کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اب’لفظوں کے گھر‘ میں کوئی نئی روشنی داخل نہیں ہوگی۔ شمس الرحمن فاروقی نے جس ڈکشنری کو تیار کرنے کا کام بڑی عرق ریزی کے ساتھ آگے بڑھایا تھا، اس پر اب فل اسٹاپ لگ گیا۔
تنویر احمد
شمس الرحمن فاروقی کا نام سنتے ہی اردو ادب کی اس شخصیت کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے، جو تن تنہا ’لفظوں کا گھر‘ بنانے کی طرف رواں دواں تھے۔ لیکن اب یہ چہرہ صرف خیالوں، کتابوں یا ویڈیوز میں ہی نظر آئے گا۔ 2020 نے جاتے جاتے اردو کی ایک ایسی عظیم ہستی کو اپنی آغوش میں لے لیا، جس کا بدل ملنا محال ہے۔ جمعہ کی صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے مشہور معروف مصنف اور ناقد شمس الرحمن فاروقی نے دنیائے فانی کو الوداع کہا اور اپنے پیچھے کچھ ایسے کام چھوڑ گئے جو شاید اب نامکمل ہی رہ جائیں گے۔
کورونا کے اس دور میں جب سبھی کی زندگی ٹھہر سی گئی تھی، 85 سالہ شمس الرحمن فاروقی ادب کی خدمت میں پہلے کی ہی طرح جی جان سے جٹے ہوئے تھے۔ اس کا تذکرہ انھوں نے ایک مضمون میں کیا تھا جو اپریل ماہ میں ہندی نیوز پورٹل ’ امر اجالا ڈاٹ کام ‘ پر شائع ہوا تھا۔ عنوان تھا ’ بنا رہا ہوں شبدوں کا گھر ‘۔ مضمون میں انھوں نے واضح لفظوں میں لکھا تھا کہ ’’لوگوں کو لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بہت زیادہ وقت مل گیا ہے۔ لیکن میری معمولات زندگی اور مصروفیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ عمر کا تقاضہ ہے، بہت زیادہ چل پھر نہیں سکتا، اس لیے کہیں آنے جانے کی بات نہیں ہے، گھر میں ہی ہوں۔ ویسے بھی میری بہت گھومنے پھرنے کی عادت نہیں ہے۔ لکھنے پڑھنے میں اب بھی زیادہ وقت گزر رہا ہے۔ ہاں، زیادہ ہو جاتا ہے، تو زیادہ آرام کر لیتا ہوں، بس۔‘‘
اس مضمون میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنے دیرینہ کام ’ اردو سے اردو ڈکشنری ‘ کا تذکرہ کیا تھا جس کا اردو داں طبقہ بے صبری سے منتظر تھا۔ انھوں نے لکھا تھا ’’اردو سے اردو کی ایک ایسی ڈکشنری تیار کر رہا ہوں، جس میں شاعری اور داستانوں میں شامل تمام پرانے الگ طرح کے الفاظ شامل ہیں۔ فی الحال پندرہویں صدی کے بعد سے لے کر اب تک کے تقریباً گیارہ ہزار ایسے لفظ جمع ہوئے ہیں جن کے آسان معنی تلاشے ہیں۔ ہاں، اس کام کی رفتار ذرا دھیمی ہے۔ اگر روزانہ 15-10 لفظ بھی مل گئے تو بڑی بات ہے۔ اس میں شمالی ہند کے زیادہ تر الفاظ ہیں، جنوب میں رائج لفظ کچھ کم ہی ہیں۔‘‘ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اب اس ’لفظوں کے گھر‘ میں کوئی نئی روشنی داخل نہیں ہوگی۔ پدم شری شمس الرحمن فاروقی نے جس ڈکشنری کو تیار کرنے کا کام بڑی عرق ریزی کے ساتھ آگے بڑھایا تھا، اس پر اب فل اسٹاپ لگ گیا۔ اس کام کو اب کوئی دوسرا ہی آگے بڑھا سکتا ہے، لیکن اس میں شمس الرحمن فاروقی والی تپش کہاں ہوگی!
سچ ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں آتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں، اور پھر چلے جاتے ہیں۔ چند ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا جانا عرصہ دراز تک مغموم رکھتا ہے۔ 30 ستمبر 1935 کو اتر پردیش میں پیدا ہوئے شمس الرحمن فاروقی کا شمار ان چند لوگوں میں ہی ہوتا ہے۔ ادب کے اس خادم کی گوناگوں خوبیوں کو چند سطروں میں بیان کرنا ناممکن ہے، لیکن اتنا ضرور بتانا چاہوں گا کہ مشہور و معروف اداکار عرفان خان جیسی شخصیت بھی ان کا معترف نظر آتے تھے۔ عرفان خان نے تو شمس الرحمن فاروقی کے مشہور زمانہ ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ پر فلم بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ عرفان نے اس کے لیے شمس الرحمن فاروقی کو ایک خط بھی لکھا تھا اور ناول کے تعلق سے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ عرفان خان 29 اپریل 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اور پھر آج …۔
پدم شری ایوارڈ، شرسوتی ایوارڈ اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شمس الرحمن فاروقی کا جانا یقیناً دنیائے ادب اور خصوصاً اردو کے لیے خسارۂ عظیم ہے۔ اس وقت اردو ماتم کناں ہے، تعزیت کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘، ’ افسانے کی حمایت میں ‘، ’شعر، غیر شعر اور نثر‘ ، ’گنج شوختہ‘، ’ شعر شور انگیز ‘ اور ’جدیدیت کل اور آج ‘ سمیت متعدد ایسے آفتاب و ماہتاب وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں جو اردو اور اردو داں طبقہ کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