مغربی بنگال میں بہار کی کہانی دہرانے کی تیاری، بی جے پی کی فتح کا بلیو پرنٹ تیار!

اس وقت ملک میں بی جے پی دو سطح پر کام کر رہی ہے، پہلا یہ کہ مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو صف بند کرنا دوسرا مسلم ووٹ کی تقسیم کروا کر اسے بےاثر کر دینا ۔

م ۔ افضل 

کیا مغربی بنگال میں بہار کی کہانی دہرائی جائے گی؟ یہ سوال موجودہ تناظرمیں بہت اہم ہوگیا ہے، ایک طرف جہاں بی جے پی نے مغربی بنگال میں کامیابی کا بلیو پرنٹ تیار کر لیا ہے وہیں جن لوگوں نے بہار میں مسلم ووٹ کی تقسیم کے لیے ایڑی چوٹی کا پورا زور لگا دیا تھا اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے تھے وہ یہاں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ مغربی بنگال میں 294 اسمبلی نشستیں یہاں 8 مرحلوں میں الیکشن ہوں گے جبکہ 234 اسمبلی نشستوں والی ریاست تمل ناڈو میں ایک ہی مرحلہ میں الیکشن کرایا جائے گا، سوال یہ ہے کہ اگر تین یا چار مرحلوں میں کسی ریاست میں الیکشن کرائے جا سکتے ہیں تو پھر اسے 8 مرحلوں تک لے جانے کی کیا ضروت تھی؟
الیکشن کمیشن یہ دلیل دے رہا ہے کہ ریاست میں امن وقانون کو بحال رکھنے کی غرض سے ایسا کیا گیا ہے، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ریاست میں الیکشن کے دوران تشدد ہوتے رہے ہیں، اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہاں 8 مرحلوں میں الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن اس کی یہ دلیل گلے سے نیچے نہیں اترتی، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے، دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس پر سوال اٹھائے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر قائم ہے۔
14 اپریل سے رمضان بھی شروع ہو رہا ہے اور اعلان شدہ شیڈول کے مطابق آخری دو مرحلوں کی ووٹنگ رمضان میں ہوگی، ان مرحلوں کی حد بندی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے، ان دو مرحلوں میں جن اسمبلی حلقوں میں ووٹنگ ہوگی وہ مسلم اکثریتی حلقے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ مسلم ووٹ کو بے اثر کرنے کی حکمتی عملی کے تحت ہی آخری دو مرحلوں کا تعین کیا گیا ہے اور ان میں زیادہ سے زیادہ مسلم اکثریتی حلقوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، غالباً یہ سوچ بھی رہی ہے کہ چونکہ مسلمان روزہ سے ہوں گے اس لئے وہ ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے کم باہر نکلیں گے، اگر ایسا ہوگیا تو اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے، مغربی بنگال ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 27.01 فیصد ہے، ان میں 24.6 فیصد بنگالی مسلمان ہیں، پچھلے الیکشن میں مسلمانوں کی اکثریت نے ترنمول کانگریس کی حمایت کی تھی، اور ممتا بنرجی اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی تھیں، مگر حالیہ چند برسوں کے دوران حالات یکسربدل چکے ہیں، بی جے پی نے مسلسل مغربی بنگال کو اپنے نشانہ پر لے رکھا، یہاں تک کہ ترنمول کانگریس کے لیڈروں کی ایک بڑی تعداد بی جے پی میں شامل ہوچکی ہے، ان میں وزرا اورممبران اسمبلی بھی شامل ہیں، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ حالیہ دنوں میں ممتا بنرجی کی طاقت کچھ کمزور ہوئی ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے طور طریقوں سے ناراض ہوکر لوگوں نے پارٹی چھوڑی ہو یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے ان لیڈروں کو کوئی بڑی لالچ دی گئی ہو، سچائی خواہ کچھ بھی ہو، لیکن جس طرح ترنمول کانگریس کے وزراء اور ممبران اسمبلی نے بی جے پی کی رکنیت حاصل کی ہیں، وہ ممتا بنرجی کے لئے اس الیکشن میں نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ریاست کے مسلمانوں کا سیاسی رجحان کیا ہے اور کیا وہ متحد ہو کر ووٹنگ کرسکیں گے؟ ملک بھر میں مسلمانوں کا یہ عام رویہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس پارٹی کو فوقیت دی ہے جو فرقہ پرست پارٹیوں کو شکست دے سکے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر الیکشن میں سیکولرازم کو زندہ اور باقی رکھنے کا مشکل فریضہ تنہا مسلمانوں کے ہی کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے، کانگریس سے الگ ہوکر اپنی نئی پارٹی کے سہارے ممتا بنرجی اگر اقتدارمیں آگئیں تو اس میں مسلمانوں کا ہی کلیدی رول تھا، انہوں نے ہر الیکشن میں متحد ہوکر ممتا بنرجی کی حمایت کی حالانکہ اس کا کوئی بہتر صلہ نہیں ملا، مسلمانوں کے لئے ممتا بنرجی بھی دوسری علاقائی پارٹیوں کے لیڈروں جیساہی ثابت ہوئیں، لیکن اب جو صورت حال ہے اس میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ کیا ہوگا، مسلم ووٹ بکھر بھی سکتا ہے۔
