نجیب قوم کا ہونہار فرزند ہے ،اس کی فکرکرنا ہر ایک کی ذمہ داری


najeeb-ahmadخبر درخبر(476)

شمس تبریزقاسمی
نجیب احمد بدایوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہونہار طالب عالم کا نام ہے ،ایم اے کے بائیوٹیکنالوجی میں اسی سال ملک کی معروف یونیورسیٹی جے این یو میں داخلہ ہواتھا،ہوسٹل الیکشن کی تحریک کے دوران 14 اکتوبر کی ر ات میں اے بی وی پی سے منسلک کچھ طلبہ ان کے پاس گئے ،نجیب احمد کی ان طلبہ سے کچھ بات چیت ہوئی اور نوبت لڑائی تک پہونچ گئی،اے بی وی پی کے طلبہ نے بے دردی سے نجیب احمد کی پٹائی کی ،رات کے تقریبا دو بجے نجیب احمد نے اپنی والد ہ کو فون کیا ،انہیں صورت حال بتائی ،نجیب کی والد ہ نفیس فاطمہ اپنے گھر سے دہلی کیلئے روانہ ہوگئیں، 15 اکتوبر کو دن کے گیارہ بجے والدہ نفیس فاطمہ آنندوہار اسٹیشن پہونچ گئیں ،اس وقت نجیب احمد کی والدہ سے فون پر آخری بات ہوئی اور یہ کہاکہ ماں تجھ سے ملنا چاہتاہوں جتنا جلد ہوسکے آجاؤ،تقریبا ڈیرھ گھنٹہ بعد والدہ جے این یو میں داخل ہوئیں اورفورانجیب کے روم میں پہونچیں لیکن وہاں نجیب نہیں تھا،اس کا موبائل فون بیڈ پر تھا،پرس اور تمام چیزیں وہیں رکھی تھیں ۔
اس واقعہ کو سولہ دنوں کا عرصہ گزرچکا ہے ،دہلی پولس میں ایف آئی آرد رج کرائی جاچکی ہے ،وزرات داخلہ کے احکامات پر خصوصی تفتشی ٹیم بھی تشکیل دی جاچکی ہے لیکن اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے، پولس سراغ لگانے میں ناکام ہے ،انتظامیہ کوئی ٹھوس او رموثر اقدام نہیں کررہی ہے ،چند مخصوص مقامات پر تلاش گمشدہ کا اشتہار لگانے کے بعد دہلی پولس نجیب احمدکو نظام الدین اور اجمیر میں تلاش رہی ہے ،دہلی پولس کمشنر ہرسوال کے جواب میں میڈیا کو صرف یہ کہ رہے ہیں کہ نجیب کو تلاشنے کی کوشش جاری ہے ،جے این یو انتظامیہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ غفلت برت رہی ہے ،اب تک اے بی پی وی کے ان طلبہ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے جنہوں رات کے وقت کمرہ میں جاکر نجیب کی پٹائی کی تھی ،اب تک کیمپس کے وارڈن سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ہے کہ نجیب کیسے غائب ہوا ،کون اسے یہاں سے لیکر گیا،اے بی وی پی والوں کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کی گئی ۔دوسری طرف جے این یو کے طلبہ، آئیسا،آئی ایس او ر دیگر تنظیموں کے افراد روزانہ جے این یو کے اندر اور باہر دہلی کے مختلف مقامات پر نجیب کی حمایت میں احتجاجی مظاہر ہ کررہے ہیں،نجیب کو لاؤ کا نعرہ لگارہے ہیں، جے این یو کی اسٹوڈینٹس یونین مسلسل سرگرم ہے ،لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے،دہلی کے وزیر اعلی اروندکجریوال سے لیکر وزیر اعظم نریندر مودی تک کی زبان سے اب تک نجیب احمد کی بے بس ماں کیلئے ایک جملہ نہیں نکل سکاہے،سیاسی لیڈران اور سماجی رہنما بھی نجیب کے معاملے میں خاموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں، مسلم رہنما بھی شاید کسی حکمت کے تحت اپنی زبانوں پر تالالگائے ہوئے ہیں۔

نجیب کی والدہ نفیس فاطمہ
نجیب کی والدہ نفیس فاطمہ

نجیب کی ضعیف والدہ نفیس فاطمہ کے آنسوخشک ہوچکے ہیں،14 اکتوبر کی شام میں آئی ٹی اوپر واقع پولس ہیڈ کوارٹر کے سامنے نجیب کی حمایت میں ہورہے ایک مظاہر ہ میں نے بھی شرکت کی ،وہاں پر والدہ نفیس فاطمہ سے میری ملاقات ہوئی،میں نے تسلی کے چند الفاظ کہنے کی کوشش کی لیکن ان کی آنکھوں سے بہ رہے آنسوؤں کے سامنے میری زبان کچھ بولنے اورپوچھنے کی ہمت نہ کرسکی ،غموں سے نڈھال ضعیف ماں کی زبان پر صرف یہی جملہ تھاکہ ’’مجھے میرا بیٹا لوٹادو،میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ،بہت کوششوں کے بعد اس نے اس مقام تک رسائی حاصل کی تھی‘‘۔جس وقت یہ سطر لکھ رہاہوں خود میری آنکھوں سے آنسو بہ پڑے ہیں،ذراسوچئے اس ماں کے د ل پر کیا گزرہاہوگا جس کا لال گذشتہ سولہ دنوں غائب ہے ۔
نجیب احمد کے معاملے میں جے این یو انتظامیہ، دہلی پولس اور حکومت کے ساتھ ملی رہنما بھی غیرسنجیدہ ہیں،سولہ دنوں تک کسی کا غائب رہنا کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے ،جے این یو کے طلبہ کی زبانی جوصورت حال مجھے معلوم ہوئی ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ نجیب احمد زندہ ہے ،دہلی پولس کی یہ خاموشی بھی شاید اسی طرف اشارہ کررہی ہے ،اے بی وی پی کے غنڈوں کے ذریعہ منظم انداز میں یہ سازش رچی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی اور ہے ۔
نجیب احمد غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے،وہ قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے ،مستقبل میں ایک مایہ ناز اور قابل فخر انجینئر بننے والا ہے ، جے این یو کے بائیوٹیکنالوجی میں داخلہ ہوجانا کوئی آسان نہیں ہے ،کئی مراحل طے کرنے کے بعد یہاں تک رسائی ملتی ہے ،اس کلاس میں بیس طلبہ میں یہ تنہا مسلما ن تھا ، اسے تحفظ فراہم کرنا،اس کے جان کی فکر کرنا،اسے تلاشنا ملک اور ملت دونوں کی ذمہ داری ہے ۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com

SHARE