کیا ہیلری کی شکست اس ہندنژاد مسلم خاتون کی وجہ سے ہوئی :پڑھئے یہ سنسنی خیز رپوٹ

واشنگٹن
ملت ٹائمز
امریکہ میں حال ہی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبول صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی شکست کے اسباب ومحرکات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور تبصرے شروع ہوگئے۔
ہیلری کلنٹن کی شکست کے دیگربہت سے اسباب میں ایک اہم سبب ایف بی آئی کی جانب سے الیکشن سے چند روز قبل ان کے ای میل اسکینڈل کی دوبارہ چھان بین بھی بتائی جاتی ہے۔ ای میل اسکینڈل کے ساتھ ایک ایک بھارتی نژاد مسلمان خاتون صالحہ محمود عابدین کا کیس بھی مربوط ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ہیلری کی صدارتی انتخابات میں شکست کے بہت سے دیگر اسباب میں ایک بڑا سبب صالحہ محمود عابدین بھی ہیں۔ اگر صالحہ عابدین ہیلری کے ساتھ وابستہ نہ ہوتیں توان کی بیٹی ہما عابدین ہیلری کی مشیرہ نہ بنتیں۔ اس طرح ہیلری کے سرکاری ای میل اکاؤنٹ سے ہما کی بیٹی کے شوہر متنازعہ نوعیت کے ای میل نہ کرتے۔ اس طرح بالواسطہ طور پر صالحہ عابدین بھی ہیلری کی شکست کی وجہ بنی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے صالحہ محمود عابدین اور کی صاحبزادی ہما عابدین کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 8 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے چند روز قبل جب ہرطرف سے ہیلری کی کامیابی کے ممکنہ آثار دکھائی دے رہے تھے ایف بی آئی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ ایف بی آئی کے اہلکاروں نے ہیلری کلنٹن کے لیپ ٹاپ سے کی گئی ہزاروں ای میلز کی دوبارہ چھان بین شروع کردی۔ یہ تمام ای میل اس وقت کی گئی تھیں جب ہیلری وزیرخارجہ تھیں۔ انہی ای میلز میں ایک مراسلہ یہودی رکن کانگریس انٹونی وینر کا بھی ہے جو اس نے ہیلری کلنٹن کے زیراستعمال سرکاری ای میل اکاؤنٹ سے ہما عابدین کے نام ارسال کیا تھا۔ ہما عابدین کو ایک دوسرے نام مہا عابدین سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔ وینر نے ہیلری کلنٹن کے ای میل آئی ڈی سے ہما عابدین کو جو مواد ارسال کیا اس میں جنسی نوعیت کا فحش مواد بھی شامل تھا، یہاں سے ہما عابدین، انٹونی وینر اور صالحہ عابدین کے تعلقات کا انکشاف ہوا۔ہما عابدین ایک مسلمان خاندان کی لڑکی ہونے کے باوجود لبرل خیالات کی حامل تھی اور اس نے انٹونی وینر کے ساتھ شادی بھی کی مگر دونوں میں گذشتہ برس اگست میں علاحدگی ہوگئی تھی۔
ھما عابدین کا اسلامی پس منظر
ھما عابدین صرف بھارتی نژاد امریکی دوشیزہ ہی نہیں بلکہ اس کا خاندان اسلامی تحریکوں سے غیرمعمولی حد تک متاثر رہا ہے۔ ہما کے والد سید زینل عابدین نے برطانیہ میں مسلمان اقلیت کے حقوق کے لیے ایک مرکز قائم کیا اور برطانیہ ہی سے ایک پرچہ بھی شائع کرنا شروع کیا جس میں مسلمان اقلیت کے حقوق اور انہیں درپیش مسائل کو اجاگر کیا جاتا۔ ھما بھی اس جریدے میں لکھتی رہی ہیں۔ ان کے والد سنہ پچاس کی دہائی میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ ابو الحسن علی ندوی اور سید قطب کی تعلیمات سے بھی متاثر تھے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ہما کے والدہ صالحہ محمود عابدین کا ہیلری کے ساتھ تعلق کیسے قائم ہوا؟
صالحہ محمود عبادین ایک تعلیم یافتہ اسکالرخاتون ہیں۔ انہوں نے سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے۔ قاہرہ میں قائم عالمی اسلامی کونسل برائے دعوت وریلیف کی رکن بھی ہیں۔ مگر اس وقت وہ برطانیہ سے شائع ہونے ولے مسلم اقلیت کے ترجمان جریدے کی چیف ایڈیٹر ہیں۔
صالحہ عابدین کو اخوان المسلمون کے مقرب سمجھے جانے والے دارالحکمت کالج کی وائس چپئر پرسن بھی مقرر کیا گیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے دارالحکمت کالج کی سرگرمیوں کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ یہ ادارہ عرب بہاریہ کے دور میں ایک اہم مرکز رہااور بڑی تعداد میں مغربی مفکرین اس ادارے کے دورے پرآتے رہے۔
صالحہ، ہیلری تعلقات کا آغاز
فروری سنہ 2010ء کو دیگر مشاہیر کی طرح ہیلری کلنٹن کو بھی صالحہ عابدین کے قائم کردہ دارالحکمت کے دورے کا شوق چرایا۔ انہوں نے دارالحکمت میں “ایران ۔ امریکا” تعلقات کے موضوع پر طالبات سے خطاب بھی کیا۔ بعد ازاں میڈیا پر ایک تصویر شائع ہوئی۔ یہ تصویر دارالحکمت ہی کے اس پروگرام کے دوران لی گئی تھی جس میں ہیلری نے خطاب کیا تھا۔ اس تصویر میں صالحہ محمود عابدی، ان کی صاحبزادی ہما عابدین اور سھیر قریشی کو ایک ساتھ کھڑے دیکھا جاسکتا ہے۔
اوباما اور ہیلری کے دور حکومت کے دوران صالح عابدین کو وائیٹ ہاؤس تک رسائی مل گئی اور اس طرح صالحہ عابدین کی بیٹی ہما عابدین کو وائیٹ ہاؤس میں پہنچنے اور ہیلری کی مشیرہ بننے کا موقع مل گیا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صالحہ عابدین نے اپنے ادارے کی چار سعودی طالبات کو بھی اوباما کے ورک پروجیکٹ میں شامل کرانے میں کامیاب رہیں۔سنہ 2011ء میں دارالحکمت کالج کی دعوت پر معروف مبلغ سلمان العودہ بھی ادارے میں آئے اور وہاں ایک تقریب سے خطاب کیا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ٹیم نے بھی جامعہ دارالحکمت کے مرکز کا دورہ کیا۔ اس دورے کیدوران جامعہ میں زیر تعلیم طالبات کے طرز لباس اور ان کے تعلیمی و نصابی مواد پر کا مطالعہ کیا گیا۔ لباس کے باب میں تو یہ ادارہ اپنی خاص انفرادیت نہیں رکھتا۔ یہاں پر طالبات کو پتلون پہننے اور تنگ اور چست لباس میں بھی گھومتے پھرتے دیکھا گیا۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارہ لباس کے معاملے میں زیادہ سختی کا روادار نہیں۔ دارالحکمت کالج کی لائبریری میں زیادہ تر مواد اخوان المسلمون اور ان کی فکر سے متاثرہ مصنفین کا دیکھنے کو ملا۔
کہا جا رہا ہے کہ اب بھی صالحہ عابدین کے نہ صرف ہیلری کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ اوباما بھی ان سے بہت متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ بعض لوگ یہ الزام بھی عاید کرتے ہیں کہ باراک اوباما اسلامی تحریکوں سے زیادہ متاثر تھے اور ان کا میلان عرب بہاریہ کے دوران اخوان جیسی تنظیموں کی طرف رہا ہے۔(بشکریہ العربیہ )