عصرِ حاضر کا نیرو – نریندر مودی

شب و روز بینکوں میں خوار ہونے والے چھوٹے لوگ ہیں۔ان میں امیر و کبیر افراد نہیں ہیں۔وہ لوگ ہیں جن کی زمینیں اور جائیدادیں چھوٹی ہیں، صبر کا پیمانہ بھی چھوٹا ہے۔جن کا سرمایہ کم ہے، جو بلیک منی نہیں رکھتے، جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنایا ہے، جب اسی آشیانے پر برق کے سائے دیکھے تو لرز اٹھے اور کچھ جاں سے گئے۔ان کو ہراساں کرکے حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ کالے دھن کو واپس لا رہی ہے،وہ کالا دھن جو سوئس بینکوں میں موجود ہے، وہ کالا دھن جوگولڈ کی شکل میں امراء و رؤساء کی محفوظ تجوریوں میں رکھا ہوا ہے، وہ کالا دھن جو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا ہوا ہے، وہ کالا دھن جس سے اپنے ملازمین کے نام پر زمینیں خریدی گئی ہیں،کالے دھن کو ان شکلوں میں محفوظ رکھنے والے بنیوں کا کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا عمل کیا بگاڑسکتا ہے؟ عام آدمی کا دیوالیہ نکال دینے والی سرکار کے چہیتے اور کروڑوں کا قرض لے کر ملک چھوڑ دینے والے وجے مالیا کا نوٹوں کی تبدیلی کے اس عمل سے کیا بگڑ گیا؟ کیا آئی پی ایل میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کرنے کے بعد ملک سے فرار ہوجانے والا للت مودی اس سے باخبر بھی ہے کہ ہندوستان میں کرنسی تبدیل ہوگئی ہے؟

حفظ الرحمن
آٹھ نومبر کی شام مختلف ٹی وی چینلز سے ایک نادر شاہی اعلان ہوتا ہے کہ پانچ سو روپے اور ہزار روپے کے نوٹ رات بارہ بجے کے منسوخ قرار پائیں گے،اس کے پیچھے کیا حکمتِ عملی اور دانشوری کار فرما تھی، اس سے قطع نظر ہم نے یہ دیکھا کہ ممبئی کے ایک نوجوان کا پورا دن پانچ سو روپے کے نوٹ لے کر اپنی ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے میں گزر گیا،ایک بوڑھی بھکارن جس کی کل متاع انہی منسوخ شد نوٹوں کے تیس ہزار روپے کے شکل میں تھی، وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئی،جہیز میں دیے جانے والے کیش کے لیے نئے نوٹ دستیاب نہ ہونے پر بیٹی کی ڈولی کی جگہ صدمے میں خودکشی کرلینے والی ماں کی ارتھی اٹھی،جس بچّے کی پیدائش پر اس کے ناز اٹھائے گئے تھے، منسوخ نوٹوں کی وجہ سے بروقت طبّی امداد نہ ملنے پر اس بچّے کا جنازہ اٹھ گیا، کیونکہ ہاسپٹل اسٹاف ڈپازٹ میں منسوخ نوٹ قبول نہیں کررہا تھا جو بعد میں بینک سے تبدیل کیے جاسکتے تھے،وہ ہاسپٹل نوئیڈا کے ڈاکٹر مہیش شرما کا تھا جو حکمراں جماعت کے وزیر ہیں،ممبئی میں نوٹ تبدیل کرانے کیلیے قطار میں کھڑے ایک معمر شہری کی موت واقع ہوجاتی ہے،ایک ہارٹ پیشنٹ کو فوری ادویات کی ضرورت تھی تو میڈیکل اسٹور نے ازراہِ انسانیت اسے ادویات ادھار دیں،یہ انسانیت کی پہلی مثال تھی جو اس افراتفری کے عالم میں سامنے آئی۔
جب شب و روز کے اس جھمیلے میں لوگ جاں سے گزر گئے، جب چہیتے اپنوں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے، جن کاندھوں پر سر رکھ کر بہن کو رونا تھا، وہاں ماں کی ارتھی رکھ دی گئی۔
اسی دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حالیہ جاپان دورے کی ایک تصویر میڈیا میں وائرل ہوتی ہے جس میں وہ ساز و سنگ کے ماحول میں ایک رباب کے تاروں کو مضراب سے چھیڑ رہے ہیں اور ایک اطمینان بخش مسکراہٹ ان کے چہرے پر رقص کررہی ہے۔اس تصویر کو دیکھ کر ہندوستانیوں کو رومن شہنشاہ نیرو یاد آیا جو سارے شہرکو آگ لگا کر دور کی ایک پہاڑی پر بانسری بجا رہا تھا- اسی طرح وزیرِ اعظم نریندر مودی سارے انڈیا کو نوٹ کھسوٹ کی اس آگ میں جھونک کر جاپان کے کسی نغار خانے میں ساز و سنگ میں مست تھے۔ان حالات کا ذمّہ دار کون ہے؟
