خلیج کا خلجان: دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟

پروفیسر اختر الواسع

ایک ایسی دنیا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی چاروں طرف سے گھیرابندی ہو رہی ہے، ان پر طرح طرح کے الزام لگائے جا رہے ہیں، دشنام طرازیاں ہو رہی ہیں، مسلمانوں کو ہٹ دھرم قرار دیا جارہا ہے، ان پر تشدد کا الزام ہے اور ان کو دہشت گرد بتایا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین کا اسرائیل کو، باوجود اس کے فلسطین مخالف کے رویے کے، تسلیم کرلینا یقینی طور پر بہت تکلیف دہ بات ہے، لیکن جنگ ہو، سیاست ہو یا سفارتی تعلقات ان سب میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک عربوں کی غالب ترین اکثریت نے اسے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ تاہم بعد میں ۱۹۷۸ میں مصر نے اور پھر ۱۹۹۴ء میں اردن نے اسے تسلیم بھی کیا اور اس کے ساتھ سفارتی اور دیگر طرح کے تعلقات بھی استوار کیے۔ اسی طرح بدلے ہوئے حالات میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو جب یہ لگا کہ طاقت کے ذریعے فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں رہا تو انھوں نے ناروے کی راجدھانی اوسلو میں اسرائیلی نمائندوں کے ساتھ امن کے لیے مذاکرات کیے اور ان مذاکرات میں اسرائیل سے دو مملکتی فارمولے پر بات چیت بھی کی۔ جس کے تحت مستقبل کی فلسطینی ریاست قائم ہوسکتی تھی۔ یاسر عرفات نے پستول کی جگہ زیتون پیش کرکے امن و خیر سگالی کی راہ اختیار کرنی چاہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر سرد مہری کے سبب یاسر عرفات اپنی زندگی میں آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو شرمندہ¿ تعبیر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یاسر عرفات کے بعد محمود عباس کی قیادت میں بھی تنظیم آزادی فلسطین نے اپنے منہج سے روگردانی نہیں کی۔ البتہ اس دوران امریکہ اور اس کے کچھ حامی ملکوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے فلسطینیوں کے گھاؤ پر مستقل نمک چھڑکنے کا کام ہی کیا۔ اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس سمت میں جو قدم اٹھایا ہے وہ کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو لیکن اس سے ساری دنیا میں عربوں کی طرف سے یہ پیغام ضرور گیا ہے کہ عرب ضد اور ہٹ دھرمی پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ عالم اسلام کے نہ چاہتے ہوئے بھی اسرائیل سے خیر سگالی پر مبنی سفارتی رشتے قائم کرنے پر تیار ہیں۔ اب ساری ذمہ داری اسرائیلیوں کے سر ہے کہ وہ اس خیرسگالی کا جواب بھی خیر سگالی سے دیں اور ہونے والے معاہدے پر ایمانداری سے عمل کرکے دکھائیں۔ اب یہ تنہا اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو مملکتی فارمولے کو عملی جامہ پہنائے۔ اس میں بہت بڑا رول امریکہ کو بھی ادا کرنا ہے جس کی ثالثی اور یقین دہانی کے سبب ہی یہ سب ممکن ہوسکا۔
اس موقعے پر اسرائیل کی جانب سے سب سے بہتر اور پرامن اقدام یہی ہوگا کہ وہ ۱۹۶۷ء اور اس کے بعد کے غصب شدہ فلسطینی علاقوں کو فلسطینیوں کو واپس دے دے اور بسہولت آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونے دے۔ یروشلم کے شہر کی وہ حیثیت جو ۱۹۶۷ء اور اس سے پہلے تھی وہ بحال ہو اور فلسطینی ریاست کی راجدھانی اسے بنایا جائے۔
اسرائیل کو عرب دنیا کے ان اقدامات کے ساتھ سعودی عرب کے فرماںروا ملک سلمان کے اس بیان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق ملے بغیر سعودی عرب اسرائیل سے کسی طرح کے رشتے قائم نہیں کرے گا۔ لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رشتوں کے اسرائیل کے ساتھ بحالی پر کوئی بھی رائے رکھیں لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ سعودی عرب جب تک اپنے اس موقف پر، جس کا ملک سلمان اعادہ کر چکے ہیں، قائم رہتا ہے، اسرائیل کو پوری ایمانداری کے ساتھ عالم اسلام کی تائید اور حمایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ ملک سلمان صرف سعودی عرب کے فرماںروا ہی نہیں بلکہ خادم الحرمین الشریفین بھی ہیں اور اس حیثیت سے ساری دنیا کی نگاہیں ان پر ٹکی ہیں۔ سعودی عر ب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط سے ایک نئی کروٹ لے رہا ہے، وہاں نئی معاشرتی تبدیلیاں ظہور میں آرہی ہیں، وہاں کے عوام کو وہ آزادیاں، جو اب تک مفقود تھیں، میسر آرہی ہیں، تعلیم، تہذیب، ثقافت اور معیشت میں نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ انہیں سمجھ نہ پا رہے ہوں، لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب اب وہ نہیں جو بیسویں صدی میں تھا۔ بلکہ آج وہاں کی نئی نسل جو نئے نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل ہی نہیں بلکہ اکثریت میں ہے، اس کی آرزوئیں، تمنائیں پچھلی نسل سے مختلف ہیں۔ ایک بات جو اور سمجھ سے باہر ہے کہ دبئی، ابوظہبی، کویت، دوحہ، عمان اور مسقط میں وہ تمام سرگرمیاں جس طرح جائز سمجھی جا رہی ہیں انھیں سے سعودی عرب کی نئی نسل کو آپ کب تک محروم رکھ سکتے ہیں۔ ایک اور امید افزاءموقف قطر کی راجدھانی دوحہ سے بھی سامنے آرہا ہے جس میں قطر کے حکمرانوں نے بھی اسرائیل سے تعلقات نہ بنائے رکھنے کے لیے وہی موقف اپنایا ہے جو سعودی فرماںروا ملک سلمان کا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ قطر اور سعودی عرب ایک ہی خطے میں واقع ہونے کے باوجود ہر معاملے میں ایک دوسرے کے ہم خیال نہیں ہیں۔
مناسب ہوگا کہ اس موقعے پر مغربی ایشیاءکے خطے کے دو اہم ممالک ایران اور ترکی معاہدے کے خلاف زیادہ سرگرم ہونے کے بجائے اسے کچھ وقت دیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کے فیصلے صرف ان کے اپنے نہیں ہیں۔ ان فیصلوں کی پشت پر امریکہ بھی ہے، اس لیے سوال صرف اسرائیل کے اعتبار کا نہیںہے بلکہ امریکہ کی معتبریت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہوگی۔ آنے والے دن خطے کی سیاست کے لیے بہت ہی اہم ہوں گے۔ امارات اور بحرین کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ نہیں ہیں اس لیے ان کا معاملہ مصر اور اردن جیسا نہیں ہوگا۔ ان کا اقدام چاول کی دیگ جیسا ہے کہ اگر جواب مثبت آیا تو آگے بھی سب ٹھیک ٹھاک چلے گا اور اگر معاملہ برعکس ہوا تو ایران اور ترکی کے موقف کو تقویت ملے گی۔ اسرائیل اور امریکہ بھرے بازار میں رسوا ہوں گے اور فلسطینی کاز اور فلسطینیوں کی علاقائی اور بین الاقوامی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا۔
مسلم دنیا اس وقت بڑے ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے بھر پور مسلم ملکوں پر نئے طرز کی استعماری قوتیں نظریں لگائے بیٹھی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلم عوام سے لے کر مسلمان حکمراں تک سبھی اتحاد و یکجہتی کا ثبوت دیں۔ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو ان کو مزید انتشار تک لے جانے والے ہوں۔ بلاشبہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ امن اور سفارتی تعلقات کی جانب پیش رفت کا مشکل فیصلہ کیا ہے، البتہ یہ ان سے زیادہ چیلنجنگ خود اسرائیل کے لیے ہے کیونکہ اسرائیل اگر اب بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا تو پوری دنیا میں جگ ہنسائی اسی کی ہوگی۔ عربوں کو الزام دینے کی پوزیشن میں کوئی بھی نہیں ہوگا کیونکہ ان کے سامنے مصر اور اردن کے بعد اب متحدہ عرب امارات اور بحرین کی مثالیں بھی ہوں گی۔ یہ تمام باتیں اس لیے کہی گئی ہیں کہ عالم اسلام میں بدگمانیوں کا بازار گرم نہ ہوسکے۔ اسرائیل کے بجائے ہم مسلمان ملکوں کو ہی سب و شتم کا نشانہ بنانے میں نہ لگ جائیں۔ اس موقع پر ہماری فلسطینیوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ فتح اور حماس کے بیچ جو عناد اور فساد ہے اس کو ترک کر دیں اور رشتہ اتحاد میں منسلک ہو جائیں۔ سعودی عرب کے حکمراں اس سلسلے میں وہ قائدانہ کردار ادا کریں جس سے فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل جائے اور وہ اپنے خطے کو اغیار کی ریشہ دوانیوں سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ ماضی میں مسلمان ملکوں کی بیچ میں کون سے تنازعات رہے ہیں، کس طرح کی جداگانہ فکر رہی ہیں، ان کو بھول کر خادم الحرمین الشریفین کی قیادت میں ایک ہو جائیں اور ساری دنیا کو بتا دیں کہ دنیا میں کسی بھی امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مشرق و سطیٰ میں خیرسگالی، سلامتی اور منصفانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جاتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا ہے۔
(مصنف مولاناآزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)