اترپردیش کے اسمبلی ا نتخاب میں مسلمانوں کا لائحہ عمل

محمد شمشاد
اتر پردیش میں آئندہ چند مہینوں کے اندر اسمبلی الیکشن ہونا ہے یہ انتخاب ہندوستان کی سیاست میں کافی اہمیت کا حامل ہے اسکے ساتھ ہی ملک بھرکے مسلمانوں اور سیکولرعوام کیلئے بڑی آزمائش کا مقام بھی رکھتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انکا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہواور ذات ، مسلک اور کچھ ذاتی فائدے کے بنیاد پر انکے ووٹ نہ بٹنے پائے اتر پردیش کی اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی ،بی ایس پی ،کانگریس اور بھاجپاکے ساتھ مسلمانوں کی تقریبادس 10 پارٹیاں جس میں مجلس اتحا دالمسلمین ،ویلفیر پارٹی ، ایس ڈی پی آئی ،قومی ایکتا دل ،پیس پارٹی ، راِشٹریہ علماء کانسل ، اتحاد ملت پارٹی ، پرچم پارٹی ،انڈین نیشنل لیگ اور مسلم مجلس بھی زور آزمائی کریگی بالعموم یہا ں کے مسلمانوں میں بھا جپا کے مقابلے سیکولر امیدوار کوحمایت کرنے کی حکمت رہی ہے
دراصل ہندوستان کی ہر سیاسی پارٹی کی شناخت کسی نہ کسی ذات یا مذہب خاص سے جوڑ کردیکھا جاتا ہے کوئی اعلی ذات کی پارٹی ہے تو کوئی دلتوں اور پسماندہ ذات کی پارٹی ہے بھاجپا جیسی پارٹی بھی جنہیں ہندوتوا کی سیاست کی بنا پر شناخت کی جاتی تھی وہ بھی اسوقت صرف اعلی ذات یعنی براہمن، بھومیہار اور بنیاؤں کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے یعنی اب یہ اندازہ لگانا آسان ہوگیا ہے کہ کس کو کتنااور کس ذات کا ووٹ ملے گا
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرانتخاب کے دوران سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس تینوں پارٹیاں مسلمانوں کا ہمدرد اور بھاجپا کو انکا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور خود کو مسلمانوں کے ووٹوں کا سب سے زیادہ حقدار مانتی ہیں اور انکا دعوی ہے کہ آج کی تاریخ میں وہ مسلمانوں کے محافظ ہیں جس کے وجہ کر مسلمان اور سیکولر ووٹوں کا اچھی طرح بٹوارہ ہوتا رہا ہے جس کافائدبھاجپاکو ملتا رہا ہے
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اسوقت مسلمانوں کے گھر گھر میں لیڈر پائے جاتے ہیں لیکن ان میں کوئی انکا رہنما اور قائد نہیں بن پاتا ہے جو انکی رہنمائی کر سکے اس بنا پر پنچایت سے لیکر اسمبلی و پارلیا منٹ تک مسلم نمائندگی میں کافی کمی آئی ہے ا س مضمون میں ہم نے 2014 کے لوک سبھا اور 2012 کے اسمبلی انتخاب کا جاٹزہ لینے کی کوشش کی ہے جس سے مسلم رہنماؤں کو اتر پردیش کیا آئندہ کے اسمبلی الیکشن میں ایک خاکہ تیار کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے اسکے ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوجائے کہ کن وجوہات کی وجہ کر انکے مخلص رہنما اپنے حلقہ کے انتخاب میں ناکام رہے ہیں تاکہ وہ ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کر سکیں اوروہ ان حلقوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان حلقوں میں جا جا کر مسلمانوں کو اس بات کیلئے رہنمائی کر سکیں کہ وہ کس طرح اپنے مخلص رہنماؤں کو اسمبلی کیلئے منتخب کرنے میں کا میاب ہو سکتے ہیں
