حضرت شوق ؔبہرائچی: کتابوں کے نظر سے

جنید احمد نور،بہرائچ
دنیائے اردو ادب  میں لفظ بہرائچی کو ایک  منفرد شناخت  دینے والے اورمشہور کرنے والے حضرت شوق ؔ بہرائچی کی اس برس ۱۳؍ جنوری  ۲۰۲۱ء کواس  دنیائے فانی سے  گئے ہوئے ۵۷ برس مکمل ہو جائیں گے لیکن آج بھی بہرائچ کی شناخت دنیائے اردو میں آپ کا ہی نام سے ہے۔اسی مناسبت سے آج کا مضمون ‘حضرتِ شوق ؔبہرائچی کتابوں کے نظر سے’ کے عنوان پر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں،کیونکہ شوق ؔ صاحب کو دیکھنے اور ساتھ میں رہنے  والے اب اس دنیا میں بہت کم ہی بچے ہیں اور ان کے بارے میں بتانے والے بھی دھیرے دھیرے اس فانی دنیا سے جا رہے ہیں   ہماری نسل کے لئے شوق ؔ کو جاننے کا واحد طریقہ آج کی تاریخ میں صرف کتابیں ہی جن میں شوقؔ کا ذکر موجود ہے ۔

       شہنشاہ طنز و مزاح جناب سید ریاست حسین تخلص شوقؔ بہرائچی تھا۔شوق ؔبہرائچی کی پیدائش ۶؍جون ۱۸۸۴ءمیں آبا ئی وطن ایودھیا (ضلع فیض آباد )میں ہوئی تھی۔آپ کے والد کا نام سید سلامت علی تھا۔ شوقؔ صاحب ضلع فیض آباد کے رہنے والے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں بہرائچ ہجرت کر آئے تھے اور بہرائچ کے ہی ہو کر رہ گئے عرفان عباسی صاحب لکھتے ہیں کہ شوقؔ کے ساتھ بہرائچی کا اضافہ اسی لئے ہے۔عرفان عباسی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب’’ آپ تھے ‘‘ میں شوق صاحب کا خاکہ کھنیچا ہے اور لکھتے ہیں :۔                             ”کشادہ سا قد ،لاغر و متحرک جسم ،سانولی رنگت ،چہرے پر چیچک کے نشان اور چھوریاں، چھوٹی دبی سی آنکھیں اور ان پر پتلے فریم کا چشمہ،کھانسی روکنے کی مسلسل کوشش میں پھولتے پچکتے سوکھے گال،معمولی کپڑے کی شیروانی  ملگجا سا پائجامہ ،سر پر کشتی نما ایک طرف جھکی ہوئی  ٹوپی۔یہ تھا حضرت شوقؔ بہرائچی کا ظاہری حلیہ جو میں نے پہلی اور شاید آخری بار دیکھا۔ شوق ؔ صاحب کا کلام سنجیدہ مزاح ،سماجی اور سیاسی شعور ،زندگی کے مسائل کا احساس، زیر لب تبسم ،طنز کی نشتریت،سادگی وپرکار ی،ذہانت ور برجستگی کا بہترین نمونہ ہے۔انھوں نے لاتعداد مزاحیہ اور طنزیہ غزلیں ،نظمیں ،ہجویں ،قطعات لکھے ہیں۔شوقؔ صاحب مقبول و ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے خوش نویس بھی تھے۔لیکن رعشہ کے مرض کی وجہ سے لکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔“ ( آپ تھے   ، عرفان عباسی ۱۹۸۱ء)

