الوداع چیف صاحب!

نازیہ مصطفے
گزشتہ ایک سال سے بالعموم اور گزشتہ تین ماہ سے بالخصوص میڈیا پر ایک موضوع بہت ہی گرم جارہا تھا اور وہ موضوع چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت سے متعلق تھا۔ میڈیا پر طرح طرح کی افواہیں اور قیاس آرائیاں مسلسل جاری تھیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن ملے گی یا نہیں؟ اور جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں؟ لیکن یہ تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں اُس وقت دم توڑ گئیں جب دہشت گردی اور کرپشن پر کاری ضربیں لگانے والے جرنیل نے خود باوقار انداز میں رخصت ہونے کا پیغام دے دیا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتوں کا آغاز لاہور کی فوجی چھاونی سے کیا۔ بھرے پنڈال میں جوانوں سے خطاب میں جنرل راحیل شریف نے دنیا کی بہترین فوج کی کمان کرنے پر فخر کا اظہار کیا اور بتایا کہ ”جب مجھے ذمہ داری ملی تو قیام امن مشکل اور بڑا چیلنج تھا، لیکن آج دشمن ملک و قوم کی جانب بری نگاہ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتا،پاک فوج چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے،آپریشن ضرب عضب کے وار نے دہشت گردوں کو توڑ دیا ہے اور وطن عزیز پہلے سے بہت زیادہ محفوظ ہوگیا ہے۔ آرمی چیف نے وطن کے لیے جوانیاں لٹادینے والے پاک فوج کے جوانوں کو بھی یاد رکھا اور واضح الفاظ میں کہا کہ قوم کی مدد اور جوانوں کی قربانیوں سے وطن دشمنوں کو تہس نہس کردیا گیا ہے۔ آرمی چیف نے انتہائی مشکل حالات میں دلیرانہ عزم رکھنے پر قوم کے استقلال کی بھی تعریف کی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے جب افواج پاکستان کے سپہ سالار کا عہدہ سنبھالا تو اُس وقت پاک فوج کی کمان اُن کیلئے کسی بھی طرح سے پھولوں کی سیج ہر گز نہ تھی۔ یہ سال 2013ء کے وحشت ناک ایام ہی تو تھے جب دہشت گرد ملک میں ہر جانب آگ و خون کا کھیل کھیل رہے تھے۔ ہر جانب سے پاک فوج سے سب سے بڑا یہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کیا جائے، لیکن دہشت گردوں سے لڑنا کوئی آسان کام بھی تو نہ تھا، کیونکہ اطلاعات کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سوات اور بعض قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشنز کے باوجود دہشت گردوں کے گڑھ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے سلسلے میں حد سے زیادہ احتیاط کے باعث فوج کے اندرونی و بیرونی حلقوں میں ڈھکی چھپی تنقید کا نشانہ بھی بن رہے تھے۔ ان حالات میں جنرل راحیل شریف نے قیام امن کے لیے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا اور شمالی وزیرستان میں فوجیں اتاردیں۔شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جرات مندانہ پیش قدمی ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ دہشت گردوں نے اپنے محفوظ اور مضبوط ”قلعوں میں کئی برس تک لڑنے کے لیے اسلحے اور بارود کی فیکٹریاں لگارکھی تھیں، جو فوجی آپریشن کے دوران اُڑادی گئیں اورامن کے دشمنوں کا بڑی تعداد میں صفایا کردیا گیا۔
پھر 16دسمبر 2014ء سیاہ دن آیا جب دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس موقع پر بھی کوئی اور ہوتا تو شاید اتنی جرات کا مظاہرہ نہ کرپاتا، جتنی جرات سے جنرل راحیل شریف بروئے کار آئے۔ نیشنل ایکشن پلان مرتب ہوا اور دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے ایک ہمہ جہت مہم شروع کردی گئی۔فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور یوں فیصلے سالوں اور مہینوں کی بجائے ہفتوں اور دنوں میں ہونے لگے۔ برسوں تک جیلوں میں رکھ کر پالنے پوسنے کے بجائے مقدمات کی فوری اور سبک رفتار سماعت کے بعد دہشت گردوں کو پھانسی چڑھانے کا عمل شروع ہوا، جس سے دہشت گردوں میں سنسنی کی لہر دوڑگئی۔