خواتین کو فیصلہ سازی میں برابری دی جائے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے صنفی مساوات نے مطالبہ کیا ہےکہ دنیا خواتین کو فیصلہ سازی میں مساوی کردار دے۔ جمعے کے روز اس سلسلے میں ایک مسودے کو منظور کیا گیا۔
اقوام متحدہ کا کمیشن برائے اسٹیٹس آف ویمن نے پچیس برس قبل بیجنگ میں خواتین کی کانفرنس کے موقع پر عوامی شعبے میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع دینے اور گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق روڈ میپ طے کیا تھا۔ تاہم جمعے کے روز ایک مسودے کی تیاری کے موقع پر صنفی شناخت اور خواتین کے حقوق کے معاملے پر مختلف ممالک کے درمیان شدید بحث دیکھی گئی۔
سفارت کاروں نے خواتین کے حقوق سے متعلق اس مسودے میں زبان کے استعمال اور صنف کی بنیاد پر تشدد سمیت جنسی اور تولیدی صحت اور دیگر حقوق پر آخری لمحات تک بحث کی۔ بعض مغربی ممالک کی جانب سے یہ کوشش بے سود گئی جس میں ‘غیرواضح جنس‘ اور ٹرانس جینڈ خواتین کو بہ طور صنف تسلیم کروایا جانا تھا۔ تاہم کمیشن نے اس کی بجائے لڑکیوں اور خواتین کو ‘متنوع‘ ‘ملے جلے طرز کی تفریق‘ اور ‘کئی طرح کے حالات و معاملات‘ کو تسلیم کیا۔
یورپی یونین نے کہا کہ وہ کمیشن کے اس 23 صفحاتی دستاویز میں مزید ‘پرعزم زبان‘ کی خواہشن مند ہے۔ یورپی یونین نےکہا کہ بعض ممالک کے وفود کی جانب سے صنفی مساوات سے متعلق بحث کو جان بوجھ کر پٹری سے اتارنے کی کوشش کی گئی تاکہ جنسی کی بنیاد پر امتیاز کے خاتمے سے متعلق بین الاقوامی ضوابط اور ذمہ داریاں واضح نہ ہو سکیں۔
ڈائریکٹر آف ایڈوکیسی اور پالیسی برائے انٹرنیشنل ویمن ہیلتھ کوولیشن شینن کوالسکی نے جمعے کے روز کہا تھا کہ رواں برس روس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سے متعلق دستاویز میں زبان سے متعلق اعتراضات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ویٹیکن بھی ایسی ہی پوزیشن کا ساتھ دیتا رہا ہے، جب کہ سعودی عرب، بحرین اور کیوبن بھی اکثر کئی معاملات میں اختلاف کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ویمن ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز کے کسی بھی ریفرنس کی مخالفت کرتا ہے۔
یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ”روس نے ان مذاکرات میں غیرمعمولی طور پر نادرست کردار ادا کیا۔ خواتین کے حقوق سے اس کم پیش رفت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اسٹیج پر بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کیسی مزاحمت موجود ہے اور روس اپنے تئیں ہر ممکن کوشش میں مصروف رہا ہے کہ اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہو پائے۔‘‘
واضح رہے کہ ‘متفقہ نتائج‘ اقوام متحدہ کی 193 رکن ریاستوں کے مذاکرات اور پھر کمشین برائے صنفی مساوات کے 45 رکن ممالک کی دو ہفتوں کی ملاقات کے اختتام پر واضح کیا گیا ہے۔ اس مسودے کی تیاری کے وقت سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 25 ہزار افراد نے مختلف مقامات پر سات سو سے زائد تقاریب منعقد کیں۔