مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کی خدمت میں بصد احترام !

خبر درخبر۔(490)

شمس تبریز قاسمی
مولانا محمود مدنی صاحب ہندوستان کے ایک عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں،ان کا شمارملک کے نامور اور عظیم قائدین میں ہوتاہے ،ہندوستانی مسلمانوں کی اہم ترین تنظیم جمعیۃ علماء ہندکے ایک گروپ کے سربراہ ہیں ،ان کے کندھوں پر ملت کی قیادت کی ذمہ داری ہے اور ہر ممکن اس منصب کو نبھانے میں مصروف عمل ہیں، ہندوستان کے اس عظیم قائد سے آج میں براہ راست مخاطب ہوکر کچھ کہنے کی جرات کررہاہوں،میری کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بساط کہ ان کے کسی نظریہ سے اختلاف کرسکوں لیکن ایک طالب علم ہونے کے ناطے آج یہ سب کرنے کی جرات کررہاہوں،امید ہے کہ ان تک یہ پیغام پہونچ جائے گا ،مولانا کے بہی خواہان اور میڈیا ترجمان حضرت تک پہونچا نے کی زحمت گوارکریں گے اوراگر میری تحریران کی شان میں گستاخی پر مبنی ہوگی تو ایک عزیز سمجھ کر درگزرکرتے ہوئے میری رہنمائی فرمائیں گے۔mahmood-madni
قابل صداحترام قائد ملت مولانا محمود مدنی صاحب !
13 نومبر کو اجمیر شریف میں آپ نے جمعیۃ علماء ہند کا 33واں اجلاس عام منعقد کیاتھا ، لاکھوں کی تعداد میں فرزندان توحید شریک تھے اور بریلوی ۔دیوبند ی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی یہ ایک بہت بڑی کوشش تھی،جس کیلئے ہم آپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں،غالبا 16 نومبر کے روزنامہ انقلاب کے صفحہ اول پر(دہلی ایڈیشن )اس اجمیر اجلاس کی خبر شائع ہوئی تھی اور اس کی شہ سرخی کچھ یو ں تھی۔
”ایک مجلس میں تین طلاق غیر اسلامی عمل ”
m-madni-1انقلاب کی یہ رپوٹ پڑھنے کے بعد فوری طور پر میں نے اپنے دوستوں کے درمیان یہ تجزیہ کیا کہ یہ ہیڈلائن طلاق کے بارے میں عدالت اور حکومت کے موقف کے مطابق ہے ،اس کو عدالت میں ہمارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کے جم غفیر نے ،لاکھوں کی تعداد نے،دیوبندی اور بریلی دونوں مکاتب فکر کے علماء نے بیک زبان ہوکر یہ کہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق غیر اسلامی عمل ہے ،یعنی مسلمانوں کے مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ،یہ عورتوں پر محض ایک سماجی ظلم ہے ،اس بات کا تذکرہ جب میں نے ایک بڑے صحافی سے کیا تو انہوں نے بتایاکہ واقعی یہ سرخی تکنیکی طور پر غلط تھی اور اس حوالے سے جمعیۃ علماء کی قیادت نے روزنامہ انقلاب کے بیوروچیف جناب ممتاز عالم رضوی سے نارضگی کا بھی اظہار کیا ہے ۔
9 دسمبر2016 کے روزنامہ انقلاب میں بعینہ اسی سرخی کے ساتھ اور اسی نمائندہ کے حوالے سے مولانا محمودمدنی صاحب کا یہ بیان میرے سامنے سے گزراکہ ایک نشست میں تین طلاق غیر اسلامی وبدعت ہے ۔ تو مجھے لگاکہ رپوٹر کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اور وہ بات بھی غلط ہے کہ جمعیۃ نے ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ایسے بھی متعدد مرتبہ ایک اخبارمیں ایک ہی صحافی کے حوالے سے متضاد خبریں آتی رہتی ہیں،اسی اجلاس کی تیاری کے دوران پہلے یہ خبرآئی کہ جمیعۃعلماء ہند اجمیر میں خواجہ غریب نواز یونیورسیٹی بنائے گی اور دوسرے دن اس کی تردید آئی تھی کہ میری جانب یعنی مولانا محمود مدنی صاحب کی جانب غلط بیان منسوب کیا گیا ہے۔
16 نومبر 2016اور 9 دسمبر2016 کو شائع ہونے والی ان دونوں خبروں کاای تراشہ یہاں منسلک ہے،آپ چاہیں تو رروزنامہ انقلاب کی ویب سائٹ کھول کر ای پیپر دیکھ سکتے ہیں،یا اس دن کا کاپی ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
m-madni-2طلاق اسلامی ہے یا غیر اسلامی یا پھر صرف تین طلاق غیر اسلامی ہے اور بقیہ طلاق اسلامی ہے ،طلاق کی تقسیم کا یہ فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے ، فقہ کی کتابوں میں اس طرح کی کسی بھی تقسیم کا کوئی تذکر ہ نہیں ملتا ہے ، نہ ہی فقہا نے تین طلاق کی قباحت کو بیان کرتے ہوئے اسے غیر اسلامی قراردیاہے،طلاق سب سے غلیظ اور قبیح ہے،ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے پر شدید وعید یںآئی ہیں لیکن یہ ایک اسلامی عمل ہے ،خواہ ایک طلاق ہویا تین طلاق ، اسے اسلام کی فہرست سے نکا لانہیں جاسکتاہے ،ائمہ اربعہ کے مطابق احادیث سے واضح طور پر ایک مجلس کی تین طلاق ثابت ہے اور اسی پر عمل آوری کا سلسلہ جاری ہے ،10 دسمبر کو مولانا ارشدمدنی صاحب نے بھی الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے تبصرہ کے پس منظر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق احادیث سے ثابت ہے اور مسلمان بہر صورت اس پر عمل کریں گے ،ہمارے لئے قرآن کے ساتھ حدیث بھی حجت ہے۔
بہر حال عدالت میں یہ معاملہ زیر بحث ہے ، حکومت اور عدلیہ ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قراردے رہی ہے ،الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے بھی گذشتہ دنوں اسی انداز کا تبصرہ کیا ہے ،دوسری طرف مولانا محمد مدنی صاحب بھی ایک بڑی تنظیم کے سربراہ ہونے کے ناطے یہی کہ رہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق غیر اسلامی ہے ،گویا وہ عدلیہ اور حکومت کے موقف کی حمایت کررہے ہیں ،کل ہوکر عدلیہ بھی اس بیان کو دلیل بناتے ہوئے یہ کہہ سکتی ہے کہ ہمارے اور آپ کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے ،آپ بھی کہ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق غیر اسلامی ہے اور ہم بھی وہی کہ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق غلط اور غیر آئینی ہے ،جب یہ اسلام کے مطابق نہیں ہے تو پھر کیوں آپ ہمارے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکا رکررہے ہیں ۔ایک غیر اسلامی چیزاسلام کے پیروکاروں کا شیوہ کیسے بن سکتی ہے ،جس چیز کو آپ نے اسلام کی فہرست سے نکال دیا ہے اس کو کیسے مسلمانوں کے مذہب کے حصہ قراردیاجاسکتاہے۔
ممکن ہے اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ طلاق غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے لیکن اگر کسی نے دے دیا تو واقع ہوجائے گی ،عدلیہ کو یہ دلیل سمجھانا بہت مشکل ہے کیوں کہ غیر اسلامی کا مطلب غیر آئینی ہے ،اسلام ایک نظام حیات کا نام ہے جس میں طلاق اور دیگر عائلی مسائل بھی شامل ہیں لہذا ایک مجلس کی تین طلاق قبیح ہوسکتی ہے ،لیکن غیر اسلامی نہیں کیوں کہ اسلام میں جن چیزوں کو اختیا رکرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ اسلامی ہے ۔قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبارسے قبیح ہویا حسین ،اس کو کرنے پر ثواب ملتاہو یا گناہ۔
تین طلاق کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،حکومت اپنا موقف واضح کرچکی ہے کہ تین طلاق عورتوں پر ظلم وزیادتی ہے اسے ختم کیا جائے ،حکومت کے مطابق دنیا کے 21 اسلامی ملکوں میں بھی اس پر پابندی عائد ہے ،دوسری طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اپنا حلف نامہ دائر کردیا ہے جس میں کہاہے گیا کہ طلاق کا تعلق مسلم پرسنل لا سے ہے ،حکومت اور عدالت کواس میں دخل انداز ی کا کوئی حق نہیں ہے ،بورڈ کے ساتھ جمعیۃ علما ء ہند کے دونوں گروپ مولانا ارشد مدنی صاحب اور مولانامحمود مدنی صاحب نے بھی عدالت میں علاحدہ علاحدہ حلف نامہ دائر کیا ہے اوران حضرا ت کا موقف بھی یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہوجائے گی ایسے میں مولانا محمود مدنی صاحب کا یہ نظریہ اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں چھپنے والا یہ بیان کہ ”ایک مجلس کی تین طلاق غیر اسلامی عمل ہے” بورڈ اور مسلم جماعتوں کیلئے مشکلات پیداکرسکتاہے اور ہمارے موقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے اسے بطور حجت کے بآسانی پیش کیا جاسکتاہے۔اس اعتراف کے ساتھ کہ آپ کی نیت ،آپ کے خلوص اورآپ کے جذبہ پر ہمیں ذرہ برابر بھی کوئی شک نہیں ہے۔
جرات سمع خراشی کیلئے معذرت خواہ
آپ کا عزیز
شمس تبریز قاسمی

stqasmi@gmail.com