کراچی میں کامیاب ٹارگٹڈ آپریشن کا سہرا بھی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے سر ہی جاتا ہے۔اس کامیاب آپریشن کا ہی نتیجہ ہے کہ تین سال میں شہر قائد میں روشنیاں ہی جگمگانے نہیں لگیں بلکہ شہر قائد کے باسیوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بھی لوٹ آئی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں ہی دہشت گردی اور کرپشن کے شیطانی گٹھ جوڑ کی اصطلاح بھی پہلی بار سنی گئی اور پھر اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کیلئے عملی کوششیں بھی واضح طور پر دیکھی گئیں۔ جنرل راحیل شریف کو بلوچستان کے محاذ پر بے مثال کامیابیاں حاصل ہوئیں ، جنرل راحیل کے افسران اور جوانوں نے دشمن ایجنسیوں کے ایجنٹوں اور ان کے پروردہ شدت پسندوں کو شکست دے کر نوگو ایریاز کا تصور ختم کردیا۔ دوسری جانب پنجاب میں چھوٹو گینگ کا خوفناک ڈاکو راج بھی جنرل راحیل کے عہد میں ہی ریزہ ریزہ ہوا۔ پنجاب میں کومبنگ آپریشنز میں ہزاروں دہشت گردوں کا یا تو صفایا کردیا گیایا پھر اُنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کرکے سرحدوں کو محفوظ بنایا گیا، طورخم سرحد پر پہلی بار گیٹ تعمیر کیا گیا اور آنے جانے والوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کردیا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے احتساب کا صرف نعرہ ہی نہیں لگایابلکہ احتساب کے نعرے پر عملدرآمد کا آغاز اپنے گھر سے کرکے ایک قابل عمل اور قابل فخر مثال قائم کردی۔ کرپشن ثابت ہونے پر پاک فوج کے کئی سینئر ترین افسران کو پہلی بار ناصرف ناپسندیدہ قرار دیا گیا بلکہ اُن سے مراعات اور اعزازات واپس لے کر کرپٹ افسران کو گھر بھیج دیا گیا۔
اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل شریف کو جمہوریت کے محسن کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔ اب بھلا اگست 2014ء کے دھرنوں کو کون نہیں جانتا ،جب زندگی کا سنہری ترین موقع ملنے کے باوجود جنرل راحیل شریف نے جمہوری عمل میں مداخلت کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے برعکس سیاست دانوں کی ”لڑائی میں پڑ کر اپنا دامن آلودہ کرنے کی بجائے جنرل راحیل شریف نے ملک میں جمہوری عمل کی مکمل حمایت کی۔ اگرچہ جنرل راحیل شریف نے اس موقع پر ملک کے اندر اور باہر جمہوریت دشمنوں کے ارمانوں پر اوس تو ڈالی لیکن اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں درج کرالیا، الغرض جنرل راحیل شریف نے اپنے تین سالہ دور میں پاک فوج اور ملک و قوم کیلئے ایسی تاریخی خدمات سرانجام دیں ، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جائے گا۔
قارئین کرام!! اگرچہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جنرل راحیل شریف کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں، لیکن اب بھی بہت کچھ کرناباقی ہے،نئے سپہ سالار کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگاکیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اِس جنگ میں مزید کامیابیوں کیلئے نئے آرمی چیف کو بھی جنرل راحیل شریف کا انداز اپناکر متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں جو اعلیٰ معیارات قائم کیے ہیں، اب آنے والے سپہ سالار کو بھی ان معیارات کو قائم رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوگیا تو یقیناًنیا آرمی چیف بھی جنرل راحیل شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوم کو دہشت گردی کے عذاب سے مکمل نجات دلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔(ملت ٹائمز۔بشکریہ روزنامہ دنیا)
(مصنفہ پاکستان میں ٹی وی اینکر اور کالم نگار ہیں )

SHARE