غور طلب ہے کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی تعدادسرکاری سروے کے مطابق تقریبا 19%اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق 22%ہے یہاں 80پارلیامانی حلقہ میں سے53 اور403اسمبلی میں سے 312 حلقہ ایسے ہیں جہاں انکا اثر و رسو خ ہے اور ان میں کم سے کم 209 اسمبلی ایسے ہیں جہاں مسلمان اپنے من کے مطابق زیادہ سے زیادہ مسلم و سیکولر ممبران اسمبلی میں بھیج سکتے ہیں جس سے انکے من پسند حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے تاہم مسلمانوں کا ووٹ زیادہ ترسماجوا دی اور بی ایس پی کو جاتا رہا ہے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں مسلما نوں نے کھل کر سما جوادی پارٹی کا ساتھ دیا تھالیکن آج تک انکے مسائل جوں کے توں ہیں اکھلیش یادو فرقہ وارانہ فساد پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اسکے علاوہ انکے بنیادی مسائل پر موجودہ حکومت نے بالکل ہی توجہ نہیں دی ہے جسکے وجہ کر مسلمان بے زار ہیں دو سری طرف بی ایس پی کے ماضی کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں وہ بھاجپا کے ساتھ ساز باز نہ کرلے
حالانکہ گزشتہ کچھ سالوں سے کئی مسلم پارٹیاں بھی میدان میں خم ٹھوک کر کھڑی ہوگئی ہیں ان میں پیس پارٹی،علماء کونسل، مسلم مجلس، پرچم پارٹی ،اتحاد ملت پارٹی اور ویلفیر پارٹی کا نام اہم ہے ظاہر ہے عین الیکشن کے وقت منظر عام پر آنے والی ان پارٹیوں سے مسلمانوں کا کچھ بھلاہو یا نہ ہو لیکن بھاجپا کا بھلا ضرور ہوجائگا اسی وجہ کر اکثر مسلم رہنما ؤں کا نام بھاجپا کے ایجنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن پیس پارٹی کے صدر ڈاکٹرایوب اپنی پارٹی کو مسلم پارٹی نہیں مانتے ہیں اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے کوئی مسئلہ سے دلچسپی رکھتے ہیں
2014کے انتخاب کا جائزہ لیں تو بہ بانگ دہل کہا جا سکتا ہے کہ اگر انتخاب کے قبل یہاں سیکولر پارٹیوں اور مسلمانوں کی پارٹیوں کے درمیا ن کوئی سمجھوتہ ہو جا تا تو انہیں وہاں کی سبھی پارلیامانی سیٹ حاصل ہوسکتی تھی واضح رہے کہ پارلیامانی انتخاب میں بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو محض 42% ووٹ ملے تھے جبکہ سماجوادی پارٹی کو 22% ، بہوجن سماجپارٹی کو 20% اورکانگریس کو 8%ووٹ ملا تھا
اسی طرح 2012کے اسمبلی انتخاب کا جائزہ لیں تو اس میں کل 67مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والوں میں 63 امیدوار مسلم تھے یعنی 130لوگ اسمبلی کے دوڑ میں تھے جن میں کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جو چند سو ووٹوں سے ہی ناکام رہے تھے اگر مسلم ووٹراور قائدین نے کوئی حکمت اختیار کر تے توانہیں ایسی ناکامی کا سامنا نہیں ہوتا اور اس طرح کم از کم 39اور مسلموں کو ممبر اسمبلی بنا سکتے تھے یعنی اترپردیش اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد 105سے 115تک جاسکتی تھی واضح رہے کہ اسوقت اتر پردیش کے رامپور میں مسلما ن 52%،میرٹھ میں 53 ،مرادآبادمیں46 ،امروہہ میں 44 ، بجنورمیں 42 ، کیرانہ میں 39، مظفر نگر میں 38، سنمبھل میں 36 ، بریلی میں 25 ،سرسوتی میں 23 ، جونپور میں 21 ، بدایوں،علی گڑھ ،اعظم گڑھ ،سیتا پور،کھیری ، ڈومریا میں 20% ،جبکہ فروخ آباد ،سلطانپور، ورانسی ،غازی پور ،گھوسی ، میں 18-19% مسلمان بستے ہیں انکا ووٹ بٹ گیا اور وہ اپنی پسند کا امیدوار نہیں چن سکے
اگر ایک نگاہ 2012 کے اسمبلی انتخاب کے نتائج پر ڈالی جائے تو67 مسلم اسمبلی میں آسکے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والوں کی تعداد63تھی سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں 5 2مسلمان سماجوا دی سے 19بھاجپاسے، 8بہوجن سے اورایک مسلمان کانگریس سے ہار کر اسمبلی سے باہر رہنے پر مجبور ہوا تھا اس سے ایک بات یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی مسلمان کے مقابلہ میں کوئی آزاد امیدوار مضبوط نظر آتا ہے تو وہ انہیں اسمبلی میں بھیجنا بہترسمجھتے ہیں اوروہ کسی مسلم کے بدلے اپنی پارٹی سے بھی بغاوت کراسکتے ہیں