اتر پردیش اردو اکادمی کے ذریعہ شائع کتاب ’’ انتخاب کلام شوق ؔبہرائچی‘‘ میں عرفان عباسی لکھتے ہیں :۔        ”شوقؔ کی ابتدائی تعلیم گھریلو طور پر ہوئی بعدمیں مقامی مکاتب میں فارسی و اردو پڑھ رہے تھے کہ دل اچاٹ ہوا اور وہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔کم سنی میں ہی والد ماجد کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔اس لئے اعلیٰ اسکولی تعلیم سے محروم رہے اور شعور کی منزل میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی معاشی تگ ودو میں لگ جانا پڑا۔اعلیٰ تعلیم اور ڈگریوں سے  محرومی نے در در کی خاک چھنوائی۔ آبائی وطن ایودھیا (ضلع فیض آباد )سے ترک سکونت کرکے ۱۹۱۹ءمیں بہرائچ پہنچے یہاں چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کا سہارا لینا پڑا کچھ دنوں تک میونسپل بورڑبہرائچ میں ملازمت کی۔کبھی وکلاء کی محرری کو ذریعہ معاش بنایا،کبھی زمینداروں کے مختار رہے۔لیکن افتاد طبع کی بدولت کہیں ٹک نہ سکے۔فنِ خطاطی میں بھی آپ ماہر تھے۔لیکن مرضِ رعشہ کی وجہ سے اس سے بھی شہرت و دولت نہ حاصل کر سکے۔وطن ثانی بہرائچ  انھیں خوش حالی و فارغ البالی تو نہیں دے سکا لیکن ادبی ماحول اور ادبی صحبتیں فراہم کر کے شوقؔ کو ان سے فیضیاب ہونے اور اپنی صلاحیت ،ذہانت ،شوخی  و فطری ذوق شعری سے مستقبل سنوارنے کی راہ ہموار کر دی۔ شوقؔ کی شاعری کا آغاز روایتی شاعری اور غزل گوئی سے ہوا تھا۔“

بہرائچ کے ممتاز شاعر ساغرؔ مہدی  شوقؔ بہرائچی کے بارے میں لکھتے ہیں:۔                       ”شوق صاحب بڑے زود رنج ذرا سی بات پر مہینوں روٹھے رہتے اور خوش ہوجاتے تو صبح و شام محفلیں جماتے۔حالات ،واقعات،اشخاص،مشاعروں اور مسافتوں پر تبصرہ،ادبی ا مور و نکات پر بحثیں اور گفتگوو لطیفے اور معرکے۔درمیان میں کھانستے جاتے سانس جب زیادہ پھولنے لگتی تو سجدہ میں چلے جاتے اس طرح سانس بحال کرتے ،نمک کی کنکری پھانکتے اور مسکراتے ہوئے پھر گفتگو کا سلسلہ شروع کردتے۔مفلسی ،تنگدستی ،ضعیفی اور ناقدریٔ زمانہ کے باوجود وہ اپنی ذہانت کے ریشمی نیام میں طنز کی تیغ اصیل بنے رہے۔حالات نے کبھی انہیں طرحی غزلیں فروخت کرنے پر مجبور کیا ،کبھی جسم میں نہ ہونے کے باوجود مشاعروں کے دور دراز سفر اور شب بیداریوں پر آمادہ کیا ، کبھی کسی ابن الوقت کی شان میں قصیدہ پیش کرنے پر اکسایا کبھی قرض خواہوں کی خوشنودی میں گھنٹوںشعر سنانا پڑے اس طرح مرمر کے زندگی کرنے والا تمام عمر ہمیں قہقہے اور مسکراہٹیں بانٹا رہا یہی آپ کا فن تھا ہنر تھا آپ کا آرٹ تھا شوق ؔکا مزاج تھا۔ “

