امانت داری ایمان کی علامت اور پہچان ہے!!

حافظ ہاشم قادری صدیقی مصباحی
اللہ رب العزت و رسول کریم ﷺ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص مومن ہے اور مومن کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا کیونکہ امانت داری پر عمل بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ ظاہری اعلان نبوت کے پہلے ہی صادق الامین کے بابرکت لقب سے جانے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی وہ لقب مواجۂِ رسول اللہ ﷺ حرمِ پاک مدینہ شریف کی جالیوں میں لکھا ہوا ہے۔ ناچیز خود حج کی سعادت سے باور ہوچکا ہے اور جالیوں کو بغور دیکھنے کا شرف حاصل کر چکا ہے جن میں آپ کا لقب مبارک ’’ صادق الامین‘‘ لکھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا ایمان لمن لا مانۃ لہ (جس کے اندر امانت نہیں اس کے اندر ایمان نہیں۔مسند احمد، جلد ۳، صفحہ ۱۳۵)۔گویا کہ ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ آدمی امین ہو، امانت میں خیانت نہ کرتا ہو۔ عربی زبان میں ’’امانت ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا منافق کی علامت بتائی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(صحیح مسلم ، ایمان کا بیان،حدیث نمبر ۱۱۸) اس حدیثِ پاک سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس طرح سپرد کی گئی کہ سپرد کرنے والے نے اس پر بھروسہ کیا ہو یہ اس کا حق ادا کرے گا یہ ہے امانت کی حقیقت۔ لہٰذا کوئی شخص کوئی کام یا کوئی چیز یا کوئی مال جو دوسرے کے سپرد کرے اور سپرد کرنے والا اس پر بھروسہ سے سپرد کرے کہ یہ شخص اس سلسلے میں اپنے فریضے کو صحیح طور پر بجالائے گا اور اس میں کوتاہی نہیں کرے گا ۔یہ امانت ہے۔ اور امانت کی اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بے شمار چیزیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ آج اس کا مفہوم بہت محدود سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارے ذہنوں میں امانت کا تصور صرف اتنا ہی ہے کہ کوئی پیسے لے کر آئے اور یہ کہے کہ یہ پیسے آپ بطور امانت اپنے پاس رکھ لیجئے،جب ضرورت ہوگی اس وقت میں آپ سے واپس لے لوں گا۔امانت اس حد تک ہی محدود نہیں۔امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں، جن کے بارے میں اکثر وبیشتر ہمارے ذہنوں میں خیال بھی نہیں آتا کہ یہ بھی امانت ہے اور ان معاملات میں ’امانت‘ جیسا سلوک کرنا چاہیئے۔ امانت میں دیئے ہوئے مال کی حفاظت کرنا بلکہ اسی حالت میں واپس کرنا ہر کسی کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، جس کا حق اس پر ہے اداکرنا، حق تلفی نہ کرنا، دغانہ دینا، دھوکا نہ دینا، غبن نہ کرنا، بددیانتی نہ کرنا،کسی کے مال کو دبالینا جو کسی نے بطور امانت رکھا ہو، کسی کام کو پورانہ کرنا یعنی ڈیوٹی (Duty)پوری نہ کرنا، کسی کے خفیہ راز جو تم کو معلوم ہیں ،دوسرے کو نہ بتانا وغیرہ وغیرہ یہ سب امانت ہی میں آتے ہیں۔
خیانت جرم ہے: امانت میں خیانت کرنا انتہائی گھناؤنا گناہ ہے اور ایساگناہ ہے جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملاتِ زندگی کے تمام شعبے داخل ہیں۔ سچا مومن وہی ہے جو کسی طرح کسی بھی شعبہ میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْ لَا تَخُوْنُوْ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنoترجمہ: اے ایمان والو، اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت۔(سورہ انفال ، آیت ۲۷،کنز الایمان)اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول بڑا پیارا ہے۔ انتہائی دلچسپ و سبق آموز واقعہ پڑھیں اور عبرت حاصل کریں۔ صحابیِ رسول ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ کے یہودی بنی قریضہ پر حضور ﷺ کا راز فاش کردیا،بتادیا۔بنو قریضہ کے لوگ اپنے مکانات میں محصور ہوگئے ، چھپ گئے ۔ حضور ﷺ نے یہودیوں سے کہا کہ تم سعد بن معاذ(رضی اللہ عنہ) کے فیصلہ پر راضی ہوجاؤ۔انہوں نے کہا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دو،ہم مشورہ کریں گے۔ ابو لبابہ کے جانے پر ان لوگوں نے پوچھا کہ بن معاذ کیا فیصلہ کریں گے ۔ ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے گلے پر انگلی پھیر کر کہا قتل کردیں گے۔ سب کویہ راز آپ نے بتادیا۔ ادھر اللہ کے رسول ﷺ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول سے دغا نہ کرو۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے خیانت کی ہے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون (Pillar) پر بندھوالیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں اس وقت تک نہ کھلو ں گا جب تک حضور مجھے کھول نہ دیں۔ جب حضور کے سامنے یہ واقعہ پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر لبابہ میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لئے دعا ئے مغفرت کر دیتا اور معاف کردیتا۔
کرکے تمہارے گناہ ،مانگیں تمہیں سے پناہ * تم کہو دامن میں آ،تم پہ کروڑوں درود (حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی)
