وزیر اعظم ہند نریندر مودی کے نام جموں وکشمیر میں سرحد پر رہنے والے ایک شہری کا کھلا خط

محترم نریندر مودی جی
عزت مآب وزیر اعظم ہند
آداب!
مودی جی امید ہے آپ خیر وعافیت سے ہوں گے، صحت بھی تندرست ہوگی ، سیکورٹی بھی کافی ہوگی، ہماری تو یہاں بڑی بری حالت ہے، ہمارے ہاں بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔۔۔خون بہہ رہا ہے مرہم نہیں ملتی، بھوک لگتی ہے کھانا نہیں ملتا، ٹھنڈ لگ رہی ہے پر اوڑھنے ، بچھونے کو کچھ نہیں، گولیوں کی آوازیں بڑی سنائی دیتے ہیں، کسی کی ٹانگ سے خون بہہ رہا ہے تو کسی کے سر سے، ہرسوں حالت خراب ہے، مال مویشی بھی مارے جارے ہیں، دودھ نہیں ملتا۔جی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیااناپ شناب لکھ رہا ہوں ، جی نہیں دلبرداشتہ ہوکر آج یہ کھلا خط آپ کے نام لکھ رہا ہوں ،تاکہ سرحد کی کچھ خیروعافیت بارے آپ کو بتاسکوں۔آج کل تو 4جی موبائل فون، انٹرنیٹ، ویڈیوکانفرنسنگ کا دورہ ہے، خط لکھنے یا پڑھنے کا رواج کم ہے لیکن میرے پاس تو آپ کو اپنے علاقے کے بارے میں بتانے کے لئے یہی ایک طریقہ ہے۔
اس خط میں، میں آپ کو جموں وکشمیر ریاست کے سرحدی علاقوں(LOC)اور انٹرنیشنل بارڈ ر خاص طور سے جموں صوبہ کے پسماندہ اور سرحدی ضلعوں پونچھ اور راجوری جس کو عام طور پر’خطہ پیر پنجال‘کہاجاتا ہے، کے لوگوں کے دکھ ودرد بارے کچھ بتانا چاہتاہوں، یوں تو آپ اخباروں، ٹیلی ویژن کے ذریعہ پونچھ سیکٹر میں فائربندی کی خلا ف ورزیوں، سرحدوں کی رکھشا کرنے والوں کے شہید ہونے کی خبریں سنتے ودیکھتے رہتے ہوں گے اس کے لئے پی ایم او دفترمیں آپ کو اس حوالہ سے روزانہ وزارت داخلہ کی طرف سے بریف بھی کیاجاتا رہتا ہے، آپ تو ماشا اللہ اس ضلع کے بارے میں کافی جانکاری رکھتے ہوں گے مگر میں آپ کو اس عام شخص کے دکھ درد کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ جومسلح بھارتیہ سیکورٹی فورسز کے شانہ بشانہ 1947سے آج تک بغیر ہتھیار ملک کی حفاظت بھی کر رہا ہے اوربار بار نقصان بھی اٹھارہا ہے پھر بھی اس کے دل میں سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے تئیں دیش بھگتی کا جذبہ کم نہیں بلکہ بڑھا ہی ہے، مگر پونچھ اور راجوری کی سرحدوں کے قریب رہنے والا بے یارومددگار وبے سہارایہ عام شہری آج یہ سوچنے پر مجبورہے کہ اتنی قربانیاں دینے ، اپنا ہر کچھ لوٹانے کے بعد بھی کیوں ایڈمنسٹریشن اور سرکار کی طرف سے اس کو نظر انداز کیاجارہاہے ، ایسی کیا غلطی اس سے سرزد ہوئی ہے جس کی اس کو نسل در نسل اتنی بڑی سزا دی جارہی ہے کہ ایک طرف وہ ہندوپاک افواج کے مابین حالیہ گولہ باری سے کا سامنا کرے تو دوسری اور سرکار وانتظامیہ نے بھی اس کو اللہ، بھگوان کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے
جناب۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ جموں وکشمیر اور لداخ کے تین اعلیحدہ اعلیحدہ علاقے ہیں ، پریہ دو صوبوں کشمیر اور جموں میں تقسیم ہے۔ صوبہ جموں کے دور دراز اور سرحدی اضلاع پونچھ وراجوری ہیں، جی پونچھ ضلع جہاں سے پاکستان کے ساتھ براستہ چکاندا باغ آر پار تجارت اور لوگوں کی ’ہفتہ وار راہِ ملن‘کے تحت آواجاہی بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں اضلاع کو مشترکہ طور خطہ پیر پنجال کے نام سے جاناجاتا ہے جس میں 223کلومیٹر حدمتارکہ ہے، اس کے ساتھ سینکڑوں گاؤں لگتے ہیں۔
پونچھ و راجوری کے لوگوں نے سب سے زیادہ 1947,1965,1971,1999کی ہندوستان پاکستان کے درمیان ہوئی جنگوں کی مار جھیلی ہے اور ہر دن جھیل رہے ہیں۔اس وقت یہاں پر جموں وکشمیر میں حدمتارکہ(LOC)اور بین الاقوامی سرحد(انٹرنیشنل بارڈر)پر حالت انتہائی کشیدہ ہے۔لوگ سب کچھ بھول چکے ہیں، نفسا، نفسی کاماحول بنا ہوا ہے، لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہیں، دل دہلادینے والی دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔غریبی، مفلسی، لاچارگی، ناخواندگی، سادگی سب کچھ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا مقدرہے۔سرحدوں کے قریب رہنے والی زیادہ تر آبادی کھیتی باڑی /زراعت پیشہ سے منسلک ہے، ان دنوں گھاس کٹائی، مکی اور دھان کی کٹائی تھی، اب لوگوں کو مویشیوں کو لئے چارہ جمع کرنا تھا، کٹی ہوئی فصل کی چھانٹ کر کے انہیں، اپنے سٹوروں میں رکھنا تھا تاکہ سردی کے موسم میں وہ ان کا استعمال کرسکیں۔ اگست مہینے سے وقفہ وقفہ کے ساتھ اور پھر آپ کی طرف سے کی گئی سرحدکے اس پر سرجیکل سٹرائیک کے بعد ان علاقوں میں حا لت بہت ہی زیادہ خراب ہے۔بار بار کی فائرنگ سے ان کی سال بھر کی محنت پر پانی پھرگیا ہے، اب ایک طرف انہیں جان کی حفاظت کی فکر ستا رہی ہے تو دوسری اور وہ پریشان ہیں کہ اپنے اہل وعیال کاپیٹ کس طرح پالیں گے۔ بچوں کی پڑھائی متاثر ہے،لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے، مویشیوں کے لئے چارہ ، پانی کا استعمال کرنا مشکل ہے۔وہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی چہچاہٹ اور گھر ، آہنگن او رمحلہ میں کھیلنے سے رونق ہوتی ہے ، وہ گھروں میں سہمے سہمے ہیں، بیڈ اور بستروں کے نیچے چھپ کر بیٹھتے ہیں، ان کی دل کی دھڑکنیں اس قدر تیزی سے چلتی ہیں جیسے ابھی تین چارکلومیٹر دوڑ کر آئے ہوں۔یہاں شادی بیاہ یا دیگر خوشی کی تقریبات منعقد نہیں ہوتیں!۔مزدور، محنت کش کام نہیں کرسکتے، تعمیرترقی کا عمل بالکل بند ہے۔ان دنوں کافی ٹھنڈ ہے لیکن یہ لوگ سردی کا احساس بھی بھول گئے ہیں کیونکہ جب بھی فائرنگ ہوتی ہے تو انہیں گرم کپڑے یا اوپر گرم چادر وغیرہ بھی رکھنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ جس حال میں ہوتے ہیں، جان بچھانے کے لئے بھاگنا پڑتا ہے۔