جہاں مسلمانوں کی آبادی 20% سے 35% فیصد ہے لیکن وہ اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کرنے میں ناکام رہے کیو نکہ انتخاب سے قبل انہوں نے متحدہ حکمت عمل تیار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی اور نہ ہی ووٹروں کی رہنمائی کرنے کی طرف کوئی توجہ کی تھی اسکے علاوہ ٹکٹ لینے والے اور انکے حا می بھی صرف یہ نہ سوچیں کہ انہیں ذاتی طور پر جیتنا یا کسی کو جیتانا کافی اور لازمی ہے بلکہ یہ سوچیں کہ ملت کی جیت کس لائحہ عمل میں ہے اسکے ساتھ ہی ملک کے باقی صوبہ کے لوگوں کو بھی اترپردیش کو اپنے حال پر چھوڑدینا ملک کیلئے بہتر نہیں ہوگا بلکہ انہیں بھی انکے درمیان جاکر اور کوئی راہ ہموار کر کے انکے درمیان اتحاد کا کوئی راستہ نکالنا چاہئے اسی سے مثبت فرق پڑنے کی امید ہے جس طرح دہلی اور بہارکے مسلمانوں نے متحد ہوکر بھاجپا کے خلاف زیادہ سے زیادہ ووٹ دیکر سیکولر پارٹیوں کو کامیاب بنایا تھا اسی طرح کی مثال اترپردیش کے لوگوں کو بھی قائم کرنی چاہئے
ان سب کے درمیان مسلمان بھی ہیں جس کے بارے میں اب تک کہا جاتا رہا ہے کہ وہ سیکولر پارٹیوں کو اپنا ووٹ کرتا رہا ہے اور یہی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے اعدادو شمار پر اگر نظر ڈالیں تو اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد 19%ہے اور یہاں کے 159 سیٹوں پر 10 سے 20% مسلم آبادی رہتی ہے جبکہ 76 سیٹوں پر 20 سے 30% اور 79 سیٹوں پر 30%سے زائد مسلمان رہتے ہیں یعنی 155 سیٹوں پر براہ راست طور پر اثر ڈالتے ہیں اور کل 312 نشستوں پر وہ کسی نہ کسی طرح سے فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انتخاب کے دوران تقریبا ساری پارٹیاں مسلم ووٹروں کو اپنی جانب کھیچنے میں لگ جاتی ہیں
2011کی سنسس رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں مسلمان ۔19% جبکہ براہمن ۔ 13%اور ٹھاکر ۔ 7.6% آبادی رہتی ہے اسکے علاوہ دلت۔20-21%(چمار۔12،پاسی۔3.4،دھوبی۔1.4، کوری۔1.1، بالمیکی۔0.6اور کھاتک۔ 0.3)اور
او بی سی۔ 45% (یادو۔9%، کوئری۔3.4، لودھی۔2.2، جاٹ۔1.7، گوجر۔0.8، ملاہ۔2، تیلی۔2 ،کمہار۔1.6، کہار۔1.5 ،نائی۔1.3، کاچی۔1.4، گڑیریا۔2%) قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتر پردیش میں 30% ووٹ حاصل کرنے والے حکومت بنا سکتے ہیں جبکہ یہا مسلمانوں کی تعداد 19% اور دلت 20%۔21 ہیں یعنی 40% ہوجاتی ہے اگر یہاں مسلمانوں کے ساتھ چمار 12% آجا ئیں تو بھی 31% ہوجاتی ہے
اسوقت اترپردیش میں مسلمانوں کی تقریبادس 10 پارٹیاں ہیں جس میں اسدالدین اویسی کی مجلس اتحا دالمسلمین ،جماعت اسلامی کی ویلفیر پارٹی ، پوپولر فرنٹ کی ایس ڈی پی آئی ،مختار انصاری کی قومی ایکتا دل ، ڈاکٹر ایوب انصاری کی پیس پارٹی ،مولانارشادی کی راِشٹریہ علماء کا نسل ، مولانا توقیر رضا کی اتحاد ملت پارٹی ،سلیمان احمد کی انڈین نیشنل لیگ، پرچم پارٹی اور مسلم مجلس ہے مسلمانوں کی ان میں کچھ پارٹیوں نے اتحاد فرنٹ کے بینر کے نیچے متحد ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ انکے رہنما کا کہنا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس فرنٹ میں کئی اور پارٹیاں بھی شامل ہوجائیں گی انکے مطابق وہ اسدالدین اویسی ،قومی ایکتا دل اور بہار کے وزیر اعلی نیتش کمار و راشٹریہ جنتادل رہنما لالو پرشاد سے بھی اس بارے میں بات کر رہے ہیں
اتر پردیش کی سیاست میں قدم رکھنے والے اویسی کی حالت بھی اچھی بنتی جا رہی ہے انکے ایک امیدوار نے ملائم کے گڑھ کہے جانے والے اعظم گڑھ کے پنچایت انتخاب میں ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کرکے سب کو چونکا دیا ہے اسکے علاوہ انکی حالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں ہوئے تین ضمنی انتخاب میں اویسی نے اپنا امیدوار اتارہ تھا انکے اس دلت امیدوار کو بھاجپا کے امیدوار سے صرف 77 ووٹ ہی کم ملے تھے اویسی کی حکمت عملی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مکمل طور پہ مسلم و دلت اتحاد پر مرکوز ہے انکے تمام جلسوں میں دلتوں کو اچھا مقام دیا جاتا ہے اور پنچایت کے الیکشن میں انکے زیادہ تر امیدوار دلت ہی تھے
ادھرکچھ دنوں سے قومی ایکتا دل کے افضال انصاری بھی پسماندہ ذاتوں اور مسلمانوں کی تمام پارٹیوں سے اتحاد کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اسکے ساتھ ہی وہ کانگریس کو بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں ماہرین کی مانے تو کانگریس انکے ساتھ اتحاد میں شامل ہو سکتی ہے اسکی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس کے پاس کوئی بڑا مسلم چہرہ نہیں ہے دوسری طرف کانگریس کے انتخابی حکمت عملی تیار کرنے والے پرشانت کشور برہمن ،مسلم اور پسماندہ ووٹوں کو لیکر چلنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ مسلم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ نیتش کمار کو ساتھ لیکر ایک اتحاد بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں
انتخاب کا تجزیہ کرنے والے سی ایس ڈی ایس دہلی کے جائزہ کے مطابق مسلمانوں کا سب سے زیادہ ووٹ سماجوادی پارٹی کو ملا ہے انکے مطابق 2002کے اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی کو 54% ،2007 میں 45%، 2012 میں 39% ملے تھے اسکے برعکس بہوجن سماج کی جانب مسلمانوں کا رجہان بڑھتا جارہا ہے اس رپورٹ کے مطابق 2002میں 9%، 2007 میں 17% اور 2012 میں 20%ہوگیا اسکے علاوہ کانگریس کو بھی مسلمان ووٹ کرتے رہے ہیں لیکن انکی تعداد صرف 10%کے قریب ہی رہی ہے
اگربہار کے نقشہ قدم پر کانگریس ان پار ٹیو ں کے ساتھ ملکر انتخاب کی تیاری کرے تو یوپی کا نقشہ کچھ اور ہی ہوگاایک بات تو طے ہے کہ اسکے بنا پر کم سے کم مسلمانوں کا ووٹ صرف سیکولر کی جانب جائیگا تو اوران کا حشر ایسا نہیں ہوگاظاہر سی بات ہے گزشتہ انتخابوں میں اس انتشار کا فائدہ بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو ہی ملتا رہا اور سیکولر پارٹیو ں کی ہوا نکل گئی آئندہ کے اسمبلی انتخاب میں بھی بھاجپا یہی چاہتی ہے کہ سیکولر اور مسلم ووٹوں کو منتشر کیا جائے دوسری صورت یہ بھی ہے کہ مسلم پار ٹیوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے اور انہیں لیکر کانگریس اورجنتا دل پریوار و بہوجن پارٹی کے ساتھ ایک مہا گٹھبند ھن کی تیاری کی جائے اس طرح مسلما نوں کا ووٹ صد فی صد ایک طرف ہو جائے گا اسکی وجہ یہ ہے کہ اسوقت مسلمان ملائم سنگھ اور انکی حکومت سے بالکل ناراض ہیں اور انکے ہمنوا یعنی لالو پرشاد یادو اور نیتش کمار بھی بہار کے انتخاب میں انکے رویہ کو لیکر کافی ناراض ہیں بلکہ کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتر پردیش میں لالو پرشاد اپنے داماد تیج پرشاد یادو کو لیکر راشٹریہ جنتا دل کو اتر پردیش میں مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے ہیں (ملت ٹائمز)
(مضمون نگارمصنف ،سیاسی تجزیہ نگاراورسماجی کارکن ہیں)
موبائل نمبر +91-9910613313 :-
Email:-mshamshad313@gmail.com
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New Delhi-110025

SHARE