       کیفیؔ اعظمی  کا امتحان حضرت شوقؔ بہرائچی نے ہی لیا تھا جب کیفیؔ صاحب نے اپنی زندگی کےپہلا مشاعرے میں شرکت تھی اور اپنی ایک غز ل پڑھے تھی۔تفصیل کے لئے کیفی صاحب کا مجموعہ ’سرمایہ‘ دیکھے۔ کیفیؔ صاحب اپنی تصنف ’سرمایہ‘ میں اس واقعہ  کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ’’ یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں شاعر کی حیثیت سے میں شریک ہو ا۔اس مشاعرہ میں مجھے جتنی داد ملی اس کی یاد سے اب تک کوفت ہو تی ہے۔بزرگوں نے داد دی اور کچھ لوگوں نے شک کیا کی یہ غزل کسی اور کی ہے اور میں نے اسے اپنے نام سے پڑھی ہے۔اس پر میں رونے لگا تب بڑے بھائی شبیر حسین وفاؔ جنہیں ابا سب سے زیادہ چاہتے تھے انھوں نے ابا سے کہا  انھوں نے جو غزل پڑھی ہے وہ انہیں کی ہے شک دور کرنے کئے لئے کیوں نہ ان کا امتحان لے لیا جائے اس وقت ابا کے منشی حضرت شوقؔ بہرائچی تھے جو مزاحیہ شاعر تھے۔انھوں نے اس تجویز کی تائید کی مجھ سے پوچھا گیا امتحان  دینے کے لئے تیار ہو میں خوشی سے تیار ہو گیا۔شوقؔ بہرائچی صاحب نے مصرع دیا  ؏

’’اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے‘‘

بھائی صاحب نے کہا ان کے لئے یہ زمین بنجر ثابت ہوگی کوئی شگفتہ سی تجویز کیجئے لیکن میں نے کہا اگر غزل کہوں گا تو اسی زمین میں ورنہ امتحان نہیں دوں گا طے پایا کہ اسی طرح میں طبع آزمائی کروں اور تھوڑی دیر میں تین چار شعر کہے جو اس طرح تھے جسے بعد میں بیگم اختر نے اپنی آواز سے پنکھ لگا دیئے اور وہ ہندوستان ،پاکستان میں مشہور ہوگئی وہ غزل میری زندگی کی پہلی غزل ہے جسے میں نے ۱۱ سال کی عمر میں کہی تھی۔

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکوں نہ رونے سے کل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے
کیفی ؔصاحب مزید لکھتے ہیں کہ اب اس غزل کو آپ پسند کریں یا نہ کریں خود میں بھی ابا ایسی غزل نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی یہ افادیت ضرور ہے کہ اس نے لوگوں کا شک دور کر دیا اور سب نے یہ مان لیا کہ میں نے جو کچھ اپنے نام سے مشاعرے میں سنایا تھا۔وہ میراہی کہا ہوا تھامانگے کا اجالا نہیں تھا۔بہرائچ میں یہ غزل کہنے اور مشاعرے میں سنانے کے بعد لکھنؤ گیا۔

نعمتؔ بہرائچی ’’تذکرئہ شعرائے ضلع بہرائچ‘‘ میں لکھتے ہیں :۔                                            ”جناب سید ریاست صاحب شوقؔ بہرائچی شروع میں سنجیدہ شاعری کرتے تھے۔مولوی قربان حسین سے اصلاح لیتے تھے۔مولوی قربان حسین صاحب شاگردرشید علامہ رشید لکھنوی تھے لیکن شوقؔ صاحب سنجیدہ شاعری میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے۔رفتہ رفتہ طنز و مزاح کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنا ایک منفرد راستہ نکال کر شہرت و مقبولیت کے بام عروج تک پہونچے۔شوقؔ صاحب کا کلام سنجیدہ ،مزاح ، سماجی اور سیاسی شعور ،زندگی کے مسائل کا احساس، زیرلب تبسم ،طنز کی نشتریت، سادگی اور پرکاری،ذہانت اور  بر جستگی کا بہترین نمونہ ہے۔ “                                                                                          عرفان عباسی’’انتخاب کلام شوقؔ بہرائچی ‘‘لکھتے ہیں کہ مفلسی ،تنگ دستی،دربدری ،اور ناقدری اردوشاعروں کی اکثریت کا مقدر رہی ہے ۔شوقؔ صاحب بھی اسی ورثہ کے امین تھے۔انھیں اپنے فن کو سنوارنے کی فکر کیسے نہ ہوتی ان کے اندر تو مستقبل کا طنز و مزاح نگار انگڑائیاں لے رہاتھا۔فن کو سنوارنے اور زندگی بسر کرنے کے لئے مشاعروں کی طرحی غزلیں کہنے اور فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑا،کبھی نا پسندیدہ شخصیات کی شان میں قصیدے لکھنے پڑے تو کبھی خلاف مزاج ناشناس میں سخن نشتوں میں کلام سنانے پر مجبور ہونا پڑا۔آخر میں ذریعہ معاش شاعری اور مشاعرے تھے۔پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہ صحت کی خرابی،سانس کے اتار چڑھاؤ نقاہت اور کبر سنی کے باوجود ملک کے مختلف دور دراز گوشوں میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں کسی نہ کسی طرح پہنچتے تھے۔بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ،زبان و بیان پرقادر طنز و مزاح نگار۔شوقؔ صاحب کو ریاستی حکومت کی جانب سے ساٹھ روپے ماہوار ادبی وظیفہ ملتا تھا اس کے پہنچنے میں اکثر  تاخیر ہو جاتی تھی ایک بار جب کافی انتظار کے بعد بھی رقم نہیں پہنچی تو انہوں نے ایک قدرداں ریاستی وزیر(سید علی ظہیرصاحب) کو پوسٹ کارڈ پر یہ قطعہ لکھ بھیجا!“