ہم حکومت کو اس سے بری کرتے ہیں۔یہ حالات ہمارے اجتماعی شعور کا شاخسانہ ہیں۔وہ جانیں جو چلی گئیں اس کے لیے ہم میں سکستی انسانیت ذمّہ دار ہے۔حکومت وقت نے تو صرف ایسا ماحول بنایا ہے جس میں ہم اپنی چہروں سے مکر و ریا کے نقاب نوچ پھینکنے پر مجبور ہوجائیں۔کیا وہ جانیں بچائی نہیں جاسکتی تھیں؟؟ بالکل بچائی جاسکتی تھیں لیکن ہم نے بچائی نہیں۔بچّہ مر گیا اور ہم بضد رہے کہ نئے نوٹ لائے جائیں، تب ہی آپریشن شروع کیا جائے گا۔جس نوجوان کی ماں کی لاش گھر پہ رکھی ہوئی تھی، اسے کفن نہ دینے والے بھی ہم ہی تھے۔ہم جو جانتے ہیں کہ کفن کیوں خریدا جاتا ہے۔بچّی کی ڈولی نا اٹھا کر اس کی ماں کو خودکشی پر مجبور کردینے والے بھی ہم ہی تھے۔شمشان میں ایک لاش کا انتم سنکسار محض اس لیے نہ ہوسکا کہ پنڈت کو دینے کے لیے میت کے ورثاء کے پاس نئے نوٹ نہیں تھے۔وہ پنڈت بھی ہم میں سے ہی ہے اور اس کا رویہ بھی ہمارے اجتماعی رویّے میں ہی شمار ہوتا ہے۔وہ اجتماعی رویّہ جو ووٹ دیتا ہے اور حکومت منتخب کرتاہے، اور یہ ہماری منتخب کردہ حکومت کا فیصلہ ہے جسے ہم نے بلاشرکتِ غیرے اقتدار ایک تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شب و روز بینکوں میں خوار ہونے والے چھوٹے لوگ ہیں۔ان میں امیر و کبیر افراد نہیں ہیں۔وہ لوگ ہیں جن کی زمینیں اور جائیدادیں چھوٹی ہیں، صبر کا پیمانہ بھی چھوٹا ہے۔جن کا سرمایہ کم ہے، جو بلیک منی نہیں رکھتے، جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنایا ہے، جب اسی آشیانے پر برق کے سائے دیکھے تو لرز اٹھے اور کچھ جاں سے گئے۔ان کو ہراساں کرکے حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ کالے دھن کو واپس لا رہی ہے،وہ کالا دھن جو سوئس بینکوں میں موجود ہے، وہ کالا دھن جوگولڈ کی شکل میں امراء و رؤساء کی محفوظ تجوریوں میں رکھا ہوا ہے، وہ کالا دھن جو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا ہوا ہے، وہ کالا دھن جس سے اپنے ملازمین کے نام پر زمینیں خریدی گئی ہیں،کالے دھن کو ان شکلوں میں محفوظ رکھنے والے بنیوں کا کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا عمل کیا بگاڑسکتا ہے؟ عام آدمی کا دیوالیہ نکال دینے والی سرکار کے چہیتے اور کروڑوں کا قرض لے کر ملک چھوڑ دینے والے وجے مالیا کا نوٹوں کی تبدیلی کے اس عمل سے کیا بگڑ گیا؟ کیا آئی پی ایل میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کرنے کے بعد ملک سے فرار ہوجانے والا للت مودی اس سے باخبر بھی ہے کہ ہندوستان میں کرنسی تبدیل ہوگئی ہے؟جہاں بلیک منی میں اضافہ جاری رکھنے کے ساتھ محفوظ رکھنے کے اتنے طریقے ہیں، کیا بلیک منی رکھنے والے اس بنیے اور سیٹھیے اس سے لا علم ہیں؟ اگر کوئی اس کے باجود بھی بلیک منی کرنسی کی شکل میں رکھتا ہے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے، اور انہیں بیوقوفوں کیلیے ایک بیوقوف گورننس سے اتنا سخت اور بیوقوفانہ فیصلہ لیا ہے، جس کی زد میں ملک کا مفلوک الحال اور مڈل کلاس طبقہ آگیا ہے، اور حکومت اس فیصلے پر پشیمان ہونے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے اپنی پیٹھ تھپتھا رہی ہے۔
کاش ہمارا وزیرِ اعظم کوئی پڑھا لکھا اور اہل و عیال والا شخص ہوتا جو بیٹی کی ڈولی کی جگہ اس کی ماں کی ارتھی کو کاندھا دینے والے، ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے والے اور بچّے کا علاج نہ کروا پانے والوں کا درد سمجھ سکتا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار نوجوان قلم کار اور ادیب ہیں ،مالیگاؤں مہاراشٹرا سے وطنی تعلق ہے)
hifzurrahman609@gmail.com