مگر جب وہ خانہ خدا مسجد میں پہنچ گئے ہیں تو اب میں اس وقت تک نہ کھولوں گا جب تک رب تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے۔ لہٰذا آپ سات دن تک بندھے رہے۔آٹھویں دن توبہ قبول ہوئی۔ لوگوں نے بشارت پہنچائی۔ تو آپ نے کہا کہ اب حضور ہی کھولیں گے تو کھلوں گا تو آپ ﷺ نے کھو ل دیا۔ دوسری جگہ ارشاد باری ہے۔ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں میں لئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ،ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ان کے لئے ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا۔بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کردو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے۔ بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔ (سورہ نساء،آیت ۵۰ تا ۵۷، کنز الایمان) یہ ہے انعام و اکرام کی بارش امانت دار لوگوں کے لئے ۔ ہر جنتی کو کئی کئی جنتیں دی جائیں گی ،خوبصورت باغ ہوں گے ، دودھ کی نہریں ، ٹھنڈے پانی کی نہریں، کئی کئی بیویاں عطا ہوں گی، دنیا کی بیوی بھی ہوگی، خوبصورت حوریں جن کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی اور خوشبو سے مہکتی ہوں گی ۔خوبصورت اتنی کہ پنڈلیوں میں آئینہ کی طرح صاف صاف Transparentکی طرح ہڈیوں کا گودا دکھائی دے گا اور یہ تمام بیویاں حوریں، حیض و نفاس ، تھوک، رینٹ(گوجی) میل اوریہاں تک کہ کج خلقی سے پاک و صاف ہوں گی، انتہائی شیریں زباں اور با اخلاق ہوں گی۔
یاد رہے مذکورہ آیت کریمہ حضرت ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر اپنے اہل و عیال کے تحفظ کی غرض سے نبی کریم ﷺ کے راز کو ظاہر کر دیا تھا ۔ حالانکہ بعد میں آپ کو سخت ندامت ہوئی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔لیکن اس آیت کا حکم عام ہے اور ہر طرح کی خیانت ، بددیانتی سخت ممنوع ہے خواہ اس کا تعلق قومی و ملکی یا گھریلو معاملات سے ہوں یا ذاتی انفرادی معاملات سے ہو۔نبی کریم ﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں چار نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور اشارہ اس بات کی طرف فرمادیاکہ یہ کام مومن کے نہیں اور جس میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ صحیح معنی میں مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں سے ایک بھی عادت تووہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔(بخاری، منافق کی نشانیوں کے بیان میں ، کتاب الایمان حدیث ۳۴)منافق کے بارے میں قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ المُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الاصْفَلِ مِنَ النَّارoمنافق جہنم کے سب سے نیچے ڈالا جائے گا(القرآن)استغفراللہ !بہت سی آیاتِ مبارکہ اور احادیث پاک خزانۂ احادیث میں موجود ہیں امانت داری پر انعام و اکرام کی بارش جیسا اور اوپر مذکور ہوچکا ہے اور امانت میں خیانت پر عذاب اور پکڑ کی ۔ یہ حدیث پاک پڑھیں اور درسِ عبرت پکڑیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت ہے کہ آدمی جہاد کرتے ہوئے راہِ خدا میں شہید ہوجائے ، اس کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن اس نے اگرامانت کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہوگی تو یہ شہادت اس گناہ کی معافی کاسبب نہیں بنے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کو دربارِ خداوندی میں پیش کیا جائے گا پھر اس سے کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کرو تو وہ کہے گا کہ اے خدا رب العالمین !دنیا تو ختم ہوگئی ،امانت کہاں سے لاؤں؟توحکم ہوگا اسے ہاویہ (جہنم کی ایک گھاٹی) میں لے جاؤ۔چنانچہ اسے لے جایا جائے گا اوروہاں اس کی امانت بعینہ اسی طرح سامنے لائی جائے گی جیسے اسے حوالے کرتے وقت تھی تو وہ اسے دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کو لانے کے لئے اس کے پیچھے چلے گا پھر اسے اپنے دونوں کندھوں پر اٹھا لائے گا، یہاں تک کہ اسے گمان ہوگا کہ میں اسے لے کر باہر آجاؤں گا لیکن وہ اس کے کندھے سے لڑھک کرگہرائی میں جائے گی پھر دوبارہ اٹھاکرلائے گا پھر وہی معاملہ ہوگا اور وہ ایسا ہی ہمیشہ کرتارہے گا۔(اعاذ نا للہ منہ)اس کے بعد امانت کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نماز بھی امانت ہے،وضو بھی امانت ہے ، تولنا بھی امانت ہے ، ناپنا بھی امانت ہے ۔اور پھر کئی چیزیں گنائیں اور ان سب میں زیادہ اہم چیز ودیعتیں( یعنی دوسروں کی طرف سے رکھوائی گئی امانتیں) ہیں۔ اس روایت کے راوی حضرت زادان فرماتے ہیں کہ میں نے صحابیِ رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت نقل کی تو انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سچ فرماتے ہیں اور کہا تم نے اللہ تبار ک و تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا؟اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُوْکُمْ اَنْ تُؤدُّوْالْاَمَانَاتِ اِلٰی اَہْلِہَاoترجمہ: یقیناًاللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کی طرف لوٹا دو۔(رواۃ احمد ، البیہقی، شعب الایمان، حدیث نمبر۵۲۶۶/الترغیب و ترہیب مکمل صفحہ ۶۲۷)مذکورہ بالاروایت نہایت چشم کشا ہے۔ اور امانت داری کے مفہوم کو واضح کرنے والی ہے، جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملاتِ زندگی کے تمام شعبے داخل ہوجاتے ہیں۔ سچا مومن وہی ہے جو کسی بھی شعبہ میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے۔ قرآن مجید پوری وضاحت سے امانت میں خیانت کرنے والوں کی منافقت کا اعلان فرما رہا ہے۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو امانت داری کو سمجھنے اوراس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!(ملت ٹائمز)
Mob.:09386379632)
e-mail: hhmhashim786@gmail.com

SHARE