سانس پھولے گی کھانسی سوا آئے گی
لب پہ جان حزیں بارہا آئے گی
شغلِ گریاں میں جب شوقؔ مر جائے گا
تب مسیحا کے گھر سے دوا آئے گی
شوقؔ بہرائچی صاحب کی مالی حالت پر ساغرؔمہدی بہرائچی  ’تحریر و تحلیل ‘میں  لکھتے ہیں : ۔              ”شوق ؔبہرائچی صاحب نے اردو کی روایتی شاعری اور فرسودہ غزل گوئی کی یکسانیت سے اکتا کر انھوں نے آنسوؤں کے بازار میں قہقہوں کا بیوپار شروع کیا۔ان کی معاشی بدحالی اور تنگ دستی مرتے دم تک ان کے ساتھ رہی۔اس کا اندازہ ان کے ایک خط سے لگایئے جو خط نہیں ایک المیہ ہے۔ایک سوالیہ نشان ہے۔جس کے بطن سے ہزاروں سوال پھوٹتے ہیں۔ “

       خط بنام حاجی شفیع اللہ صاحب شفیعؔ مرحوم

       مشفقی سلام و نیاز

       آج مجھے بخار آ گیا ہے۔اس لئے حاضری سے مجبور ہوں۔اگر خلاف مزاج نہ ہو تو ایک روپئے کے پیسے دےدیجئے۔بہت ممنون ہوں گا۔

                                     آپ کا شوق عفی عنہ

                                         ۹؍ ستمبر۱۹۶۰ء

       حاجی شفیع اللہ شفیعؔ مرحوم میرے پر نانا ہیں ،اور شوق ؔ صاحب روز شام کو کچہری سے واپسی پرنانا کی دکان پر تشریف لاتے تھے اور جہاں ادبی  محفل جمتی تھی۔

       چند قصائد و قطعات پر مشتمل ایک مختصر کتابچہ مصطفیٰ حسین اسیفؔ جائسی نے ترتیب دے کر ”لالہ زار عقیدت “ کے نام سے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شوقؔ صاحب نے اپنے دو مجموعے ’’ہیجان‘‘ اور ’’طوفان‘‘ کے نام سے خود ترتیب دئے تھے اور بڑے اعتماد کے ساتھ کہاتھا۔

مرکر بھی جہاں میں لوگوں کو اے شوقؔ ہنساتا جاؤں گا

دنیا سے اگر میں اٹھ بھی گیا موجود مرا دیوان تو ہے

       اتر پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام عرفان عباسی کے ذریعہ مرتب کردہ ’’ انتخاب کلام شوقؔ بہرائچی‘‘ ۲۰۰۹ء میں منظرعام پر آیا۔آپ کا مجموعہ ’’طوفان‘‘ ۲۰۱۱ءمیں منظر عام پر آیا۔

