مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ
چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا سید منت الله رحمانی نوراللہ مرقدہ کے نامور صاحبزادے ممتاز عالم دین ، تصوف وتز کیہ کی دنیا کی عظیم شخصیت ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جزل سکریٹری ، رحمانی تھرٹی اور رحمانی فاؤنڈیشن کے بانی ، جامعہ رحمانی مونگیر اور درجنوں اداروں کے سرپرست ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجاد ہ نشیں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کا تین اپریل دن کے ڈھائ بجے پٹنہ کے پارس ہوسپیٹل میں انتقال ہو گیااناللہ وانا الیہ راجعون حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ( ولادت : ٥جون ۱۹۴۳ ء ) بن امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت الله رحمانی (١٢ ١٩–۱۹۹۱ ) بن مولانا سید علی مونگیری ( ١٨٤٦_١٩٢٧) کی تعلیم اور تربیت ابتدا میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی ، مولوی حبیب الرحمن اورماسٹر فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے نامور والد کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا ، جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوة شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ١٩٦١ء میں دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ اور ١٩٦٤ میں دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے ۔ ١٩٦٧ میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جامعہ رحمانی میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا ، ۱۹۶۹ ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے ، ۱۹۷۰ ء میں ایم اے کیا ، ۱۹۷۴ ء میں ویدھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے ، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی ، حج وعمرہ کا پہلا سفر ۱۹۷۵ ء میں ہوا ، اسی سال کویت بھی تشریف لے گئے ، ۱۹۷۹ ء کا سال روس کے سفر ۱۹۸۴ ء روزنامہ ایثار پٹنہ کی اشاعت ، ۱۹۸۵ ء بہار ودهان پریشد کے ڈپٹی چیر مین ، ۱۹۹۱ ء خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی ، ۲۰۰۵ ء نائب امیر شریعت کی حیثیت سے نامزدگی اور ١٩٩٦ کورحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ سے مولانا کی حیاتی تقویم میں خاص اہمیت حاصل ہے ، جبکہ ۱۹۸۹ ء جان لیواحملہ ، ۱۹۹۱ ء والد امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت الله رحمانی اور ۱۹۹۵ والدہ کی وفات ، ۱۹۹۶ ء بیٹے خالد رحمانی کی حادثاتی موت اور ۲۰۰۸ بھائی محمد وصی کی موت کی وجہ سے غم والم کا سال رہا ۲۰۱۰ ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ، آپ کی تالیفات وتصنیفات میں مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم ، خیر مقدم ، شہنشاہ کونین کے دربار میں حضرت سجاد ۔ مفکر اسلام یادوں کا کارواں ، آپ کی منزل یہ ہے ، بیت عہد نبوی میں تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد رسائل موجود ہیں ، جو آپ کی فکری بصیرت تحریری انفرادیت ، سیاسی درک اور در ملت کی شاہد ہیں ، ان کے علاوہ بے شمار مضامین و مقالات جومختلف اخبارات اور رسائل میں طبع ہوئے ، ابھی جمع نہیں کیے جا سکے ہیں ،
حضرت مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی ، خانقاہ رحمانی مونگیر ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ودهان پریشد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، امارت شرعیہ ، اصلاح معاشرہ ، درجنوں مدارس کی سر پرستی اور رحمانی تھرٹی کے حوالہ سے جاده جادہ ان کی خدمات کے نقوش واضح اور دوپہر کے آفتاب کی طرح روشن ہیں ۔ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی تھے.،جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے اسے پایہ تکمیل تک پہونچا کردم لیتے تھے ، استقلال ، استقامت ، عزم بالجزم اور ملت کے مسائل کے لئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت تھی ، وہ ایک اصول پسند انسان تھے اور دوسروں کو بھی اصول پند ؛ بلکہ اصولوں پرعامل دیکھنا پسند کرتے تھے ، مزاج میں سنجیدگی تھی لیکن موقع بموقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انہیں خوب آتا تھا ، مولانا کے اوپر کام کا بوجھ بے پناہ تھا عمر کی آٹھویں دہائی میں صحت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا ، ان کی قوت ارادی مضبوط اور کام کے تئیں لگن اتنی مستحکم تھی کہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے بہت لوگوں کو پسینہ آنے لگتا تھا ۔
۲۹ نومبر ۲۰۱۵ روز اتوار چھٹے امیر شریعت مولانا سید نظام الدین ( م :١٧/ اکتوبر ۲۰۱۵ ) کے لئے تجویز تعزیت خراج عقیدت اور دعائے مغفرت کے بعد ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے آپ کا انتخاب بالاتفاق عمل میں آیا تھا، دارالعلوم رحمانی زیرومائل ارریہ میں منعقد ارباب حل وعقد کے تاریخی اجتماع میں تلاوت کلام پاک اور ہدیہ نعت کے بعد خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا عبد المتین نعمانی رح نے حضرت کا اسم گرامی پیش کیا تھا اور ارکان مجلس ارباب حل وعقد نے بیک زبان تائید کی تھی اور ہاتھ اٹھا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا ۔ فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی تھی.