مودی جی۔۔۔سرحد پر رہنے والے لوگوں کو صرف جھوٹی یقین دہانیاں ملتی ہیں، عملی طور کچھ نہیں پھر بھی یہ بے چار ے ،جوبھی سیاسی لیڈر، حکمران یا افسر ،ان کے پاس جاتا ہے وہ اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرتے ہیں اور اس کی باتوں کو اس امید کہ ساتھ غور سے سنتے ہیں کہ شاہد اب کی بار کچھ اچھا ہو مگر آج تک وعدہ خلافی، نا انصافی اور نظر اندازی کے سوا کچھ نہ ملا ہے۔عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے MLA/ MLCs/MPs، منسٹریا دیگر سیاسی لیڈران بیان جاری کرتے ہیں ، حقیقت کیا ہے وہ صرف سرحد کے لوگ ہی جانتے ہیں، اس وقت لوگوں فوری راحت چاہئے جو نہیں مل رہی۔ بیان بازیاں، جھوٹی تسلیوں سے پیٹ بھرنے وال انہیں۔
مودی جی ۔۔۔
یہاں کے لوگوں کو اپنی سیاسی قیادت سے بھی کافی گلے شکوے ہیں کیونکہ وہ ووٹ لینے کے وقت تو گولیوں کے سائے میں بھی یہاں اکیلے پہنچ آتے ہیں، مگربعد میں سیکورٹی بھی ہونے پر وہ یہاں آنا نہیں چاہتے ۔جموں وکشمیر کی موجودہ مخلوط سرکار بھی سرحدی علاقہ کے لوگوں سے متعصبانہ رویہ اور امتیازی سلوک روا رکھ رہی ہیں اور انہیں سیاسی انتقام گیری کا شکار بنایاجارہاہے ۔ دربار موؤ کے بعد دفتر جموں میں آئے ہیں، لوگوں کو امید تھی کہ محبوبہ آنٹی ان کا دکھ درد جاننے آئیں گے اور اس کا کوئی فوری علاج بھی کریں گیں لیکن اس کے الٹ ہوا۔4نومبر2016کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جی نے سرحدی اضلاع پونچھ وراجوری کا دورہ کیا لیکن انہوں نے بھی صرف انہیں علاقوں میں جانے کی زحمت گوارا کی جہاں سے حکمران جماعتوں کے ایم ایل اے یا ایم ایل سی ہیں، نوشہرہ ،راجوری اور پونچھ گئیں وہ بھی چند محدود علاقوں تک، ضلع پونچھ کے مینڈھر علاقہ میں سینکڑوں کلومیٹر ایل او سی ہے جس سے منکوٹ، بالاکوٹ، چھجلہ ، گوہلد، بسونی ، دھراٹی ، سلوتری وغیرہ کا ایک بڑا علاقہ ایل او سی کے قریب واقع ہے، وہاں وزیر اعلیٰ یاکسی دوسرے بڑے حکمران نے جانے کی زحمت گوارا نہیں کی، فائرنگ سے زخمی ہوئے درجنوں افراد کو پارٹی کے مقامی لیڈران اور کچھ از خود رشتہ داروں کے سہارے چل کر بھمبر گلی پہنچے تاکہ وہ اپنے دکھ ودرد کو حکومت کو بتاسکیں لیکن محبوبہ جی نے وہاں جانے ہی منسوخ کر دیا۔ ادھر پونچھ کے گگڑیاں ،ساوجیاں، شاہ پور ،کیرنی، مندھار ،لورن، منڈی، گلی میدان ، گونتریاں وغیرہ علاقوں میں بھی حالات بہت زیادہ خراب ہے۔
۔۔۔جناب والا صرف پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی یوں تو مل کر سرکار چلا رہے ہیں ، جن کی ذمہ داری ریاست کی پوری عوام کے مسائل کو دیکھنا ہے،ان کے دکھ درد کو سمجھنا ہے لیکن پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران صرف اپنے مخصوص حلقوں پر ہی توجہ دے رہے ہیں، وہ بھی صرف انہیں لوگوں کی طرف جنہوں نے ان کو ووٹ ڈالے ہیں، جناب یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟ جموں، سانبہ ، راجوری اور پونچھ ضلعوں پر مشتمل لوک سبھا حلقہ(جموں ،پونچھ)کے ممبر پارلیمنٹ جگل کشور شرما صاحب نے صرف اخباروں میں اپنی موجودگی کا اظہار کرنے کے لئے سانبہ اور جموں کے کچھ سرحدی علاقوں تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھا ہوا ہے، پونچھ وراجوری میں کیا ہورہا ہے، اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔انہوں نے بنکروں کی تعمیر یا لوگوں کی سہولیات فراہمی کی بات نہیں کی۔ آپ کی کابینہ بلکہ آپ کے دفتر میں ہمیشہ موجود رہنے والے جناب ڈاکٹر جتندر سنگھ صاحب کے دورے بھی جموں شہر یا پھر کٹھوعہ ضلع تک ہی محدود رہتے ہیں، وہ بھی بارڈ کی طرف جانا نہیں چاہتے۔جناب آپ کو وہاں پر شاہد یہ بھی بتایاجاتا ہوگاکہ سرکار سرحدوں پر جاری از خود معائنہ کر رہی ہے ، لیکن آپ کو معلوم ہے یہ لیڈران سرحد سے کئی کلومیٹر سخت ترین سیکورٹی خصار میں جاکر بیان جھاڑ کر، مگر مچھ کے آنسوؤں بہاکر واپس آجاتے ہیں۔آپ کی پارٹی کے لیڈر ترقی کی بات کرتے ہیں، جہاں جاتے ہیں کہتے ہیں ، ہمارے پاس ترقی کا بہت بڑا ویژن ہے، اس کو لاگو کیاجارہاہے، مگر آپ بتائیں جب امن ہی نہیں ہوگا، لوگوں کی جان کی حفاظت نہیں ہوگی تو پھر ترقی کیا خاک ہوگی۔ اس وقت سرحد پر رہنے والے لوگوں کوکئی مقامات پر مذہبی تنظیمیں ، زیارت گاہوں، خانقاہوں، درسگاہوں، مندروں ، آشرموں کی طرف سے کھانا کھلایاجارہا ہے اور انہیں سر چھپانے کیلئے جگہ بھی ملتی ہے۔
مودی جی ۔۔۔راجوری وپونچھ ضلعوں کے لوگ دو طرف سے مارے ہوئے ہیں، ایک طرف وہ توپوں، مارٹر شیلوں، اندھا دھند فائرنگ کا سامنا کر رہے ہیں تو دوسری اور انتظامیہ اور سرکار نے انہیں مکمل نظر انداز کر رکھا ہے، جناب والا جتنے بھی ایم ایل اے، ایم ایل سی یا ضلع وپولیس انتظامیہ کے افسران ہیں وہ ڈائریکٹ فائرنگ متاثرہ علاقوں میں جانا ہرگز گوارا نہیں کرتے، وہاں لوگ کس دکھ ودرد اور مصیبتوں سے گذر رہے ہیں کسی کو اس کا علم نہیں۔ وہاں پر ایمبولینس ، دوائیاں دستیاب نہیں، ڈاکٹروں کا نام ونشان نہیں، ایس ڈی آر ایف یا کوئی دیگر امدادی ٹیمیں نظر نہیں آتیں، صرف یہاں پر لوگ ہی ایکدوسرے کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔راجوری ، منجاکوٹ، نوشہرہ، سندربنی، بالاکوٹ، منکوٹ، ساوجیاں، لورن ، منڈی میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو معذور ہوکر بیک مانگ رہے ہیں۔پونچھ اور راجوری اضلاع کے سرحدی علاقوں میں جگہ جگہ باردو سرنگیں(لینڈ مائن)بچھائی گئی ہیں، بہت سے علاقے ایسے ہیں جن کی Identificationیاوہاں نہ جانے سے متعلق کوئی وارننگ نہیں، جس کی وجہ سے کئی بار وہاں سے مال مویشیوں یا پھر انسانوں کے گذرنے سے زور دار دھماکے ہوئے اور کئی قیمتی جانیں تلف ہوئیں اور کچھ عمر بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔ ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں بزرگ خواتین، مرد، بچے اور نوجوان شامل ہیں، جوکہ بے یارو مددگار ہیں، سرکار کی طرف سے انہیں بمشکل400سے 500روپے ماہانہ پنشن دی جاتی ہے وہ بھی کئی کئی ماہ تک ملتی نہیں۔بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں اب فوج نہیں، مگر انہیں لینڈ مائنوں سے خالی نہیں کیاگیا ، لوگ جب یہاں مال مویشیوں کو چرانے جاتے ہیں یا پھر کھیتی باڑی کرتے ہیں تو بچھی ہوئی لینڈ مائن پھٹتی ہیں یا زندہ ملتی ہیں۔