ساغرؔ مہدی ’تحریر و تحلیل ‘میں لکھتے ہیں :۔

       حضرت شوقؔ بہرائچی نے کم و بیش  نصف صدی تک اپنی شاعری پر صرف کی جس میں ابتدائی دور سولہ سترہ برس تک غزل اور روایتی شاعری اور آخری ۳۴ برس طنزیہ اور مزاحیہ شاعری۔ اس طرح ان کی شاعری کی عمر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

پہلا دور    ۱۹۱۴ءسے  ۱۹۳۰ء

دوسرا دور   ۱۹۳۰ءسے  ۱۹۶۴ء                                                                        یوں مرمر کے زندگی کرنے والا اور مسکراہٹیں بانٹنے والا  ۱۳؍ جنوری ۱۹۶۴ءبروز اتوار صبح چار بجے اسی(۸۰)سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔آپ کے جسد خاکی کو چھڑے شاہ تکیہ قبرستان میں دفن کیا گیا۔

       شوقؔ بہرائچی اورمنشی محمد یارخاں رافتؔ  بہرائچی(متوفی مارچ ۱۹۶۱ء) کی یاد میں شہر بہرائچ کی ادبی شخصیات نے ۱۴؍ مارچ ۱۹۶۴ء کو یومِ شوقؔ اور یومِ رافتؔ کے طور پر منایا تھا تھا جس میں شاعروں نے  شوقؔ صاحب اور رافتؔ صاحب  کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ (جذباتِ شفیعؔ ،  ازشفیعؔ بہرائچی مطبوعہ ۲۰۱۹ء ص ۱۲۳-۱۲۵)

متفرق اشعار

ممکن نہ تھی جو شوکت و عظمت جہیز میں
آتی کہاں سے دولت وثروت جہیز میں
سید بنے نہ کوئی زمانے میں کس طرح
سسرال سے ملی ہے سیادت جہیز میں
٭٭٭

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
٭٭٭

ابکے ناکام رہا قائد ملک وملت
ابکے بربادیٔ اقوام کا ٹھکہ نہ ملا
٭٭٭

یہاں ہر اہل فن کی قدر  بعد مرگ ہوتی ہے
یہاں ہر ایک دعویٰ خارج المیعاد ہوتا ہے
یہا ں ہر تولیت میراث اپنی سمجھی جاتی ہے
یہاں جو وقف ہوتا ہے علی الاولاد ہوتا ہے
٭٭٭

اللہ رکھے زاہد صد سالہ کو قائم
اک یہ بھی ہے منجملہ آثار قدیمہ
٭٭٭

غزل

ایمان کی لغزش کا امکان ارے توبہ
بد چلنی میں زاہد کا چالان ارے توبہ
اٹھ کر تری چوکھٹ سے ہم اور چلے جائیں
انگلینڈ ارے توبہ جاپان ارے توبہ
ہے گود کے پالوں سے اب خوف دغابازی
یہ اپنے بھانجوں پر بہتان ارے توبہ
انسانوں کو دن دن بھر اب کھانا نہیں ملتا ہے
مدت سے فروکش ہیں رمضان ارے توبہ
للہ خبر لیجئے اب قلب شکستہ کی
گرتا ہے محبت کا دالان ارے توبہ
دامانِ تقدس پر داغوں کی فراوانی
اک مولوی کے گھر میں شیطان ارے توبہ
اب خیریتیں سر کی معلوم نہیں ہوتیں
گنجوں کو ہے ناخن کا ارمان ارے توبہ
مشرق پہ بھی نظریں ہیں مغرب  پہ  بھی نظریں ہیں
ظالم کے تخیل کی لمبان ارے توبہ
اے شوقؔ نہ کچھ کہئے حالت دل مضطر کی
ہوتا ہے مسیحا  کو خفقان ارے توبہ

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں