آج پاکستان کا”دل دل”رو رہا ہے

جویریہ حنا

jowairiya-henaمیں اُس وقت کلاس ٹو یا تھری میں تھی جب پہلی مرتبہ اسکول میں 14 اگست کو یوم آزادی کے سلسلے میں منعقدہ ایک فنکشن میں ایک ٹیبلو کے لیے میرا انتخاب ہوا۔ مجھے دیگر بچوں کے ہمراہ ملی نغمے ‘دل دل پاکستان’ پر پرفارم کرنا تھا۔ اس پرفارمنس کے بعد یہ نغمہ حقیقتاً میرے دل میں گھر کر گیا۔میں انہیں ٹی وی پر دیکھتی اور سنتی تھی یا پھر اپنی بڑی بہن سے کافی منت سماجت کے بعد ٹیپ ریکارڈر پر ملی نغموں کی کیسٹ چلوایا کرتی تھی، جس میں سرفہرست ‘دل دل پاکستان’ تھا اور جسے ایک دو بار ریوائنڈ کر کے سننا بھی لازمی ہوتا تھا۔
جنید جمشید کو پہلی مرتبہ میں نے کسی ‘لائیو’ کنسرٹ میں تو نہیں دیکھا تھا مگر انہیں ایک بار لائیو دیکھنے کا حسین اتفاق ضرور ہوا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ گھر والوں کے ساتھ پکنک کے لیے ہاکس بے جاتے ہوئے ماموں نے ایک جگہ کیمرے میں ریل ڈلوانے کے لیے گاڑی روکی۔میں اور میرا چھوٹا بھائی بھی گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ ہماری گاڑی سے آگے بھی ایک گاڑی تھی اور اس وقت ہم سب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا جب دکان سے جنید جمشید اور روحیل حیات نکلے اور وہاں موجود لوگوں کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔
میں ان کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانا چاہتی تھی لیکن جب تک ماموں کیمرے میں ریل ڈلوا کر باہر آئے، جنید جمشید اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا چکے تھے۔ لیکن میرے لیے یہ بھی بہت تھا کہ میں نے انہیں اپنے سامنے ‘لائیو’ دیکھا۔اُسی دن امی نے بتایا کہ انہوں نے میرے چھوٹے بھائی کا نام جنید جمشید سے ہی متاثر ہو کر جنید رکھا تھا اور اس دن مجھے اپنے بھائی سے تھوڑی جلن بھی محسوس ہوئی کہ اس کا نام میری پسندیدہ شخصیت کے نام پر رکھا گیا۔ اگر میں لڑکا ہوتی تو شاید یہ نام میرا ہوتا، لیکن خیر۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں آتی گئیں اور جنید جمشید کے اور بھی کئی گانے میرے پسندیدہ گانوں کی فہرست میں شامل ہوتے گئے، جنہیں میں اکثر گنگنایا کرتی تھی۔اور پھر اپنے کریئر کے عروج پر جنید جمشید نے گلوگاری چھوڑ دی۔ بہت سے لوگوں نے ان کے اس فیصلے کو سراہا اور بہت سوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اس وقت بھی میرا یہ ماننا تھا کہ یہ کریئر ان کا تھا، یہ زندگی بھی ان کی ہی تھی، لہٰذا فیصلہ بھی ان کا ہی ہونا چاہیے تھا۔ نہ جانے ہم دوسروں کو ان کی مرضی کے مطابق کیوں نہیں جینے دیتے؟
میں ان کی آواز کی مداح تھی اور جب جنید جمشید نے نعت خوانی کا آغاز کیا تو ان کی نعت ‘محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے’ نے بھی مجھے بھی اسی طرح متاثر کیا جس طرح ‘دل دل پاکستان’ میرے دل میں گھر کر گیا تھا۔میں نے دوستوں کی محفلوں میں کئی بار یہ نعت پڑھی، بالکل اسی طرح جس طرح ‘اعتبار بھی آجائے گا’ اور ‘سانولی سلونی سی محبوبہ’ کا دور چلتا تھا۔وقت گزرتا گیا اور جنید جمشید راہِ حق کی تلاش میں آگے بڑھتے رہے۔ وہ نوجوانوں کے لیے ایک آئیکون تھے، لوگ ان کو نقل کرتے تھے لیکن اپنی شہرت کے عروج پر سب کچھ چھوڑ دینے والے جنید جمشید نے جب دین کی راہ اپنائی تو اُس وقت بھی بہت سے لوگوں نے انہیں فالو کیا، اور وہ بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ بنے۔
دین کی طرف راغب ہونے کے بعد جنید جمشید پہلی مرتبہ اُس وقت تنازع کی زد میں آئے جب 2014 میں ایک ٹی وی پروگرام میں متنازع جملے بولنے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