صرف زندہ ہی نہیں بلکہ مرے ہوئے لوگوں کے لئے قبروں میں بھی چین نہیں ہے۔ مینڈھر کی تحصیل بالاکوٹ میں حدمتارکہ پر بھارت کی طرف سے کی گئی Fencing کے اندر سندوٹ میں کئی سول سال پرانا یہ قبرستان سینکڑوں کنال اراضی پر مشتمل ہے، تاربندی کے اندر بالاکوٹ کے پڑنے والے تین بڑے گاؤں جن کی آبادی 10ہزار کے قریب ہے، ان کا یہ آبائی قبرستان ہے، سندوٹ میں مشہور’سٹالی چیڑزیارت‘کے پاس واقع قبرستان کے بیشتر حصہ پر فوج قابض ہے، قبرستان کی کوئی بھی چار دیواری نہیں کی گئی، قبروں کے اوپر سے مٹی اٹھاکر مورچے اور بنکر تعمیر کررکھے ہیں، کئی قبروں کے اوپر مورچے بنے ہوئے ہیں۔نہ اس جگہ کی صفائی کی جاتی ہے اور نہ لوگوں کو اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہاں پر فوج نے کئی خرگوش بھی پال رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے قبروں کو کھرود کھرود کر وہاں سے مردوں کی ہڈیا ں بھی باہر نکال لائی ہیں۔ اس طرح تقریباً40قبروں سے ہڈیاں نکالی گئی ہیں۔ یہ بھی بتاؤں کہ بالاکوٹ سیکٹر میں 3سے4کلومیٹر پیچھے تاربندی کی گئی ہے اور اس سے آگے جتنی بھی آبادی رہ رہی، وہ گونا گوں مشکلات سے دو چار ہے، اگر کسی شخص کی موت ہوجاتی ہے تو تدفین کے لئے فوج سے اجازت لینا پڑتی ہے اور یہ اجازت ملتے ملتے کم سے کم تین گھنٹے لگ جاتے ہیں، اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ صبح نماز فجر کے بعد قبرستان پر فاتح خوانی کے لئے جائیں مگر یہاں فوج کی طرف سے اجازت نہیں دی جاتی۔
سرحدی علاقوں کی ترقی کے لئے مرکز ی سرکار کی طرف سے Border Area Development Programme(BADP)نام کی ایک سکیم چلائی جارہی ہے، کروڑوں ، اربوں روپے سالانہ آتے ہیں ، لیکن زمینی سطح پر اس کی کوئی عمل آور ی نہیں ہورہی، آپCAGسے ایک مرتبہ جموں وکشمیر میں اس سکیم کی عمل آوری بارے خصوصی آڈٹ کرائیں ، آپ کو بخوبی پتہ چل جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ بارڈز علاقوں میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی،یہاں پر پینے کے صاف پانی کا انتظام نہیں، پانی کی پائپیں نہیں، لوگ بیشتر علاقوں میں قدرتی چشموں سے پانی کا استعمال کرتے ہیں، بجلی نہیں، اگر کہیں ہے تو بجلی کھمبے نہیں، اکثر لوگوں نے درختوں پر تاریں لگائی ہیں، سڑکوں کی حالت خستہ ہے، سکولی عمارتیں تباہ حالی کا شکار ہیں، ایگریکلچر محکمہ کے ملازمین گھر سے بیٹھ کر ہی کاغذی خانہ پوری کرتے ہیں،میڈیکل سہولیات بھی دستیا ب نہیں، ڈسپنسریاں یا چھوٹے موٹے جو ہیلتھ سینٹرز بنائے بھی گئے ہیں، وہ زیادہ تر بند ہی رہتے ہیں، جناب والا یہاں سیکورٹی وجوہات کی آڑ میں سرکاری ملازمین جتنی مرضی چھٹیاں ماریں، ڈیوٹی دیں یا نہ دیں، انہیں اتنی زیادہ پوچھ گوچھ نہیں ہوتی۔مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانتی قانون، پردھان منتری گرام سڑک یوجنہ، اندر�آواس یوجنہ، پردھان منتری بیمہ یوجنہ وددیگر سکیموں کے بارے میں لوگوں کو کچھ پتہ نہیں اور نہ انہیں افسران بتاتے ہیں۔
مودی جی!
نئی دہلی میں جب ہوم منسٹری یا وزرات خاراجہ کی طرف سے ہندوستان پاکستان کے تعلقات بارے کوئی بیان جاری ہوتا ہے، تو اس کی فوری خبر بارڈرز علاقوں کے لوگوں کو پتہ چل جاتی ہے کیونکہ یہاں لوگ ریڈیو بہت سنتے ہیں،اس کے علاوہ فوجوں کے چاک وچوبند ہونے او رعام لوگوں کے تئیں ان کے تیکھے تیور بھی سب کچھ بتادیتے ہیں۔راجوری پونچھ میں بارڈر پر رہنے والے لوگ ریڈیو بہت زیادہ سنتے ہیں، ٹیلی ویژن بھی دیکھتے ہیں لیکن اس کی تعداد کم ہے۔ ریڈیو یہاں پر پابندی کے ساتھ سنا جاتا ہے تاکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ لگنی والی ایل او سی یاانٹرنیشنل بارڈربارے کوئی بیان چھوٹ نہ جائے کیونکہ ان بیانات اور خبروں سے ہی انہیں معلوم ہوجاتا ہے کل یا آنے والے چند گھنٹوں میں کیا ہوسکتا ہے اور وہ پہلے ہی اپناکاروبار چھوڑ جان بچانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
لوگ ’من کی بات ‘بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں، انہیں آپ کی تقریر بہت پسند ہے، آپ کا تقریر کرنے کا انداز، لب ولہجہ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ انہیں کافی متاثر کرتی ہے لیکن ان کے کان آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ سننے کے لئے بے تاب ہیں، جن سے انہیں راحت ملے۔وہ ایسا کچھ سنناچاہتے ہیں جس طرح کے سال 2003میں اٹل بہاری واجپئی نے انہیں سنایاتھا ، انہیں کافی راحت ملی تھی، ان لوگوں کے لئے یہ بات کافی معنی رکھتی ہے، اُمید ہے آپ’من کی بات‘یا کسی دوسرے بیان کے ذریعہ بارڈر پر رہنے والے لوگوں کو اچھی خبر سنائیں گے جس سے ان کی مشکلات حل ہوں، وہ امن وسکون کی زندگی جی سکیں۔پونچھ وراجوری کے بارڈوں کے قریب رہنے والے 85فیصد سے زیادہ لوگ نہایت غریب ہیں، ان کے بیشتر مکانات کچے ہیں، جن کے لئے اپنے کچے آشیانوں کے علاوہ اور کوئی ٹھکانہ نہیں،مگر مارٹر شیلوں، گرنیڈ دھماکوں اور راکٹ لانچروں سے یہ کچے آشیانے بھی بار بار ٹوٹ جاتے ہیں، ابھی ان کی دوبارہ تعمیر کی نہیں ہوتی کہ پھر سے گولے برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔
۔۔۔بارڈر میں رہنے والے لوگ ذہنی طور سخت پریشان حال ہیں، ہر لمحہ ان کو جان کے لالے پڑے رہتے ہیں،یہاں کے لوگ کافی قابل، ذہن ترین ہیں لیکن لگاتار ہونے والی فائرنگ، ہرسوں فوج ہی فوج، گولیوں کی گن گرج نے ان کو بے حد پریشان کیا ہے، ہر ماں اپنے بچے کا بہتر مستقبل دیکھنا چاہتی ہیں، اس کو اچھا پڑھانا لکھانا چاہتی ہیں، مگر یہاں مائیں کیسے لخت جگر کو سکول بھیج کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماریں کیونکہ انہیں یہ یقین نہیں ہوت اکہ وہ بچہ صحیح سلامت گھر واپس بھی سکول سے پہنچے گا کہ نہیں۔ صبح جب ماں اپنے بچہ کو سکول کے لئے تیار کربھیجتی ہے تو اس کو کئی کئی بار چوم کر بھیجتی ہیں اور دن پر اس کی پر امن واپسی کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔
۔۔۔یہاں کے بچے ونوجوان کرکٹ، کبڈی، فٹ بال، کھوکھو، ٹینس، بیڈ منٹن کے بڑے شوقین ہیں، یہاں بھی سچن ٹنڈولکر، مہند سنگھ دھونی، وراٹ کوہلی، سائنہ نہوال، ثانیہ مرزا، مہیش بھوپتی کے چاہنے والے ہیں، ان جیسا بننا چاہتے ہیں، لیکن وہ گھروں سے باہر نکل کر کھیل نہیں سکتے اور نہ ہی والدین انہیں ایسا کرنے دینے کا خطرہ مول لیتے ہیں کیونکہ پتہ نہیں کس طرف سے گولی آئے اور انہیں زخمی کر دے۔
۔۔۔پختہ بنکروں کی تعمیر ، 5مرلہ پلاٹ کی محفوظ مقامات پر الاٹ منٹ وغیرہ کے سرکارنے وعدے کئے تھے لیکن یہ وفا نہیں ہورہے۔ جموں، سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع کے بارڈر علاقوں میں پکے بنکرز تعمیر کے لئے آپ کی سرکار نے 20سے زیادہ کی رقم دی ہے لیکن پونچھ راجوری کو اس زمرہ میں نہ لایاگیا ہے۔ یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ امن وامان قائم ہو اور وہ بھی پرسکون زندگی جئیں اور تعمیر وترقی کی نئی منازل کو طے کریں ۔ جان ومال کے تحفظ کے لئے ان کے لئے پختہ بنکرز تعمیر کئے جائیں، ایمبولینس، دوائیوں، ڈاکٹروں کا انتظام ہو، محفوظ مقامات پر ان کے لئے ان جگہوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ وہ ہنگامی حالات میں فوری وہاں پر پناہ لیں۔وہاں پر پہلے سے ہی اشیاء خوردونوش کا انتظام رکھا جائے جس کو ضرورت پڑنے پر استعمال میں لایاجاسکے۔مجھے امید ہے کہ آپ تک اس خطہ میں لکھی کچھ باتیں پہنچ جائیں اور آپ کچھ سرحدپر رہنے والے لوگوں کے لئے کوئی راحت فراہم کردیں۔یہاں کے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، اعلیٰ عہدوں پرفائض ہونا چاہتے ہیں، وہ آپ سے امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں ، وہ اٹل بہاری واجپئی کی طرح آپ سے بھی ایسے ہی کسی تاریخی فیصلہ کے منتظر ہیں جو ان کے لئے سکون لائے، پر امن فضاء لائے۔
آپ کا شکرگذار
سرحدوں پر فائرنگ سے متاثرایک عام شہری
مکتوب نگار الطاف حسین جنجوعہ ہیں ،پیشہ سے آپ وکیل اور صحافی ہیں، سرحدی ضلع پونچھ سے آپ کا تعلق رکھتے ہیں۔
(ملت ٹائمز)

SHARE