مشرف عالم ذوقی
کچھ حقیقتیں ایک جیسی لگتی ہیں .تین قانون کا معاملہ بھی کچھ ایسا کہ مودی اور امیت شاہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں . میرا قانون سب سے حسین . اور کسان کہہ رہے ہیں کہ اس قانون میں ہماری ہلاکت کے صفحے پوشیدہ ہیں . ٨٠ سے زاید ہلاک ہو چکے مگر ٹھٹھرتی سردی میں مرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں .عدلیہ سپریمو بوڈے صاحب آر ایس ایس کے مزاج کے ہیں . پہلے بھی بیان دے چکے ہیں کہ عدلیہ کو حکومت کے ساتھ تعاون دینا چاہیے . اب سپریم کورٹ نے تین قوانین کو ہولڈ پر رکھا .مسترد نہیں کیا . ہولڈ پر رکھا اور ایسی کمیٹی بنا دی جس میں سب مودی کے حمایتی . اب یہ جاہل کسان تو ہیں نہیں جو عدلیہ کے بہکاوے کو نہ سمجھ سکیں کہ ہو نہ ہو یہ تدبیر تو ٹروجن کی جنگ والی ہے . قصّہ بھی سن لیجئے .
جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔جنگوں سے ایک نئی تہذیب برآمد ہوتی ہے۔ اس تہذیب میں جنگ کے نئے صفحے لکھے ہوتے ہیں۔جنگیں ماضی کی وراثت کو نہیں ڈھویا کرتیں۔چنگیز، ہلاکو، نادر شاہ…. جنگ کی تہذیبیں ہربار نیاہلاکو پیدا کرلیتی ہیں۔ نیا چنگیز اور نیا نادر شاہ….. ہزار برسوں کی تاریخ بھی یہی تھی۔ غوری چاہتا تو ایران کے قریب پارسیوں کے آتشکدہ کو برباد کر سکتا تھا مگر وہاں کیا ملتا۔ یہاں سومناتھ کا مندر تھا۔ سونے اور ہیروں سے بھرا ہوا۔ مذہب کے ہزار رنگ۔ ان میں سب سے پختہ رنگ انتہا پسندی کا ہے۔ یہ انتہا پسندی دونوں طرف رائج ہے……بڑی جنگوں کے درمیان چھوٹی جنگیں مسلسل چلتی رہیں۔آزادی کے بہتّر برس بعد بھی جنگیں جاری ہیں۔یہ جنگیں فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوچکی ہیں لیکن فسادات میں کون مارا جاتا ہے؟ پولیس کس نظام کے تحت کام کرتی ہے؟ حکومت کی منشا کیا رہتی ہے۔ ایک مہذب دنیا میں ہزارو ں سوالات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور خاص کر یہ فسادات، جو ہماری بھاگتی دوڑتی زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔‘
’ تمہیں ٹروجن کی جنگ یاد ہے؟‘ میرا ہمزاد مجھ سے پوچھتا ہے.
یونانیوں نے فتح حاصل کی اور ٹرائے (Troy) کو جلاکر راکھ کردیا۔ یہ فتح کا نشہ بھی عجیب ہوتاہے۔ کچھ ہی ٹروجن اس جنگ میں زندہ بچ پائے۔ ان میں ایک مشہور جنگجو بھی شامل تھا، جس نے بعد میں روم شہر کی بنیاد رکھی۔ ٹرائے کی جنگ محبت کے لیے ہوئی تھی۔محبت جو آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ٹرائے کی جنگ ہیلن کے لیے ہوئی تھی۔ ایک جنگ جو۲۱ویں اور ۳۱ویں صدی قبل مسیح کے درمیان لڑی گئی….. اور محبت کی اس جنگ نے ایک شہر کو تباہ اور برباد کردیا۔ قدیم یونانی اساطیر کے مطابق دیوتایلیوس کی شادی سمندر کی دیوی سے طے ہوئی۔ بادشاہ اس دعوت میں ایرس کی دیوی کو دعوت دینا بھول گیا۔ اس دعوت میں بہت سی خوبصورت عورتیں موجود تھیں۔ ایرس کی دیوی نے دیوتا یلیوس سے انتقام لینے کی تیاری کی…… اور دل ہی دل میں کہا کہ تمہاری اس جرأت کو ہلاکت میں تبدیل کردوں گی۔بغیر بلائے وہ دعوت میں شریک ہوئی اور اس نے سونے کا ایک سیب موجود عورتوں کی طرف پھینکا، جس پر تحریر تھا،’اس چہرے کے لیے جس سے زیادہ خوبصورت چہرے کا تصور موجود نہیں۔‘