اس موقع سے مختلف اداروں تنظیموں کے نمائندوں اور ملک کی نامور شخصیات نے ملک کے موجودہ حالات اور تناظر میں اس انتخاب کی اہمیت اور حضرت کی شخصیت پر روشنی ڈالی تھی حضرت امیر شریعت سابع نے اجتماع میں موجود تمام ارکان سے بیعت امارت اور عہد اطاعت لیا تھا۔ یکم دسمبر ۲۰۱۵ کو امیر کی حیثیت سے دفتر امارت شرعیہ تشریف لانے پرزبردست استقبالیہ دیا گیا تھا اور علماء و دانشوروں نے انتخاب پر مسرت کا اظہار کیاتھا ۔
امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رح پورے ہندستان ؛ بلکہ عالم اسلام میں بھی اپنی ملی تعلیمی ، سماجی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے تھے ، جرآت کردار استقامت على الحق اور ملت کی سر بلندی کے لئے ہردم سرگرم عمل رہنے والی اس عظیم شخصیت نے اپنی خدمات کے گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں ، آل انڈیا مسلم پرسل لا بورڈ مسلم مجلس مشاورت ، امارت شرعیہ ، رحمانی تھرٹی ، رحمانی فاؤنڈیشن ، خانقاہ رحمانی ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ویدھان پریشد کی ممبری اور اس کی نیابت صدارت کے حوالے سے آپ کی خدمات و قیع بھی ہیں اور وسیع بھی ، جس کام کو ہاتھ میں لیا ، پورا کر کے چھوڑا ، پریشانیاں آئیں ، طوفان اٹھے ، موجوں نے سمت سفر کو بدلنا چاہا لیکن حضرت کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ، جان کو خطرہ لاحق ہوا ، زندگی میں غم والم کے مراحل آئے ، بیماریاں اور جسمانی اعذار کی وجہ سے مہینوں صاحب فراش رہناپڑا لیکن ہر حال میں ملت کی فکر دامن گیر رہی ، معاشرہ کی اصلاح کی جدوجہد جاری رہی ، پرسنل لا بورڈ پر ہونے والے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا جسٹس کاٹجو نے اپنے بیانوں کی اصلاح کی حکومت اور سرکاری عہدیداروں کو آر ٹی ای ، وقف ایکٹ ، ڈائرکٹ ٹیکسز جیسے موضوعات پر گھٹنے ٹیکنے پڑے ، حضرت نے ثابت کردیا کہ قوت مڑ جانے کا نام نہیں موڑ دینے کا نام ہے ، انہوں نے اقبال کے مردمومن کی صفت زمانہ با تو نہ ساز د تو با زمانہ ستیز پر عمل کرکے ملت کے لئے عمدہ مثال پیش کی ، جب لوگ چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘ ‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے ، حضرت مولانا نے ملت کے مفاد میں طوفان کے رخ موڑنے کی مسلسل مربوط اور منظم جدوجہد جاری رکھی.
پورے ہندستان نے ان امور میں آپ کی جرأت وعزیمت کا لوہامانا ۔ آپ کے پانچ سالہ دور امارت میں امارت شرعیہ نے ہر اعتبار سے ترقی کے نئے رکارڈ قائم کیے.
اللہ رب العزت کو جس انسان سے جو کام لینا ہوتا ہے ، وہ اس کام کے لئے قدرت و صلاحیت ، طاقت و استقامت اور رجال کار بھی فراہم کرتا ہے ، ملک و ملت کی ہر دور میں یہی تاریخ رہی ہے ۔ حضرت مولانا کو بھی الله تعالی نے موثر گفتگو ، بے مثال خطابت ، لا جواب نثر نگاری کی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا ان کی گفتگو مدلل تحریر باوزن ، اور تقریر ” إن من البيان لسحرا کی تصویر ہوتی تھی ، سنتے رہئے اور سردھنتے رہئے ، قوت سماعت بھی لطف اندوز اورقوت عمل بھی متحرک اور بیدار اور ان سب کے ساتھ تصوف وتزکیہ کے ماہر اور حسن کردار کا مظہر جس کی وجہ سے لوگوں پر خاص اثر اور کیف طاری ہوتا تھا ، اور لاکھوں کا مجمع آپ کی گفتگو سننے اور آپ کی ایک جھلک پانے کے لئے بے چین رہتا تھا. ۲۹ / نومبر ۲۰۱۵ کو التمش ملیہ کالج زیرو مائل ارریہ میں منعقد اجلاس عام کومثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں محتاط اندازے کے مطابق تقریبا ساڑھے تین لاکھ لوگ سرد موسم میں آپ کی تقریر سننے کے لئے دیر رات تک جمے رہے اور ہلنے کا نام نہیں لیا ۔
ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا اٹھ جانا علمی، ملی، تعلیمی اور سماجی اعتبار سے بڑا خسارہ ہے جدائ کا غم ابھی تازہ ہے
کچھ کہ سنائیں گے جو طبیعت سنبھل گئی