انسان خطا کا پتلا ہے اور جنید جمشید بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ انہوں نے اس تمام تنازعے کے بعد اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ ویڈیو پیغام کے ذریعے معافی بھی مانگی، لیکن لوگوں نے انہیں اس وقت بھی معاف نہیں کیا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر طنز و تشنیع کا طوفان برپا کردیا گیا۔اسی برس ایک اور واقعہ بھی رونما ہوا جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر چند افراد نے جنید جمشید سے بدسلوکی کی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، لیکن انہوں نے خود پر حملہ کرنے والوں کو معاف کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔
یہاں میرا صرف ایک سوال ہے۔ کیا ہم کوئی بھی غلطی کرنے کے بعد یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں معاف کر دیا جائے؟ ہم دن بھر میں نہ جانے کتنی خطائیں کرتے ہیں اور پھر اپنے رب سے معافی کے آرزو مند ہوتے ہیں، تو پھر ہم نے جنید جمشید کو آج تک معاف کیوں نہیں کیا؟ حتیٰ کہ ان کی موت کے بعد بھی۔
7 دسمبر کو دفتر میں کام کے دوران جب اس بات کا پتہ چلا کہ حویلیاں میں تباہ ہونے والے پی آئی اے طیارے میں جنید جمشید بھی سوار تھے تو بے اختیار میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے بے اختیار کہا ‘خدا کرے ایسا نہ ہو!’، لیکن یہ سچ تھا۔ خدا اپنے اچھے بندوں کو بہت جلد بلا لیتا ہے، اس نے جنید جمشید کو بھی اپنے پاس بلالیا۔
پی آئی اے طیارے کے حادثے کے بعد میری فیس بک ٹائم لائن پر بس اسی المناک واقعے کا ذکر تھا، اور سب سے بڑھ کر جنید جمشید کا۔کچھ لوگ انہیں خراج تحسین پیش کر رہے تھے، ان کی اچھائیوں کو بیان کر رہے تھے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان کی موت کو بھی ان کی زندگی میں کی گئی کسی کوتاہی سے جوڑ دیا۔ یہ سچ ہے کہ چند لوگوں نے انہیں آج تک معاف نہیں کیا۔
سوشل میڈیا پر ان کی موت کے بعد سے کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کے تبصرے جاری ہیں، کسی نے ان کی تبلیغ پر تنقید کی، تو کسی نے دو شادیوں پر، کسی نے ان کے کپڑوں کے کاروبار پر اور کسی نے پرانے گڑے مردے اکھاڑ کر انہیں توہین کا مرتکب قرار دیا۔ہم بہت ہی خراب لوگ ہیں، ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ نہ کسی کو سکون سے جینے دیں گے اور نہ ہی مرنے۔ ہر ایک کے کردار و اعمال کو اپنے وضع کردہ معیار پر جانچ کر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ مرنے والے کو اس کے فلاں فلاں کاموں کی ‘سزا’ ملی ہے.ہم آخر یہ دعویٰ کر ہی کیسے سکتے ہیں؟ کیا ہم علمِ غیب رکھتے ہیں؟ نہ جانے بحیثیت انسان ہمارا ضمیر کب جاگے گا، ہم کب اپنی خود ساختہ عدالتوں کے زعم سے باہر نکلیں گے۔جنید جمشید میرے لیے اور میرے ہم عمر بیشتر لوگوں کے لیے ایک آئیکون کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے گلوگاری کی، چھوڑی اور پھر دین کی راہ اپنائی، اس کے باوجود بھی وہ ایک آئیکون تھے اور رہیں گے۔
فیس بک پر موجود ایک بہت خوبصورت اسٹیٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا، جو شاید میرے جذبات کی درست الفاظ میں ترجمانی کر سکے: ‘وائٹل سائنز کی پہلی کیسٹ خریدنے اور جنید جمشید کی موت کے درمیان ایک پوری نسل کی داستان ہے، میرے ایج گروپ کا ہر پاکستانی آج تھوڑا سا مر گیا ہے’۔
واقعی آج پورے پاکستان کا ‘دل دل’ رو رہا ہے۔
(بشکریہ ڈان نیوز پاکستان)

SHARE