اس تحریر کو پڑھ کر موجود خواتین کے درمیان خود کو سب سے خوبصورت ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں کئی دیویاں شامل تھیں۔ ایک دیوی کا نام ہیرا تھا۔ یہ آسمان کی دیوی تھی۔ ایک دیوی ایتھینا تھی جو حکمت کی دیوی کہلاتی تھی۔ ایک دیوی افرودتیہ تھی جو محبت کی دیوی کہلاتی تھی۔تینوں دیویاں محبت کے تاج کو اپنے سر پر رکھنا چاہتی تھیں۔
میں محبت ہوں، جس کی ضرورت ہے—
میں حکمت ہوں،جو محبت اور اقتدار دونوں کے لیے ضروری—
میں آسمان کی دیوی ہوں اور حسن کے معراج پر بیٹھی ہوں —
محبت، حکمت اور آسمان کے درمیان تنازعہ بڑھا توٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کی ذمہ داری اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ حکمت نے محبت کی طرف دیکھا اور محبت نے آسمان کی طرف…… اور ہمیشہ قائم رہنے والی محبت کو یقین تھا کہ یہ تاج اس کا ہے۔ٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیاکہ محبت کے راستے میں بھیانک تباہی کو بھی دخل ہوتا ہے۔محبت اکثر جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ جس وقت بادشاہ کے بیٹے نے فیصلہ سنایا اس وقت محبت کی دیوی ہیلن کے لباس میں تھی۔ہیلن کی صورت میں تھی۔ہیلن اسپارٹا کے بادشاہ کی بیوی تھی اور اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ٹرائے کے بادشاہ کا بیٹا جس نے فیصلہ سنایا تھا، اسپارٹا کے بادشاہ سے ملا۔ اس کا مہمان بن کر محل میں ٹھہرا اور ہیلن کو بھگاکر ٹرائے لے آیا۔ اسپارٹا نے یونانی شہزادوں سے مدد مانگی اور ہیلن کو واپس لانے کا تہیہ کرلیا۔ یونانی فوج نے ٹرائے پر حملہ کردیا۔ جنگ برسوں چلتی رہی۔ ٹرائے کے شہزادے نے اپولوسے مدد مانگی لیکن یونانیوں کی مکاری کے آگے ٹرائے کی فوج کمزور پڑگئی۔ یونانیوں نے فتح کے لیے لکڑی کے گھوڑے تیار کیے اور یہ ٹروجن گھوڑے شہر کی فصیل کے چاروں طرف کھڑے کردیے گئے۔ ٹرائے کے لوگوں نے سمجھا کہ یونانیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے اور یونانیوں کی فوج ٹرائے میں داخل ہوچکی ہے— ٹرائے کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ہیلن کو آزاد کرا لیا گیا۔ محل کی شاہی خاندان کی عورتیں قیدی بنا لی گئیں… اور بہت سے ٹروجن مردوں کی ناک کاٹ دی گئی۔۔
سپریم کورٹ کا بیان لکڑی کا گھوڑا ہے . اور ہیلن تین قانون .لیکن تین قانون ہیلن کی طرح خوبصورت نہیں ہیں .
مگر اس بار لکڑی کا گھوڑا کام نہیں آیا .
حکومت کی کوشش تھی کہ کسانوں کو لکڑی کے گھوڑے سے بے قوف بنا دیا جائے . مگر یہ ٹروجن کی جنگ نہیں آج کے کسان ہیں اور ان میں اکثریت پڑھے لکھوں کی ہے . حکومت بھول گئی کہ جنگ اس بار ستر فیصد ان داتاؤں سے ہے .. یہ شاہین باغ کے مسلمان نہیں ہیں .اور شاہین باغ کے مسلمانوں نے بھی احتجاج اس وقت بند کیا جب درمیاں میں لکڑی کا گھوڑا آ گیا .یعنی کورونا وائرس ۔