یونیفارم سول کوڈ۔۔۔۔۔ناقابلِ قبول

اسلام نے پہلے سے ہی عورت کو معزز و محترم مقام عطا کیا ۔ اگر ہندوستانی آئین کی کسی دفعہ میں تبدیلی ناگزیر ہیں اگر چہ وہ مطلوب بھی ہے ۔ تو خالق کائنات کے آئین شریعت میں کسی طرح کسی نقطے کی تبدیلی قابل قبول ہوگی ہمارے لئے اللہ کا قانون ہی روح زیست ہے۔

مبینہ رمضان
اسلام میں نکاح کی حثیت ایک معائدہ کی ہے ۔اسلام نکاح کو جنموں کا رشتہ نہں قرار دیتا جو کبھی ٹوٹ نہ سکے لیکن دیگر مذاہب یا مغرب کی طرح اِسے بزنس کنٹریکٹ نہیں مانتا بلکہ قران نِے اِسے مثاق غلیظ کہاگیا ہے اسلام نے جہاں بنی نوع انسان کو زندگی گذار نے اورسنوارنے کاہنرسکھایا وہاں فطرت انسانی کے پیچ وخم میں بھی رہبری ورہنمائی فرمانی اور زندگی کے ہر گوشے کو مزین کیا تاکہ مسلمان احسن طریقے سے خوشحال زندگی بسر کرتے ۔اِسی لئے انسانیت کے لئے عموماََ اور ازدواجی زندگی کے لئے خصوصاََ تعلیمات وھدایات واضح کردئے گئے ہیں تا کہ انسانی زندگی کا یہ حسین وجمیل صفر تلخیوی کے بغیر گذر جائے۔
گذشتہ ماہ سے طلاق تلاشہ یا سہ طلاق تمام بھارتی مےۂ یا پر موضوع بحث بناہوا ہے اور ہر روز مختلف ٹی وی چنلوں پر گھنٹوں بھر اِسی موضوع پر بحث مہاحشہ کر کے لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں پورے ہندستان میں تشویش واظطراب کی لہر دوڈ گئی ہے۔
طلاق ثلاثہ یعنی ایک وقت تین طلاقیں دینا دراصل ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔طلاق اللہ کے حلال کردہ چیزوں میں سب سے ناپسند چیزہے یہاں تک کہ اقسام میں طلاق ثلاثہ کو طلاق بدعت کہا گیا ہے حدیث میںآیا ہے کہ حضرت رُکانہ بن عبد یزیدنے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تیں طلاقیں دے دی لیکن بعد میں سخت غمگین ہو�ؤ رسو ل ا للہ ﷺنے اٍن سے پوچھا ’’تم نے اٍسے کس طرح طلاق دے دی انہوں نے کہا تین مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دی تھیں ‘‘ تو انہوں نے کہا ہاں : آپ ﷺ نے فرمایا پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو راوی حدیث حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ اسکے بعدحضرت رُکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا ۔اگر چہ علما ء کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ سہ طلاق کو ایک طلاق مانی جا ئے یا نہیں لیکن اس بات میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ طلاق ثلاثہ کے بعد بیوی خاوند کے لئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ خاتون دوسرے نکاح سے طلاق نہ پائے
دور نبوت اور عہد ابوبکر صدیق ؓ یا حضرت عمرفاروق ؓ کے عہد کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی لیکن عہد فاروق ؓ میں جب لوگ کثرت سے عورتوں کو طلاقیں دینے لگے تو مردوں کے اس رویہ پر حکمت کی بنا پر اپ نے تین طلاقوں کے بعد حلالہ کے لئے احکام صادر کئے تاکہ لوگ اس بدعت سے گریز کریں۔حضرت عمر نے جو کیا وہ مصلحت وقت کی اقتضاکا کام تھا نہ کہ شرعی مسلہ تاکہ لوگ ڈر جائے حضرت عمرؓ حلالہ کر کے سخت ترین مخالف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قران میں فرمایا ہے ’’الطلاق مرتٰن فَاِمساک ’‘ بِمَعرُوف اوتسریح’‘ بااحسان ‘‘
’’طلاق دو مرتبہ ہے اِس کے بعد یا اِسکواحسن طریقے رکھ لویاچھوڑ دو‘‘
ان اَیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر اِمام الرازی تفسیر کبیرمیں رقمطراز ہیں’’بہت سے علمائے دین کا مسلک ہے کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینے کی صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی قول قیاس کے سب سے زیادہ موافق ہے کیونکہ کسی چیز کے منع کرنااس پر ذلالت کرنا ہے کہ وہ کسی خرابی اور مفسدپر مشتمل ہے اور مسلک وقوع بیک وقت تین طلاقوں کو تین شمار کرلینا اس فسد اور خرابی کو وجود میں لانے کا سبب ہے اور یہ بات جائز نہیں لہذا عدم وقوع کا حکم لگانا ضروری ہے‘‘(یعنی تین طلاقوں کو تین نہ ہونے کا حکم)
