میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے …

مشرف عالم ذوقی
احمد فراز کا ایک شعر ہے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
ضیا الحق کی حکومت تھی .احمد فراز معتوب ہوئے اور انھیں پاکستان چھوڑنا پڑا – کیا قتل کرنے والوں سے صلح ممکن ہے ؟یہی بنیادی سوال ہے جسے ہم ہندوستانی نہیں سمجھ سکے .۲۰۱۴ کا لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کو سزا دینے کے ارادے سے ۱۲۵ کروڑ عوام نے وہاں اعتبار کیا جہاں گجرات لہو کے داغ ابھی بھی دھلے نہ تھے …ہندوستان کی بڑی اکثریت کو فرقہ پرست نہیں کہا جا سکتا ..ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں ،جنکی وجہ سے ہماری گنگا جمنی تھذیب آج بھی زندہ ہے ..اور ایسے لوگ آج بھی ہمارے لئے ،ہماری حمایت میں کھڑے ہیں ..انگریز بھی مٹھی بھر تھے لیکن ہم ہندوستانیوں کو روند کے رکھ دیا …ہٹلر کے ساتھ پورا جرمنی نہیں کھڑا تھا ..ظلم کی اپنی انتہا ہوتی ہے جو کچھ دیر کے لئے خوف کی سلطنت آباد کرتی ہے پھر عوام کا غصّہ جب انقلاب بن کر نازل ہوتا ہے تو تانا شاہوں کا ظلم اور غرور خاک میں مل جاتا ہے …ہم گجرات بھول گئے اور قابیل کا ساتھ دیا
نجیب کی تلاش اور سیاست —
مجھے حیرانی ہے کہ نجیب کی تلاش کا ہنگامہ کیوں کیا جا رہا ہے ؟ یہ کہنے کی جرات کیوں نہیں کی جا رہی کہ جیسے عام بے گناہ مسلمان مار دیے جاتے ہیں ویسے ہی اے بی وی پی کے غنڈوں نے نجیب کو بھی مار دیا .نجیب کو اغوا کیوں کیا جائے گا .،؟ دلی پولیس اے بی وی پی والوں کا کچھ نہیں بگاڑ پاے گی .چشم دید گواہوں کے یہ بیان بھی اہے تھے کہ نجیب کو مارنے والے غنڈے اسے ۷۲ حوروں کے پاس پہچانے کی بات کر رہے تھے ..لیکن نجیب کی ماں کو جس طرح دلی کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا ،اور اسکے بعد دلی پولیس کے قابل افسران نے جو احمقانہ دلیل دی ، اسکے خلاف زی اور انڈیا ٹی وی کو چھوڑ کر باقی ٹی وی چینلز کا آنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مودی حکومت کے ظالمانہ اور جابرانہ اقدام کے خلاف اب میڈیا والوں کے ضمیر جاگنے لگے ہیں ..یہ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے …اچانک حکومت زور زبردستی کی اس روش پر آ گی جہاں اسے مکمل یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح ارنب گوسوامی جیسے بے ضمیر نیوز اینکر کا ساتھ ملے گا …مگر اب اچانک تصویر کچھ حد تک بدلی ہے …ان ڈی ٹی وی بین کو لے کر خود مودی حکومت پر پلٹ وار شروع ہوا کہ آیی ایس آی کو تفتیش کے بہانے اگر ایئر بیس کی سیر کرانا جرم نہیں تو اسکی رپورٹنگ کرنا جرم کیسے ہو سکتا ہے ؟ جرم تو آیی ایس آی کو اپنا خفیہ ہیڈ کوارٹر دکھانا تھا .یہ قانونی جنگ اس میں شک نہیں کہ مودی کو منہگی پڑے گی .مودی ادھر لگاتار غلطیاں کر رہے ہیں .جیسے ایک غلطی جلد بازی میں بھوپال کے فرضی انکاونٹر میں دہرایی گی .جانچ سے پہلے ہی شو راج نے ظالم پولیس والوں کو لولی پاپ باٹنے کا فرمان جاری کیا تو اسے واپس لینا پڑا —یہاں بھی کیی ٹی وی چینلز نے ضمیر کو زندہ رکھا .عالمی سطح پر بھی مودی حکومت کو نشانے پر لیا گیا ..ملک کے وقار اور فوجیوں کی ان بان شان کی دہایی دینے والے مودی کی قلعی اس وقت کھل گی ،جب ایک سابق فوجی کے خود کشی کرنے پر پولیس نے آنسو پوچھنے کی جگہ اسکے خاندان کو ہی حراست میں لے لیا …یہ ایسا حادثہ تھا کہ مودی کو ہیرو ماننے والے بھی سکتے میں آ گئے …
لیکن کچھ سوالات ہیں جو یہیں سے پیدا ہوتے ہیں .کیا کانگریس یا دوسری سیاسی پارٹیاں کمزور ہیں جنہیں سیاسی معاملات کو کیش کرنے کا ہنر نہیں آتا ؟کانگریس حکومت میں تھی ،تو مودی نے کانگریس کا جینا دو بھر کر دیا تھا …آج مودی حکومت فرقہ واریت کی راہ پر چلتے ہوئے لگاتار خوفناک فضا قایم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سیاسی پارٹیاں کسی بھی ایشو کو زور دار طریقے سے اٹھانے کا دم نہیں رکھتیں ..کیا یہ وہ وقت نہیں جب کانگریس ،کمیونسٹ پارٹی ،سماج وادی ،بی اس پی بھاجپا کے خلاف متحد ہو کر ملک میں سیاسی زلزلہ پیدا کر دیتے ..
ایک شکایت اور ہے .معاملہ مسلمانوں کا ہو تو سیاسی پارٹیاں اس خوف میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ مسلمانوں کا نام لیا اور اکثریتی ہندوؤں کا ووٹ غایب .لیکن جب انتخاب ہو تو یہ پارٹیاں مسلمانوں کا ووٹ لینے کے لئے بے شرم بن جاتی ہیں ..نجیب کے معاملے میں اروند کے بیان دیکھ لیجئے ..کانگریس نے کچھ بھی بولنے کی ضرورت نہیں سمجھی ..
اب وہ وقت آ گیا ہے ،جب مسلمان سیاسی پارٹی سے انتخاب کے وقت مشروط وفاداری کا سودا کریں .آپ ہمیں کیا دینگے ؟ سبز خواب یا ہماری جھولی میں کچھ اے گا …یہ جان لیجئے کہ تمام سیاسی پارٹیاں کم و بیش ایک جیسی ہیں .غیر مشروط وفاداری نے مسلسل مسلمانوں کا نقصان کیا ہے ..اب سودے بازی کا وقت ہے …شروعات اتر پردیش سے ہو ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار معروف ادیب اور مشہور ناول نگار ہیں)

SHARE