مولانامحمدجہان یعقوب
کوئی غیر مسلم اپنے کفر سے سچی توبہ کرکے جب اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لیتاہے تو اس کا شان ِکریمی سے یوں اکرام کیا جاتاہے کہ اس کے تمام پچھلے گناہ مٹادیے جاتے ہیں۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والاایسا ہی ہوجاتاہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہ ہو،مفسرین ومحدثین نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی توبہ قبول فرماتے ہیں توان فرشتوں کے نوشتوں سے بھی اس گناہ کو مٹادیتے ہیں جن کا کام ہی مخلوق کے اعمالِ نیک وبد کو درج کرناہے،بل کہ ان فرشتوں کو بھی یہ گناہ بھلادیتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر غفور الرحیم ہے،اس کا تو اعلان ہے :سوبار گرتوبہ شکستی باز آ(اگر سوبار بھی توبہ توڑ دے ،پھر بھی میری بارگاہ کی طرف لوٹ آ)
یہ بات بھی ہر عقلِ سلیم رکھنے والے انسان کی نفسیات میں داخل ہے کہ وہ گناہ پر توبہ کرنے کے بعد دوبارہ نہ صرف خود اس گناہ کی اپنی جانب نسبت کو اچھا نہیں سمجھتا ،بل کہ اوروں سے بھی یہ توقع رکھتاہے کہ اس کو اس سابقہ گناہ کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ایک نومسلم کو اس سے بڑھ کر کوئی بات تکلیف دہ نہیں محسوس ہوتی کہ اسے کفر کا طعنہ دیا جائے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ ؓ نے دوسری ام المو¿منین ؓ کو،جو ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں ،جب اے یہودیہ!کہہ کر پکاراتھا تو اس پر سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایاتھا۔یہ ایک عام مشاہدہ بھی ہے کہ کسی توبہ تائب ہونے والے شخص کے سامنے اس کی توبہ سے پہلے کی زندگی کا ذکر کیاجائے تو وہ اس تذکرے کاحصہ بننے کے بجائے ایسے تاثرات کا اظہار کرتاہے کہ یہ سب اس کا بھولپن تھا،جس سے اللہ نے اسے نکالاہے۔
حال ہی میں طیارہ حادثے میں اڑتالیس مسافر لقمہ¿ اجل بنے،جن میں نوماہ کی بچی سے لے کر ستر برس کے بوڑھے تک،ہر عمر کے مردوزن شامل تھے۔ڈاکٹر،پروفیسر،انجینئر،غیر ملکی سیاحوں اور سرکاری افسران تک ہر شعبہ وپیشہ ¿ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ،جن میں سے ہر ایک کا ایک مقام تھا اوران کی ناگہانی موت اور یوں لقمہ¿ اجل بن جاناانتہائی غم ناک سانحہ ہے،جس کے زخم جلد مندمل نہیں ہوں گے۔ان میں سے محترم جنید جمشید کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی،ان کے سب سے زیادہ تذکرے ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں،ان کے غم کو زیادہ محسوس کیا جارہاہے،بقول مجیب الرحمن شامی :یوں محسوس ہوتاہے جیسے ہر گھر سے ایک فرد کی موت ہوئی ہو۔پس ِ مرگ ان کی اس پذیرائی کے اسباب کیاہیں؟یہ ایک ایساسوال ہے جس کے جوابات سے یہ دل دوز حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ قوم نظریاتی طور پر اس قدر تقسیم ہے کہ کسی کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اس کے بارے میںکوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار نہیں کرسکتی۔ہم فرقہ وارانہ تعصبات کے اسیروں کی بات نہیں کرتے ،البتہ ان کے علاوہ بھی ہمیں قوم دوواضح گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔
ایک طرف لبرل پاکستانی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ پذیرائی اور مقبولیت اس وجہ سے ملی کہ جنید جمشیدکی زندگی کے دو روپ تھے۔پہلا ایک مقبول پاپ سنگرکا ، اور دوسرا ایک مذہبی مبلغ کا۔ جنید جمشیدکو قومی سطح پر ایک پاپ سنگر کی حیثیت سے جو شناخت اور مقبولیت ملی تھی، اس سانحے کے بعد ان کا غم قومی سطح پر منایا جانا، اس کی اسی پہلی شناخت کے سبب تھا۔ان حضرات سے بصد ادب گزارش ہے کہ جنید نے اپنی اس پہلی شناخت کو چھوڑ کر دوسری شناخت اختیار کرلی تھی۔اگر اس شناخت کے ترک کرنے کے بعد بھی اس کی سابقہ خدمات کے آپ لوگ معترف تھے تو اس وقت کہاں تھے،جب جنید نے مالی حالات کی خرابی کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھوادیاتھا؟اس شناخت کے قدردانوں میں سے کون اس وقت آگے آیا تھا،کہ جنید بھائی!ہم آپ کے فین ہیں،آپ کے پرستار ہیں،ہمیں آپ کی مالی پریشانیوں کا علم ہواہے، یہ ہماری طرف سے امدادقبول کیجیے،یہ بزنس ہم آپ کو لگاکردے رہے ہیں اس سے اپنی پریشانی کا مداواکیجیے۔کوئی بھی نہیں اور تقیناًنہیں،بل کہ یہ خود جنید کے الفاظ تھے کہ جن کنسرٹس کے پیسے میں نے ایڈوانس وصول کرکے خرچ کردیے تھے وہ لوگ اپنی رقوم کا مطالبہ کررہے تھے،کیوں کہ وہ دیکھ رہے تھے اب یہ شخص دوبارہ اس شناخت کی طرف آنے والانہیں،کہیں ہماری رقم ہی نہ ڈوب جائے۔اس میں ان کا قصور بھی نہیں تھا،کیوں کہ جہاں کاکرائٹیریاہی پیساہو،ان سے اور توقع بھی کیارکھی جاسکتی تھی!
جہاں تک جنید جمشید مرحوم کی مذہبی شناخت کا تعلق ہے ،تویہ” روشن خیال“ لوگ اس کو چوں کہ جنید کی زندگی کی ایک بڑی غلطی سمجھتے ہیں،اس لیے کسی کام یابی کواس کی طرف منسوب بھی نہیں کرناچاہتے ،ہاں!وہ اس کی انسان دوستی کے معترف ضرور ہیں،لیکن اس گراں قدر دولت کوبھی فنونِ لطیفہ کا فیض قراردیتے ہیں،ان کے زعم فاسد میںایک راسخ العقیدہ مذہبی مبلغ ،جس کا فنونِ لطیفہ یا لٹریچر سے کوئی تعلق نہ ہو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر انسان دوست نہیں۔
انسانیت کو اپنامذہب گرداننے والے ان ”عقل کل“قسم کے ”دانش فروشوں “کوکون بتائے کہ انسانیت کو انسانیت کی رداپہنائی ہی اس دین اسلام نے ہے جس سے یہ شاکی وباغی ہیں۔انسان دوستی کا درس اسلام ہی نے دیا ہے جو دینِ انسانیت ہے ۔ورنہ اسلام سے الرجک انسانوں کاکرداربھی وقتاًفوقتاًمیڈیا پر آتارہتاہے۔گھریلوملازماو¿ں کی تشدد سے اموات،ایک فاضل وکیل صاحب کا اپنی ملازمہ کو اپنی مرسڈیز میں کتے کے ساتھ بٹھانا….توقریب ہی کی بات ہے۔ایسی” انسانیت“ کے نمونے آپ کواپنے قریب ودور میں افراط سے نظر آجائیں گے،عیاں راچہ بیاں!
یہ لوگ جنید جمشید کی زندگی میں تو اس کی سابقہ شناخت کی طرف اس کی نسبت نہ کرسکے،کہ معلوم تھا کہ انھیںمنہ کی کھانی پڑے گی،اب جب وہ اس دنیائے دوں سے کہیں بہتر ٹھکانے سے ہم کنار ہوکر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو چکاہے توموقع غنیمت جان کر یہ لن ترانیاں چھوڑی جارہی ہیں۔ جنید جمشید صاحب کو قریب سے دیکھنے والے میری اس با ت کی تصدیق کریں گے کہ باوجود اس کے، کہ انھوں نے پاپ سنگر کی حیثیت سے قومی شناخت اور عوامی پذیرائی حاصل کی تھی،جب ان کی اس سابقہ شہرت ،عزت ،دولت،شناخت اور ”کام یابی“کے تذکرے کیے جاتے تھے تو وہ اس پر بجائے مزید کوئی اضافہ کرنے اور یادوں کی دکان سجانے کے یوں کہہ کر گزرجاتے تھے،یار،رہنے دو،اللہ نے مجھے اس گمراہی کی زندگی سے نکالاہے،یہ اس کا بہت بڑااحسان ہے،اب کیوں ان سابقہ گناہوں کاذکر کرتے ہو۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا اپنے سابقہ کیریئرکوخیر باد کہناکسی حادثاتی رد عمل کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی جذباتی فیصلہ تھا۔ان کی دعوت وتبلیغ کے کا م سے منسلک ہونے کے بعد کی ابتدائی تقاریرکو سن لیجیے،معلوم ہوجائے گا کہ انھوں نے اپنی زندگی کایہ کایاپلٹ فیصلہ پورے غور وفکر اور مکمل سوچ وبچار کے بعد کیاتھا،وہ بتاتے ہیں کہ میں نے اس فیصلے سے پہلے اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوو¿ں پر غور کیا،میں نے خود سے سوال کیا کہ آج دنیا بھر میں تیری شہرت ہے،یہ سب داو¿ پر لگ جائے گی،تجھے سننے کے لیے عوام وخواص کا جم غفیر امڈآتاہے اتنا بڑامجمع پھر کبھی تجھے سننے کے لیے نہیں آئے گا،تیرے پاس یہ جو پیسے اور دھن دولت کی ریل پیل ہے یہ بھی ختم ہوکررہ جائے گی،تیرے یہ سارے پرستار تجھے نفرت کی نظروں سے دیکھنے لگ جائیں گے،توکیوں زیروپرآناچاہتاہے؟جب انھوں نے ان تمام سوالات کے اطمینان بخش جواب اپنے من میں پائے ،تبھی انھوں نے اتنابڑافیصلہ کیاتھا اور اس فیصلے پر وہ نادم بھی نہیں تھے۔وہ اپنی سابقہ شناخت کی طرف جا ناچاہتے تو ان کے لیے راستے کھلے تھے،اس کے باوجود وہ دوبارہ اس طرف کیوں نہیں گئے؟صرف اس لیے کہ انھیں وہاں کی عزت،دولت،شہرت،پیسا،مقبولیت اورہر قسم کے مالی ومادی مفادسے ایمان زیادہ عزیزتھا،وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ ہرشخص کواللہ تعالیٰ ایک ایساموقع زندگی میں ضرور دیتے ہیں،جو اس کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتاہے اور یہ میرے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔گویا،وہ اس فیصلے کے ذریعے پھولوں کی سیج کے بجائے کانٹوں کے بستر کا انتخاب کررہے تھے،لیکن کچھ تو تھا،جو انھیں اتنے بڑے فیصلے پر آمادہ کررہاتھا۔جنید جمشید خود اس زندگی کو”گندگی “سے تعبیر کرتے تھے،جیساکہ مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے تعزیتی بیان میں بھی ذکر کیاہے :جنید مجھ سے کہا کرتا تھا،مجھے اس گندگی اور جہنم سے باہر آپ نے نکالا ۔مولانامحمد مکی حجازی ہوں،مولاناطارق جمیل ہوں ،شیخ الاسلام جسٹس (ر)مفتی محمد تقی عثمانی ہوںیا حاجی عبدالوہاب،ان صاحبان کی ترغیب ضرور تھی مگر کوئی جبر نہیں تھاجس کا وہ مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتے،ان کی اہلیہ کا بھی ان کی استقامت میں بڑااور کلیدی کردار تھا،لیکن بایں ہمہ،جنید اگر اپنے ماضی کی طرف جاناچاہتاتوجاسکتاتھا۔اس کے باوجودوہ اگرماضی کی شناخت کی طرف نہیں گیاتویقیناًپوری بصیرت کی بناپر نہیں گیا۔
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دین کی عالی محنت کرنے والوں کی راہ نمائی کے لیے منتخب فرمایاوہ تاریک خیال نہیں ہوتے ،کہ ہر چیز میں بلاوجہ کیڑے تلاش کرناشروع کردیں ۔کاش!ان لوگوں نے جنیدجمشید کاوہ بیان سناہوتا،جس میں وہ خود بتاتے ہیں کہ میری حاجی عبدالوہاب صاحب سے ملاقات ہوئی،میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اب اپنے گلے کا استعمال بالکل ترک کردیاہے،تا کہ لوگ یہ نہ کہیں یہ تبلیغی ہو کر کیا کرتاپھررہاہے،توحاجی صاحب نے فرمایا:اپنے گلے کا استعمال کرتے رہو،اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت دی ہے اسے ضایع نہ کرو،ہاں!اس کا درست استعمال کرو۔انھوں نے جنید کوموسیقی کے آلات سے دوری اختیارکرنے کی ضرور ترغیب دی ،لیکن سر اور لَے کو فارغ خطی دینے کا درس نہیں دیا،کیوں کہ یہ حضرات اس حقیقت کوبخوبی جانتے اور سمجھتے تھے کہ نعت خوانی بھی ایک فن ہے ،جس کے ذریعے دین کی خدمت کرنے میں کوئی قباحت نہیں،یہی جذبہ تھا جس کی وجہ سے ایک ہی سال کے اندر جنید کی نعتوں کا مجموعہ”جلوہ ¿جاناں“تیار ہوکرمارکیٹ میں آگیا۔دین داروں کو ”واعظ ِخشک “کے منصب پر بٹھانے والوں کو جانے کیوں یہ وسعت ظرفی نظر نہیں آتی۔
دوسری طرف حقیقت پسند مسلمان اور اہل وطن ہیں،جوسمجھتے ہیں کہ جنید کی اس مقبولیت کی وجہ اس کاایک داعی ومبلغ ہوناہے۔اس کا اسی کام میں خاتمہ بھی اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتاہے۔جنید اپنی موت کے ذریعے بھی ہمیں یہی پیغام دے گیاہے،جس کولے کر وہ ملکوں ملکوں،شہروں شہروں پھرا، کہ دین میں ہی عزت ہے،دین ہی میں دونوں جہانوں کی کام یابی ہے۔یہی فکر،یہی سوچ،یہی عمل ہے جس نے جنید جمشید کوامر کردیاہے۔ہمیں اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ جنید کے جس طرح فرش پر تذکرے ہورہے ہیں،عرش پر بھی اسی طرح اس کے تذکرے ہورہے ہوں گے،کہ یہ غیور اللہ کا قانون ہے،جوفقط اس رب کا ہوجاتاہے وہ رب بھی اس کاہوجاتاہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں)