پروفیسر اخترالواسع
ایک سال میں یہ دوسرا دسمبر ہے جب ملک ایک بار پھر احتجاجی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پہلے شہری قوانین کو لے کر لوگ سڑکوں پر تھے اور اب زرعی قوانین کو لے کر بے چینی کا شکار ہیں۔ پہلے طالب علموں پر جامعہ اور علی گڑھ میں لاٹھی چارج ہوا تھا، وہ پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے تھے، اب وہی سب کچھ کسانوں کے ساتھ ہوا۔ پہلے شاہین باغ وجود میں آیا اور اب سِنگھو بارڈر، پہلے صرف عورتوں نے مورچہ سنبھالا تھا اب کہ عورت اور مرد سب سنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈر اور غازی پور بارڈر پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
پہلے سرکار بضد تھی اور آج بھی اسی طرح اپنی ضد پر قائم ہے۔ سرکار پہلے اپنی مرضی سے بغیر عام آدمی سے تو کیا ریاستی حکومتوں سے بھی مشورے کے بغیر قوانین کا بل لاتی ہے اور اس دعوے کے ساتھ ان قوانین کو پیش کرتی ہے کہ یہ سرکار کی طرف سے کارِمسیحائی ہے۔ یہ لوگوں کے حق میں سب سے بہتر ہے جب کہ عوام ان قوانین کو اپنے لیے مضرت رساں مانتی ہے تو اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ قوانین جیسے بھی ہیں ایک منٹ کو سرکار کی بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار نے ان کی تشکیل اور نفاذ سے پہلے لوگوں سے مشورہ کیوں نہیں کیا؟ سرکار یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ وہ ایک جمہوری عمل کی پیداوار ہے اور جمہوری عمل میں اپنے منتخب کرنے والوں سے مشورہ نہ کرنا کس منطق کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
سی اے اے ہو یا این آر سی، اس کے لیے جو قوانین وضع کیے گیے ان میں اگر فرقہ واریت کی بُو آتی تھی، ان کا مقصد اگر ایک مخصوص فرقہ کو خوف کی نفسیات اور جارحانہ مدافعت پر مجبور کرنا تھا توزرعی قوانین کی مخالفت جو کسان کر رہے ہیں وہ پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش تک لام بند ہو چکے ہیں اور اس میں کسی ایک مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اس میں ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، مسلمان بھی ہیں۔ یہی وہ کسان خاندان ہیں جن میں سے اکثر کی اولادیں ملک کی سرحد پر اس کے دفاع کے لیے ہماری فوج کا قابل قدر حصہ ہیں۔
سرکار کی ضد اپنے کس منتہائے عروج کو پہنچی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شرومنی اکالی دَل، جس نے شرل اٹل بہاری واجپئی کے زمانے سے آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی کا ساتھ دیا اس کی بات بھی مان کر نہیں دی اور اسے بالآخر این ڈی اے کو چھوڑنا پڑا۔ اقتدار کا نشہ کس طرح سر چڑھ کے بولتا ہے اس کا اندازہ ان بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جو گزشتہ برس انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا وغیرہ دے رہے تھے اور آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور اب ہندو، سکھ اکثریت والے کسان بھائی بہنوں کو خالصتانی، چینی اور پاکستانی اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جب تک کوئی آپ کے ساتھ رہے، آپ کا ہم نوا رہے، آپ کی تائید کرتا رہے تب تو وہ دودھ کا دھلا ہو جاتا ہے اور جہاں کسی نے آپ سے اختلاف کیا، آپ کے کسی قدم کی مخالفت کی تو وہ فوراً دیش کا غدار، راشٹر ورودھی اور نکسلی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، ادھو ٹھاکرے اور بادل خاندان سب کے سب کس طرح دیش دروہی، خالصتانی، نکسلی اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حصہ ہو گیے۔ وہ تمام خطابات اور الزامات جو مسلمانوں کے لیے محفوظ تھے کس طرح اب خود سکھوں اور ہندوو¿ں کے لیے لگنے شروع ہو گیے۔
۱۵ دسمبر ۰۲۰۲ء کو ہم نے اس ملک میں شاہین باغ کی پہلی سالگرہ منائی۔ شاہین باغ میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ بہت خوش آئند اور خوش گوار نہیں تھا لیکن جس طرح سے پہلے جے این یو پھر جامعہ اور علی گڑھ میں پولیس کی بربریت اور بہیمیت دیکھنے کو ملی اس میں یہ سب کچھ ایک فطری ردعمل کی شکل میں سامنے آیا جب دادیاں، مائیں اور بہنیں نکل کر سڑکوں پر آگئیں۔ وہ ظلم اور جبر کے خلاف سینہ سپر ہو گئیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جن میں سے اکثر کا تعلق مسلم سماج کے متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں سے تھا جن میں سے اکثر نے کبھی بھی کسی عوامی تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا، جواس طرح دیوانہ وار غصہ میں بھری ہوئی سڑکوں پر نہیں آئیں تھیں۔لیکن جن کی پرورش اور ذہنی تربیت ہندوستان کے سیکولر جمہوری سماج میں ہوئی تھی۔ یہ وہ مسلم خواتین تھیں جن پر اس وقت تک یہ الزام لگایا جاتا تھا اور ان کے مسلمان مردوں پر تحقیر کے ساتھ یہ تبصرہ کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی عورتوں کو گھروں میں قیدی بنا کے رکھتے ہیں، جہالت اور ناخواندگی ،پردے کی آڑ میں ان کی پہچان بتائی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ دنیا کا کوئی پتا ہے نہ شعور لیکن آن کی آن میں شاہین باغ میں ان کے احتجاج نے تمام باتوں کو غلط ثابت کر دیا اور شاہین باغ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہا بلکہ جگہ جگہ، شہروں شہروں کتنے شاہین باغ وجود میں آگیے۔آج ایک سال سے زیادہ گزرنے کے بعد میں ان بہادر خواتین کو خاص طور پر دبنگ دادیوں کو سلام کرتا ہوں اور ساتھ میں ایک اور طبقے کو ان عورتوں کی خاموش تائید کے لیے سلام پیش کرتا ہوں وہ ہمارے علمائے دین تھے جنہوں نے خواتین کے جوش و خروش میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
شاہین باغ کے بارے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف مسلم خواتین کا احتجاج نہیں تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں اکثریت بلکہ غالب اکثریت مسلمان عورتوں کی شامل تھی لیکن اس میں ہندو، سکھ، عیسائی، ڈاکٹر، وکیل، ٹیچر، نوکری پیشہ لوگ، تاجر سبھی شامل تھے۔ سول سوسائٹی کا کون سا حصہ تھا جو ان کے ساتھ نہ کھڑا ہوا ہو۔ حوصلہ مند خواتین کو ڈرانے کے لیے کون سی کوشش نہیں گی گئی۔ یہاں تک کہ جمنا پار میں وہ فرقہ وارانہ فساد دیکھنے کو ملا کہ اگر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال وقت رہتے مداخلت نہ کرتے تو شاید پوری دہلی اس کی لپیٹ میں آ جاتی۔ وہ تو سرکار کو کورونا وائرس کی وبا کا شکریہ کا ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اس تحریک کو معرض اِلتوا میں ڈال دیا۔ ایک سال کا عرصہ ہوا جاتا ہے کتنے لوگ جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ہیں ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ ہم نے پہلے بھی سرکار سے اپیل کی تھی اور ایک بار اسے پھر دہراتے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی کی تحریک میں شامل لوگوںکو رہا کر دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ضمانتوں پر تو ان کی رہائی ہو جانی چاہیے اور پھر قانون جو فیصلہ کرے اس کو سب کو مان لینا چاہیے۔ انتہائی شدت پسند اور غیر انسانی قوانین کے تحت ان کو جیلوں میں رکھنا ایک سیکولر جمہوری سماج کے شایانِ شان نہیں ہے۔
ہماری سرکار سے یہ گزارش ہے کہ وہ کسانوں کے آندولن کو بھی اپنی ضد سے اور آگے بڑھنے نہ دے۔ انسانیت اور ہندوستانیت دونوں کا یہ تقاضہ ہے کہ اگر کسان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قوانین جو سرکار نے وضع کیے ہیں اور ان کے حق میں نہیں ہیں تو انہیں ایک دفعہ واپس لینے میں کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ سرکار کو ان قوانین کو واپس لے کر کسانوں کے ساتھ نئے سرے سے بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ سرکار کی ضد مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر سرکار کسانوں کو ایک موقعہ دے کر ان کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے تو اس میں کیا پریشانی ہے۔ آپ سکھبیر بادل، دشینت چوٹالا، انّا ہزارے، راکیش ٹکیت، حنان ملّا اور ان جیسے دوسرے کسان لیڈروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر اس مسئلے کا باعزت اور پُروقار حل تلاش کر سکتے ہیں جو سرکار، کسان اور ملک سب کے لیے اچھا ہوگا۔
اسی طرح کسانوں کی احتجاجی تحریک کی جلتی ہوئی آگ میں سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ کی باتیں کرکے گھی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکار اس سے بھی اپنے آپ کو بچا کے رکھے تو بہتر ہے۔ بنگال اور آسام کے انتخابات میں کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن ملک میں امن و امان رہے ، ترقی ہو، فرقہ وارانہ ہم آہنگی فروغ پائے اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ لوگ جو اپنی کڑوی زبان سے سرکار کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں اور آگ لگانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ:
ہاں بڑی چیز وفا داری ہے
یہ بھی بڑھ جائے تو غداری ہے
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)