تیواری نام کی ایک شر پسند خاتون نے آخری درجہ کی اشتعال انگیزی کی تھی۔ لیکن پولیس نے اب تک نہ تو ان شرپسندوں سے کوئی پوچھ تاچھ کی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔جبکہ ان بی جے پی لیڈروں کی اشتعال انگیزی کے بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں بھیانک فساد بھڑک اٹھا تھا‘ جس میں 53 بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ 500 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے اور کروڑوں کی املاک جلاکر خاکستر کردی گئیں۔
پولیس اگر بروقت کارروائی کرتی اور اس کا خفیہ محکمہ سرگرم ہوتا تو یقیناً اتنا بڑا فساد نہیں ہوتا‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ پولیس نے اس فساد میں وہی رول ادا کیا جو وہ اب تک ہرفساد میں ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ بی بی سی نے ایک ایسی ویڈیو دکھائی تھی جس میں پولیس والے فسادیوں کے ساتھ اقلیتی فرقہ کے مکانوں پر پتھراؤ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی دوران ایک ایسی ویڈیو بھی منظرعام پر آئی تھی جس میں پولیس والے پانچ زخمی مسلم نوجوانوں سے ان کی حب الوطنی کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کوجس وقت طبی امداد کی ضرورت تھی، اس وقت پولیس ان سے ” دیش بھکتی” کا ثبوت طلب کررہی تھی۔ ان میں سے فیضان نام کے ایک نوجوان نے بعد کو اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔
حال ہی میں بمبئی کے سابق پولیس کمشنر اور ملک کے مایہ ناز پولیس آفیسر جولیو ربیرو نے دہلی کے پولیس کمشنر ایس این شری واستو کو ایک خط لکھ کر دہلی پولیس کے کردار پر کئی تیکھے سوال کھڑے کئے ہیں۔ دہلی پولیس کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ”دہلی پولیس نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے جو پرامن احتجاج کررہے تھے، لیکن وہ جان بوجھ کر نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی، جن کی وجہ سے شمال مشرقی دہلی میں فسادات ہوئے۔ یہ مجھ جیسے سمجھدار اور غیر سیاسی لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے کہ کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورماکو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا جبکہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں اور خواتین کو جیل میں رکھا گیا۔“
پنجاب میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے والے انڈین پولیس سروس کے ” سپر کوپ ” نے یہ خط دراصل پولیس کمشنر کو ہرش مندر، پروفیسر اپوروا نند اور اور یوگیندر یادو جیسے سچے محب وطن لوگوں کو دہلی فساد میں نامزد کئے جانے کے بعد لکھا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ”ان افراد کو مجرمانہ معاملوں میں گھسیٹنا تشویش ناک ہے۔ ملکی پولیس فورس اور آئی پی ایس سے آنے والی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی ذات، رنگ اور سیاسی وابستگی کے بغیرآئین و قانون کا احترام کرے۔“ دہلی کے پولیس کمشنر نے اس خط کا جو جواب مسٹر ربیرو کو دیا ہے ‘ ” وہ عذر گناہ ، بدتر از گناہ “کے زمرے میں آتا ہے، البتہ جولیو ربیرو نے پولیس کمشنر کو اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے میرے ان شبہات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جو میں نے ان سے دہلی فسادات کی تحقیقات کے دوران بی جے پی لیڈران کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی فرقہ وارانہ تقریروں کو نظر انداز کرنے کے سلسلہ میں پوچھے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے فسادات کی سازش کے تعلق سے گزشتہ 6 /ماچ کو دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ابھی تک اس مقدمے میں مجموعی طور پر 21 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جس میں تازہ ترین گرفتاری جے این یو کے طلباء لیڈر عمر خالد کی ہے جنھیں طویل پوچھ تاچھ کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ دہلی فسادات کے سلسلہ میں پولیس نے 747 لوگوں کو گواہ بنایا ہے۔ اور 751 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ 1500سے زیادہ لوگ اب بھی جیلوں میں ہیں۔
مرنے والے 53 لوگوں میں 35 مسلمان تھے اور 13 ہندو تھے۔ اصولی طور پر اسی مناسبت سے دونوں فرقوں کے لوگوں کی گرفتاریاں ہونی چاہئے تھیں، لیکن ہر فساد کی طرح یہاں بھی بھرپور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور جن لوگوں کے خلاف فردجرم داخل کی گئی ہے، ان میں کوئی بھی حکمراں طبقہ سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس فساد کو پولیس نے ایک بڑی سازش کا جامہ پہناکر ا س میں ان تمام لوگوں کو ملزم بنالیا ہے، جنھوں نے دہلی کے مختلف علاقوں میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاجی دھرنے منعقد کئے تھے۔پولیس نے جن پندرہ لوگوں کے خلاف فرد جرم داخل کی ہے‘ ان میں عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین کو کلیدی ملزم بنایا گیا ہے۔ جبکہ محمد پرویز احمد، محمد الیاس، خالد سیفی، صفورا زرگر، شفاء الرحمن، آصف اقبال تنہا، شاداب احمد، تسلیم احمد، سلیم ملک اور اطہر خان کے علاوہ پنجڑہ توڑ گروپ کی دو کارکن نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا کو اس سازش میں شریک بتایا گیا ہے۔ پولیس اس سلسلہ میں ایک اور اضافی چارج شیٹ داخل کرنے کی تیاری کررہی ہے جس میں عمر خالد اور شرجیل امام سمیت چھ لوگوں کو ملزم بنایا جائے گا۔
شمال مشرقی دہلی کے فساد کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس کے لئے باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کی فرقہ وارانہ صف بندی کی خاطر اشتعال انگیز نعرے ایجاد کئے گئے تھے۔ اسی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں دو مشتعل نوجوانوں نے جامعہ اور شاہین باغ کے مظاہرین پر با قاعدہ فائرنگ کی اور کہا کہ اب اس ملک میں ہندوؤں کی ہی چلے گی۔ المیہ یہ ہے کہ مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے ان نوجوانوں کو اتنی معمولی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا کہ انہیں ضمانتیں ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ جب کہ شاہین باغ اور دہلی کے دوسرے مقامات پر سی اے اے کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں پر اتنی سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں کہ انہیں ضمانت نہیں مل پا رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دہشت گردی مخالف قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر انہیں بر وقت انصاف نہیں ملا تو ان کی زندگیاں برباد ہوجائیں گی۔ دہلی پولیس کا کردار اس معاملے میں اتنا جانبدارانہ ہے کہ اس کی پردہ پوشی ممکن ہی نہیں ہے۔ جولیو ربیرو نے درست ہی کہا ہے کہ اس دور میں امن پسند یا گاندھی وادی ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔