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے علیحدگی کے بعد بھی نکاح ثانی کی حوصلہ افزائی کی ہے کیونکہ ازدواجی زندگی چونکہ ایک معاشرہ کی بنیاد اور شروعات ہے اس لئے اس ادارہ کو اسلام میں ترجیحات حاصل ہے نبیﷺ نے بارہافرمایا جب کسی کو نکاح کے لئے منتخب کرو تو اسے دیکھ لیا کرو تو اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایسا نہ ہو پسند نا پسند کا معاملہ ہو اور بعد میں زندگی کے مراحل میں تلخیوں کا عمل و دخل ہو اور نوبت طلاق تک پہنچے ۔لہذا دین سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ فتنہ کے سواکچھ نہیں ہوگا۔
اس وقت جس مسلہ نے تشویش پھیلائی ہے وہ یکساں سول کوڈ اور لاکمشن کی طرف سے تیار کیا ہو ا سوال نامہ ہے ۔ دراصل حکومت ہند یکساں سول کوڈ کے ذریعے اب مسلم پرسنل لابوڑ میں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے کبھی تعداد ازدواج ، کبھی نفخہ مطلقعہ اور طلاق ثلاثہ کو مسائل بنا کر اُبھارتا ہے اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ مسلمان عورتیں مظلوم ہیں۔ ان مسلوں کو لے کر ہندو توا ایجنڈا پر عمل کر نے والے عورت کی داد رسی کے نام پر فرقہ واریت کو بڑھاوا دے رہے ہیں ورنہ یہ بات یہ لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ایک کثیر المذاہب اور کثیر تہذیبی ملک ہے ۔جہاں ہندو دھرم میں بھی سینکڑوں فرقے موجود ہیں ہندومت میں کہیں ایک عورت کے پانچ پتی ہیں تو کہیں ایک شخص ہزاروں شادیاں کر سکتا ہے ہندو دھرم کے گرہنتھوں کے مطابق برہمنوں کو چار، چھتریوں کو تین ، ویشنوں کو دو اور شودروں کو صرف ایک شادی کرنے کا حق حاصل ہے منوسمرتی کے مطابق برہمن جس ورن میں بھی چاہے شادی کرسکتا ہے البتہ اس کی بیویوں کی درجہ بندی اور ان کے علاوہ جہاں بھی تعداد ازدواج کاتذکرہ ملتا ہے صرف لذت نفس کی خاطر اسکی کی ترغیب دلائی گئی ہے جب کہ قرآن کریم میں صرف ایک ہی آیات ہے جس میں تعداد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے نہ کہ حکم دیا گیا ہے نہ کہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے مگر سماجی مسائل کے حل کے طور پر اس کی گنجائش کو باقی رکھا گیا ہے جو عین فطرت کی بات ہے لیکن یہ گنجائش مشروط ہے ۔ عدل وانصاف کے ساتھ اور لذت نفس کے بالکل منافی ہیاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اور تم ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بود وباش رکھوپس اگر تم انہیں ناپسند کرو تو بہت ممکن ہے کہ تم ان کی ایک چیز کو پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بھلائی رکھ دے‘‘(القران)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نا پسند یدگی کے باوجود زوجین نے حُسن معاشرت اور نبا ہ کی تاکید کرتے ہے اور آپﷺ نے فرمایا کوئی مومن مرد (شوہر )کسی مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تواسکی دوسری عادت پسندبھی ہوگی۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرہ میں کم فہم رکھنے والے لوگ یا تو علم سے دوری کے سبب یا کم علمی کے باعث فتنہ برپا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ راسخ العقیدہ بھی نہیں ہوتے تو ایسی صورتحال میں مسلمان کو اپنے عقائد وافکار کے ساتھ وابستہ رہنا لازمی ہے تاکہ ہردور میں اور ہر مرحلے میں اسلام دشمنوں کے تیرنظر کو بھانب کر مناسب جواب دے ۔ یا یوں کہاں جائے کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی اور بنا کسی فتویٰ کے رجوع کیا یا اُس نے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ جیسے ایک دفعہ کسی شخص نے بیوی کو طلاق دی تو عدت بھی گذرگئی نہ بیوی گھر لوٹی نہ شوہر نے رجوع کیا لیکن اُسے لوگ یہ سوال باربار کرتے رہے کہ باقی دو طلاقیں آپ کب دے رہے ہیں کیونکہ یہ نہیں جانتے تھے کہ صرف ایک طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران اگر اجوع نہہوجائے تو یہ طلاق تین حیض یا تین طہور کے بعد بائن بن جاتی ہیں رشتہ ازدواج ختم تو ہوجاتاہے البتہ دوبارہ نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
لہٰذااس وقت مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کی بے حدضرورت ہے اٍس وقت ہندسرکارنے جس مسئلے کو اُبھارا ہے اُسکے پس منظر میں اور بھی کچھ پوشیدہ ہیں۔ ۲۰۰۴ ؁ء میں مسلم پرسنل لا بورڑکی جانب سے جب ماڈل نکاح نامہ کی پیش رفت ہوئی تو ہندو نیشنل میڈیانے اس بات کو بڑھاچڑھاکر ڈنکا بجایا کہ اب مسلمان شریعت میں تبدیلی پر آمادہ ہوگئے ہیں۔اس بات کو ایک مشہورمیگزین آوٹ لُکoutlookکے ایک شمارہ میں ایک مضمو ن کی سرخی Amend Amend Amend شایع ہوئی اور ساتھ ہی ٹائمز آف انڈیا نے اعلان کردیا کہ (Board of ready to Amend Shariah) جو کھلم کھلا مسلم پرسنل لابورڈ کے خلاف ایک پر وپیگنڈا کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ان حقائق سے خود بخود ظاھر ہوتا ہے کہ نیشنل پریس کا اصل مقصد ملک میں یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموارکرنی ہے جسکے لئے یہ ہاتھ پیرمار رہے ہیں۔ انہیں کسی سے ہمدردی نہیں ہیں بلکہ شریعت میں تبدیلی کے شدید خواہش مند ہے اور کسی بھی طرح سے مسلم پرسنل لا بورڈ میں مداخلت چاہتے ہیں دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہنا بجا ہوگا کہ ان سب شوشوں کے پیچھے ووٹ بنک کی سیاست پوشیدہ ہیں یا پھر مودی سرکار کا آئیڈئیل ایجنڈا جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے (Party with a -Mission and diference and agenda)
اسلئے ہندوایجنڈا کے ذاتی مفادات کے لئے اب مسلم پرسنل لا کے ساتھ چھیڑ کھانی کرنے والے ملک میں ایک زہر کھول رہے ہیں لیکن دوسروں کے آشیانوں پر بجلی گرانے والئے خود اسی بجلی میں بھسم ہوکر رہنگے۔ یہ سرکار ce Gender Justi کی آڈ میں ہندوایجنڈا کے حامی ہیں ۔ لا کمشن نے ایک گمراہ کن سوالنامہ مرتب کیا ہے کہ پرسنل لاز سماجی ناانصافی اور منفی امتیازات پیدا کرتے ہیں اور انہوں نے عورتوں کے حقوق کو فی نفسہ ختم کردیا ہے۔ اس سوالنامے کی نوعت سے ظاھرہوتا ہے کہ ایک خاص گردہ نشانے پرہے۔اس وقت امتِ مسلمہ کو متحد ہوکر تحفظ شریعت کی خاطر آگے آناچاہے۔ اس حوالے سے آل انڈیا پرسنل لا بوڑ جو عملی اقدام اُٹھا رہے وہ قابل تحسین ہیں ۔ شریعت میں تاقیامت کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ ہوسکتی ہیں شریعت ہر قانون حکمت و انصاف پر مبنی ہے۔ ہندوں کے روایتی قوانین دراصل نا انصافی پرمبنی ہے اور اُن کے ان گنت مسائل جیسے بیواوں کی دوبارہ شادی ، خواتین کو وراثت وغیرہ میں حقوق دئے جا سکیں اسی لئے ایک ہندو عورت کی سماجی حالت بہتر بنانے کے لئے اسلام کے عایلی قوانین سے استفادہ کیا گیاہے اگر چہ اس بات کا اعتراف نہ کبھی کیا ہے اور نہ کرینگے لیکن ان حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یکسریہ حالات بدل نہیں سکتے اس لئے مسلم پرسنل لا میں تبدیلی اور یکساں سول کوڑ کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں ۔
یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کادوسرا رُخ اگر دیکھیں تو کیا یہ بات ظاھر نہیں ہے کہ ہندستانی آئین کی دفعات میں دفعہ 44 مذہبی حقوق کی حفاظت کے لئے موجود ہے اور کسی بھی دخل اندازی کا رد ہے لیکن عورت کی داد رسی کا نعرہ لگانے والے پہلے اپنی تاریخ کو ٹٹولے۔ یہ لوگ مختلف سیاستی اور ذاتی مفاد دات کے لئے کوئی بھی بدلاؤ اور کہیں بھی اُلٹ پُلٹ کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان اس وقت بھی ذات پات ،اونچ نیچ ، فرقہ ورایت ،گاو رکھشاوسماجی مسائل کی آگ سوریہ نمسکار، غرض مختلف مسلوں سے جھوج رہا ہے ۔ اور یہی مسائل جو کہ فطرت وحق سے انحراف کی بنیاد پر بنے ہیں یہی اس ملک کو اندر سے کھوکھلا کرے گے ۔ہندومت میں ستی کی رسم کو ختم ہوے کتنی ہی صدیاں بیت گئی ۔اسلام نے پہلے سے ہی عورت کو معزز و محترم مقام عطا کیا ۔ اگر ہندوستانی آئین کی کسی دفعہ میں تبدیلی ناگزیر ہیں اگر چہ وہ مطلوب بھی ہے ۔ تو خالق کائنات کے آئین شریعت میں کسی طرح کسی نقطے کی تبدیلی قابل قبول ہوگی ہمارے لئے اللہ کا قانون ہی روح زیست ہے۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگارجامعہ اسلامیہ مہدالمسلمات کی مہتممہ اورایک سماجی تنظیم انصارُانِساء کی سربراہ ہیں)

SHARE