اس صورت میں ممتا بنرجی کے لئے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا مشکل ہوسکتا ہے، کیونکہ پہلے کے مقابلہ اس بار مغربی بنگال کی فضاء منافرت سے کہیں زیادہ آلودہ ہوچکی ہے، بی جے پی اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہوکر میدان میں آچکی ہے، وہیں کچھ ایسی پارٹیاں بھی میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں جن کی سیاست کا محور صرف مسلمان ہے اگرچہ ان پارٹیوں کے قائدین سب کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، مجلس اتحاد المسلمین اپنے لئے وہاں پہلے سے ہی زمین تلاش کر رہی تھی کہ ایک درگاہ کے صاحب سجادہ نے بھی ایک نئی پارٹی بنالی ہے، آنے والے کچھ دنوں میں تصویر بالکل صاف ہوجائے گی، لیکن یہ طے ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں اپنے لئے انہی حلقوں کا انتخاب کریں گی، جو مسلم اکثریتی ہوں گے، بہار اور کچھ دوسری ریاستوں کے نتائج گواہ ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں مسلمانوں کو ہی خسارہ اٹھانا پڑا ہے، حیرت کی بات تویہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس قبیل کی پارٹیوں سے کچھ زیادہ ہی متاثر نظر آتا ہے، اس کی بنیادی وجہ کیا اس پر بھی اب غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے بہار کے الیکشن میں، جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہے، سیکولر پارٹیاں ایک جیتی ہوئی بازی ہار گئیں، حقیقی اسباب کیا تھے، کہا نہیں جاسکتا، لیکن یہ حقیقت سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ مسلم ووٹ متحد نہیں رہ سکا، یہاں تک کہ متعدد مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی بی جے پی کامیاب رہی، جبکہ وہاں مہاگٹھ بندھن کی شکل میں ایک متبادل موجود تھا، مگر اس کے باوجود مسلم ووٹ تقسیم ہوا، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی نے اٹھایا، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی تنہا ہیں، کانگریس اور کیمونسٹ پارٹیاں اتحاد کے حق میں ہیں، مگر ممتا بنرجی کا اڑیل رویہ اس میں ایک بڑی روکاوٹ ہے، مغربی بنگال میں کانگریس اور کیمونسٹ پارٹیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، سچائی یہ ہے کہ ممتا بنرجی کانگریس سے کچھ زیادہ ہی خائف ہیں، وہ شاید یہ محسوس کرتی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اتحاد کے نتیجہ میں کانگریس دوبارہ اپنی سیاسی زمین واپس لے لے، موجودہ پس منظرمیں بہار کی طرح یہاں بھی ایک اتحاد کی اشد ضرورت ہے لیکن ممتا بنرجی جس طرح سرد مہری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اس کے پیش نظر اس کا امکان بہت کم ہے۔
اس بار مغربی بنگال میں نفرت اور شدت پسندی کا جنون اپنے شباب پر ہے، بی جے پی اقتدار کا سہارا لیکر ہر وہ کام کر رہی ہے جو وہ کرسکتی ہے، انتخابی مہم جب شروع ہوگی تب نئے سرے سے اشتعال انگیزیاں شروع ہوں گی، ایک بار پھر بنگالہ دیشی مسلمان کے نام پر ریاست کے مسلمان بی جے پی کے نشانہ پر ہوں گے، اس وقت بی جے پی دو سطح پر کام کر رہی ہے، پہلا یہ کہ مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو صف بند کرنا دوسرا مسلم ووٹ کی تقسیم کروا کر اسے بے اثر کر دینا، اس وقت وہاں جو کچھ چل رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ممتا بنرجی نے سیاسی بصیرت سے کام نہیں لیا تو بی جے پی اپنے ان اہداف کے بالکل قریب پہنچ سکتی ہے، ممتا بنرجی کا اڑیل رویہ اس معاملہ میں بی جے پی کی معاونت کر رہا ہے، ریاست کے مسلمانوں کی عام سوچ کیا ہے ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن بہار میں جو ہوچکا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ہر سطح پر کوششیں ہوں گی، اور اگر انہوں نے جوش کی جگہ ہوش سے کام نہ لیا تو بہار میں جو کچھ ہوچکا ہے ویسا ہی کچھ مغربی بنگال میں بھی ہوجائے تو اس میں حیرت کی بات نہ ہوگی، ویسے تو پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں لیکن مغربی بنگال ہی مرکز میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کسی بھی قیمت پر مغربی بنگال کو فتح کرلینا چاہتی ہے، اگر خدانخوستہ وہ کامیاب ہوگئی توآسام میں این آرسی کی آڑمیں جو کچھ ہو رہا ہے وہی کچھ مغربی بنگال میں بھی دہرایا جاسکتا ہے، اور تب ان کے نشانہ پر بنگلا بولنے والے مسلمان ہوں گے جنہیں بنگلہ دیشی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی سازشیں بھی ہوسکتی ہیں۔