نوٹ بندی کا فائدہ ندارد ،ملک چوطرفہ نقصانات سے دوچار

خبر درخبر:(480)
شمس تبریز قاسمی
نوٹ بندی فیصلہ کے بعد پورے ملک میں جاری افراتفری کا ماحول ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے،8 نومبر کی شب میں وزیر اعظم کی جانب سے لئے گئے جرات مندانہ فیصلہ کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف آمنے سامنے ہے ، پوری عوام بھی شدید پریشانیوں سے دوچار ہے ،اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت یہ فیصلہ واپس لے ،90 فیصد عوام بھی تقریبا اس فیصلہ کے شدید خلاف ہے اور یہ چاہتی ہے کہ حکومت کے اس فیصلہ سے صرف غریبوں اور متوسطہ طبقہ کے لوگوں کوپریشانی ہوگی،بلیک منی کی واپسی نہیں ہوسکے گی ،10 فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہ رہے ہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ صحیح ہے اور اس سے بلیک منی پر روک لگے گی لیکن یہ باتیں وہ صرف میڈیا کے مائک پر بولتے ہیں پس پردہ یہ لوگ بھی بینک کی قطاروں میں لگنے کے بعد نریندر مودی کو گالی دیتے ہیں ،اپوزیش مسلسل حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ فیصلہ واپس لیاجائے کیوں کہ جن لوگوں کے پاس بلیک منی ہے حکومت اس کے خلاف کاروائی نہیں کررہی ہے اور عام لوگوں کو پریشان کررہی ہے ،اپوزیش کا یہ بھی کہناہے کہ جن کے پاس بلیک منی ہے حکومت اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتی ہے ا سلئے وہ عام لوگوں کو پریشان کرر ہی ہے ،نوٹ بندی کے فیصلہ کی مخالفت تقریباملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں کررہیں ،نتیش کماراور بابارام دیوجیسے چند نام ہیں جومودی کے اقدام کی حمایت کررہے ہیں اس کے علاوہ بی جے پی کی اتحادی شیوسینا اور اکالی دل سمیت تمام پارٹیاں اس کے خلاف ہے ،ترنمول کانگریس کی سربراہ اور بنگال کی وزیر اعلی ممتابنرجی اور دہلی کے وزیراعلی اروند کجریوال سب سے زیاد ہ منظم اور مضبوطی کے ساتھ حکومت کا مقابلہ کررہے ہیں اور ان دونوں کے بلندعزائم نے حکومت کے پسینے چھڑادیئے ہیں،کانگریس اور دیگر پارٹیاں بھی خلاف ہیں لیکن اس کے اندر مضبوطی نہیں دیکھی جارہی ہے تاہم سبھی اس فیصلہ کے خلاف اور اس اسے ایک آمرانہ اقدام اور تغلقی فرمان سے تعبیر کررہی ہے ۔8 نومبر کے بعد اب تک بینک کی لائنوں میں لگنے کی وجہ سے تقریبا 60 اموات ہوچکی ہیں لیکن حکومت کی جانب اب تک ان اموات پر اظہار افسوس نہیں کیا گیا ہے،اپوزیش پارٹیاں اس معاملہ پر حکومت سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ قطاروں میں جو مررہے ہیں ان کے لئے بھی پارلیمنٹ میں تعزیتی قرارپیش کی جائے اور ان کے اہل خانہ کو دس دس کڑور روپے کا معاوضہ دیا جائے ،اپوزیش کا رخ دن بہ دن سخت ہوتاجارہاہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ پانچ دنوں سے پارلیمنٹ کی کاروائی بھی نہیں چل پارہی ہے ،اسپیکر کو روزانہ پارلیمنٹ کی کاروائی ملتوی کرنی پڑتی ہے ،دوسری طرف حکومت اوروزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے فیصلے پر اٹل ہیں اور وہ اپوزیشن کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں،وینکیا نائیڈو نے بھی اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ فیصلہ واپس لینا مودی کے خون میں شامل نہیں ہے، وزیر اعظم بھی عوامی پریشانیوں کا احساس کئے بغیر اور مسلسل ہورہی اموات سے نظریں چراتے ہوئے اپنے اس فیصلے کی تعریف کررہے ہیں،ہندوستان سے لیکر جاپان تک ہر ایک اسٹیج پر وہ نوٹ بندی کے فیصلہ کی تعریف کررہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں کہ ہندوستان سے کرپشن ،جعلی نوٹ،دہشت گردی اور بلیک منی کا اب بالکلیہ خاتمہ ہوجائے گا ،بلیک منی اور کرپشن پر اول دن سے ماہرین یہ تجزیہ پیش کررہے ہیں اس سے کچھ نہیں ہوگا اور جعلی نوٹوں کی سوادگری بھی سوالوں کے دائرے میں آگئی ہے ،کہاگیاتھاکہ 2000 اور 500 کے نئے نوٹوں میں خصوصی فیچرس ہے لیکن کل جموں وکشمیر میں مارے گئے ددوعسکریت پسندوں کے پاس 2000 کے نوٹ برآمد ہوئے ہیں ،اس سے قبل بھی یہ خبریں آئی تھیں کہ بنگلور میں 2000 کے جعلی نوٹ برآمد ہوئے ہیں ۔یہ تمام چیزیں بتارہی ہے کہ پرانے نوٹ بندکرکے نئے نوٹ جاری کرنے کا مودی حکومت کا یہ فیصلہ غلط سمت میں جارہاہے اور اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہاہے۔