جو بائیڈن اور ایردوان

ڈاکٹر فر قان حمید 

امریکہ اور ترکی کے درمیان جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے بڑے گہرے تعلقات چلے آرہے ہیں اور ترکی عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جو نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ دیگر کئی ایک پیکٹ میں اس کا اتحادی رہا ہےاور اب بھی اسے امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اتحادی ہونے کا ا عزاز حاصل ہے۔

اگرچہ ا س دوران مختلف مواقع پر تعلقات میں جمود بھی آتا رہا اور سنہ 1974 میں قبرص کی جنگ کے بعد امریکہ نے کچھ عرصے کیلئے ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے پر جو پابندیاں عائد کی تھیں اور پانچ بلین ڈالر مالیت کے امدادی پیکیج کو سینٹ میں جو ویٹو کیا تھا ، وہ سب کچھ جو بائیڈن ہی کا کیا دھرا تھا اور گزشتہ 36 سال سے ترکی کی قبرص سے متعلق پالیسی کی بھی وہ بھر پور طریقے سےمخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب صدر بائیڈن اور صدر ایردوان کے درمیان تعلقات کیسے استوار ہوتے ہیں اور اس کے اثرات ترکی اور امریکہ پر کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ لیکن یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ موجودہ دور کا ترکی ماضی والا ترکی نہیں رہا بلکہ دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہوچکا ہے اس لیے اسے اب اپنے دفاع کیلئے امریکی اسلحے اور جنگی ساز و سامان کی اس قدر ضرورت باقی نہیں رہی جیسی کہ اسے ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کا تعلق ریاستِ ڈیلاوئر (Delaware) سے ہے، جہاں یونانی نژاد باشندے کثرت سے آباد ہیں اور بڑا اثرو رسوخ رکھتے ہیں جو بائیڈن اپنے ان ہی ووٹروں کی وجہ سے قبرص اور بحیرہ ایجین میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں یونان کی حمایت سے متعلق بیان دینے سے کبھی گریز نہیں کرتے۔ نائب صدر ہونے کے دور میں انہوں نے چار بار ترکی کا دورہ کیا۔

پہلا دورہ 2011ء میں کیا جب عبداللہ گل صدر اور ایردوان وزیراعظم تھے اور انہوں نے اس وقت ’’ عرب اسپرنگ ‘‘ پر بات چیت کی تھی جبکہ دوسرا دورہ 2014ء میں کیا جب ایردوان ملک میں صدارتی ریفرنڈم کروانے کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے بارے میں شروع کردہ فضائی آپریشن کے بارے میں بات چیت کی تھی جبکہ اس سے قبل انہوں نے بیان دیا تھا کہ امریکہ نے ترکی کو شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کیلئے مالی اور فوجی امداد فراہم کی ہے۔

بائیڈن کے اس بیان پر ترک صدر ایردوان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا جس کے نتیجے میں بائیڈن اپنے بیان کو واپس لینے اور ترکی سے معذرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ترکی کے انجرلیک کے ہوائی اڈے کو شام اور ’’داعش‘‘ کے خلاف استعمال کرنے کیلئے حکومتِ ترکی کی اجازت حاصل کرنے کی غرض سے ترکی کا دورہ کیا تھا۔

ترکی میں 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد ماہ اگست میں انہوں نے ایک بار پھر ترکی کا دورہ کیا اور امریکہ کی جانب سے ترکی کی حمایت میں کسی قسم کا کوئی بیان نہ دینے پر اپنی معذرت اور ندامت کا دوسری بار اظہار کیا۔

بائیڈن صدر اوباما کے دور میں نائب صدر اور اس سے قبل سینٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن اور پھر چیئرمین ہونے کے دور میں ہمیشہ ہی آرمینی لابی کے زیر اثر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بار ترکی پر بڑے برملا طریقے سے ’’ آرمینی نسل کشی ‘‘ کا الزام لگاتے چلے آئے ہیں اور جیسے ہی صدارتی امیدوار بنے انہوں نے آرمینی لابی کا دل جیتنے کیلئے انہیں پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو میں آرمینی نسل کشی کے بل کی حمایت کروں گا۔ ‘‘

نو منتخب صدر جو بائیڈن کا نیو یارک ٹائمز کو دیا گیا انٹرویو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ہمیں ترکی کی حزبِ اختلاف کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے تاکہ صدر ایردوان کا فوج کے ذریعے نہیں بلکہ انتخابات کے ذریعے تختہ الٹا جاسکے اور کرد قومیت پسندوں کو ترک پارلیمنٹ میں مزید نمائندگی دی جاسکے ‘‘ اس بیان پر ترک صدر ایردوان اور ترکی کے تمام سیاستدانوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔

چند ماہ قبل ترکی کی اعلیٰ ترین عدلیہ ’’ کونسل آف دی اسٹیٹ ‘‘ کی جانب سے گزشتہ ستر سال سے میوزیم کی حیثیت سے خدمات فراہم کرنے والے کلیسا’’آیا صوفیہ‘‘ جسے سلطان محمد فاتح کی جانب سے مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا اور پھر 1935ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا سے متعلق دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے اسے دوبارہ سے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر بھی جو بائیڈن نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’ آیا صوفیہ کئی ایک مذاہب کے پیرو کاروں کیلئے ایک مقدس مقام ہے جو اپنے فنِ معماری کے باعث سب کی توجہ کا مرکز ہے۔

گزشتہ 85 سال سے دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف مذاہب کے انسان اس کی زیارت کرتے آئے ہیں اور 1985ء سے یونیسکو نے اسے عالمی ورثے کی فہرست میں جگہ دے رکھی ہے۔ حکومتِ ترکی کے اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے سے مجھے شدید دکھ پہنچا ہے۔

اس لیے میں صدر ایردوان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور دوبارہ سے اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ‘‘

دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سے کس قسم کے تعلقات قائم ہوں گے؟ کیا جو بائیڈن اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں گے؟ کیونکہ وہ علاقے میں کسی بھی صورت ترکی جیسے اتحادی کو کھونا نہیں چاہیں گے۔ تادم تحریر صدر ایردوان نے جو بائیڈن کو مبارکباد کا پیغام روانہ نہیں کیا جبکہ دنیا کے دیگر تمام ممالک کے رہنما صدر بائیڈن کو مبارکباد کا پیغام دے چکے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں