میر خوار کب تک پھرے

قاسم سید 

ایک شخص جنگل سے گزر رہا تھا دیکھا کہ ایک گڈھے میں لومڑی بیٹھی ہے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہے ۔اس نے سوچا آخر اس کا پیٹ کیسے بھرتا ہوگا ۔وہ یہ دیکھنے کیلئے رک گیا کچھ دیر بعد اس کی نظر ایک شیر پر پڑی جس نے ہرن کا تازہ شکار کیا تھا اور نوکیلے دانتوں سے اسے ادھیڑ رہا تھا دفعتاً ایک بڑا ٹکڑا جھٹکے سے اس گڈھے میں جا گرا جہاں وہ لومڑی تھی اور اس نے جدو جہد کر کے وہ ٹکڑا حاصل کر لیا اور اپنا پیٹ بھر لیا اس شخص کو بڑی حیرت ہوئی اور فیصلہ کیا کہ وہ بھی تجربہ کرے گا کہ اللہ تعالی اس تک رزق کیسے پہنچاتا ہے ۔چنانچہ ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گیا پورا دن گزر گیا آنتیں قل ھو اللہ پڑھنے لگیں دوسرے دن ایک مسافر گزرا چہرے پر فاقے کے آثار دیکھ کر روکا اپنی پوٹلی سے کھانا نکالا اسے دیا اور احوال پوچھا تو اس شخص نے سارا ماجرا سنایا مسافر نے جواب میں جو کچھ کہا اس میں کافی سبق ہے مسافر نے کہا اللہ رازق ہے یہ برحق ہے مگر تم نے لومڑی کی زندگی گزارنے کے بارے میں سوچا شیر کی نہیں۔تم دینے والے بنتے نہ کہ دوسروںکی دی گئی خیرات سے پیٹ بھرنے کا راستہ اپنایا زندگی وہی قابل تقلید ہے جو دوسروں کو سہارا دے نہ کہ وہ جو کسی کے رحم وکرم پر گذرے ۔

کسی کے ٹکڑوں پر پلنا اس کو تقدیر سمجھ کر عمل سے فارغ ہونے کی آڑ ،امیدوں کے ساحل پر کسی کولمبس کے اترنے اور نئی دنیا کی دریافت کا انتظار جدو جہد و کشمکش سے راہ فرار کے سوا کچھ نہیں ۔

دنیا میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہندوستان میں رہتی ہے اور ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم آبادی اترپردیش میں جہاں جلد ہی اسمبلی الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔ہر پارٹی نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اترپردیش کا الیکشن نہ صرف 2019کے لو ک سبھا انتخابات کا سیمی فائنل ہے بلکہ اس سے قومی سیاست کی مستقبل کی راہ بھی طے ہوگی ۔ایک مضبوط نظریاتی پارٹی کے مقابلے میں پارٹیوں کی بھیڑ ہے مگر ان کی نظریاتی بنیادیں کمزور ہیں ۔وہ شخصیت یا پریوار واد کی ترجمان ہیں ۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لڑائی بظاہر کتنی ایک طرفہ ہے ۔مسلمان نظریاتی گروہ کی حیثیت سے اپنی شناخت پہلے ہی کھوچکے ہیں ۔آزادی کے بعد مولانا آزادکے مشورے پر صدق دلی سے عمل کرتے ہوئے اپنی قیادت یا پارٹی کا خیال بھی گناہ سمجھتے ہیں اور مستقل طو ر پر ہندولیڈروں کو اپنا ملجا و ماوی ٰ سمجھ کر مقد ر کی باگ ڈور ان کے ہاتھو ں میں تھما دی ۔ہر پارٹی نے کچھ مسلم چہروںکو نمائندے کے طور پر پرجیکٹ کیا وہ شو پیس بن کر وفاداریاں نبھاتے رہے اور سواد اعظم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے رہے ۔اس سیاست کا نتیجہ سچر کمیٹی کی رپورٹ ہے ۔کوئی بھی پارٹی یہ دعوی نہیں کرسکتی ہے وہ اس کھیل میں شامل نہیں ہے ۔در اصل ہماری سیاست کا قبلہ و کعبہ بہت محدود کردیا گیا ۔پہلے تعلیمی و معاشی محاذ پر ’کام ‘ہوا اور پھر اب سیاسی طو ر پر صفر بنا دیا گیا ۔گذشتہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے راہ دکھا دی کہ آپ کے بغیر بھی جیتا جا سکتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں ہو گئی کیا اس کا جائزہ نہیں لینا چاہئے اگر غلطی ہوئی ہے تو اس کا اعتراف کر کے حکمت عملی میں تبدیلی نہ کی جائے ۔کیا سیاسی درباروں میں حاضری ،میمورنڈم کی پیشی اور قرار دادوں میں لفاظی کی جگالی سے کوئی فائدہ ہوا ۔اگر نہیں تو طرز سیاست کو بدلنے پر غور ہونا چاہئے یا نہیں ؟کیا چند لوگوں کو درجہ حاصل وزارت ،ایم ایل سی یا راجیہ سبھا بھیج دینے سے سب سے مسائل حل ہو جاتے ہیں کیا صرف الیکشن کے وقت سرگرم ہونے ،مخصوص پارٹیوں کی حمایت میں فتوی سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے ۔ہر الیکشن میں گھوڑا بدلنے کی پالیسی مؤثر ہے ؟۔کیا شارٹ ٹرم سیاست ہی مطلوب و مقصود ہے کیا الگ طرز کی سیاست اور قیادت پر سوچنے کا وقت آیا ہے یا نہیں ۔سوال یہ بھی ہے کہ ہندو عوام نے کبھی مسلم لیڈر شپ کو قبول نہیں کیا یہ حقیقت ہے پھر بھی وہ سیکولر کہلاتی ہے اور آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں نے صرف ہندولیڈر شپ پر بھروسہ کیا پھر بھی اس کا سیکولرزم ہی نہیں حب الوطنی مشتبہ ہے ۔آخر یہ سوالات کیوں نہیں اٹھائے جا سکتے اور سوال پوچھنے والے کی نیت پر سوال کیوں کیا جاتا ہے ۔کیا ہمارے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی ہے یا سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے کی فکر میں اپنی ہڈیاں گھلاتے رہیں گے آخر ہم کیوں ان سے زیادہ اتحاد کیلئے پریشان ہوتے ہیں ہماری سیاست یہ کیوں رہی ہے کہ تھوڑا تھوڑا سب کو دے کر خوش کر دو تاکہ باغ باں راضی رہے خوش رہے صیاد بھی ۔

ہندوستانی سیاست نئی نئی کروٹیں لے رہی ہے اور ہمیں ایک نشست میں تین طلاق کے جواز عدم جواز کی بحث میں الجھا دیا گیا ہے ۔اے ایم یو کے ساتھ جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار بھی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے ۔تمام تر شکایتوں کے باوجود ہم نے روز اول سے سیکولرز م سے جو رشتہ وفاداری باندھا تھا آج تک اسی مضبوطی سے قائم ہیں ۔

مجال ہے جو اور کسی طرف نظر التفات ڈالی ہو مگر ہم ایسے ٹھیکیداروں کے چنگل میں پھنس گئے جو ہر الیکشن میں ہمارے نام کا ٹنڈر ڈالتے ہیں اور ٹھیکہ ملتے ہی اگلے ٹنڈرکی تیاری میں لگ جاتے ہیں ۔نہرو سے راجیو گاندھی تک تین نسلوں کو ڈھویا ،پہلوان سیاست کو رفیق الملک بنا کر کاندھوں پر بٹھایا اب ان کے صاحب زادوں سے تجدید عہد وفاداری کی تیاری ہے ۔

سیکولر پارٹیوں نے خچر کی طرح استعمال کیا اس کے باوجود معزز قیادت تین دہائیوں سے ٹیکٹیکل ووٹنگ کو حرز جاں بنائے ہوئے ہے اس کے نفع نقصان کا غیر جانبدارنہ تجزیہ کبھی نہیں کیا کہ جو بی جے پی کو ہرائے اسے ووٹ دیا جائے سراسر منفی اور غیر منطقی سوچ تھی ۔ہم نے کسی کو جتانے کے بجائے ہرانے کا لائحہ عمل تیار کیا ۔معزز قیادت کی نیک نیتی اور ایمانداری پر اسی طرح انگلی نہیں اٹھا سکتی جیسے نوٹ بندی پر پی ایم کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا مگر معاملہ صرف نیت کا نہیں اس کے اثرات و نفاذ کے نتائج کا بھی ہے ۔نوٹ بندی کا فیصلہ کتنا ہی ایماندارانہ اور صدق دلانہ رہا ہو لیکن اس کے نتائج اب تک منفی صورت میں سامنے آئے ہیں پورا ملک لائن میں کھڑا ہوا ہے ۔ماہرین کے نزدیک ہندوستان کئی سال پیچھے چلا گیا ہے ۔اسی طرح معزز قیادت کی نیت بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کی رہی مگر ہوا س کے برعکس آج بی جے پی مرکز کے ساتھ کئی بڑی ریاستوں پر قابض ہے ۔اترپر دیش میں بھی الارم بج رہا ہے ۔سیکولر پارٹیوںکا مستقل بندھوا مزدور بنانے کا عملی نتیجہ بی جے پی کی دوسے 280سیٹوں کی شکل میں سامنے آیا بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ اس کی جیت میں بدل گیا ۔

لگتا یہی ہے کہ اترپردیش الیکشن میں بھی یہی نعرہ اچھالا جائے گا ۔حالانکہ ٹیکٹیکل ووٹنگ کی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے ۔نوجوان نسل اس سے اوب گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ معزز قیادت اور نئی نسل کے درمیان رابطہ اور اعتماد کا فقدان ہے اور یہ خلیج لگا تا ر بڑھ رہی ہے ۔ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے اور بظاہر قیادت کے پاس جو بی جے پی کو ہرائے اسی کو ووٹ دینے کی اپیل کے علاوہ کوئی نیا راستہ نہیں ہے۔ہماری گذارش ہے کہ وہ صاف طور پر کیوں نہیں بتاتے کہ بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں کون ہے ۔ یہ چور دروازے کھولے رکھنے کی ضرورت کیا ہے ۔کھل کر بات کیوں نہیں کی جاتی کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کی وفاداری بی ایس پی کے ساتھ ہے تو کوئی اسی پی کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے تو کسی نے پیدائشی طور پر کانگریس سے عہد وفا کر رکھا ہے ۔ ایسی صورت میں متحد ہ اور مشترکہ حکمت عملی کیسے بن سکتی ہے ۔لیکن اترپردیش میں اسی طر ز کہن پر اصرار کیا گیاکہ بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

ملک کی سیاست میں قومی اور ریاستی سطح پر سیاسی عمل میں با وقار واپسی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔ہمارے قیادت نے کبھی دلت قیادت کے ساتھ رابطے نہیں بنائے اور نہ ہی دلت قیادت نے ہاتھ بڑھایا ۔ایک زمانے میں ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان فوائد و ثمرات سامنے آئے تھے مگر زیادہ دنوں نہیں چل سکا اس سے بہتر کوئی متبادل نہیں تھا ۔آخر یہ دونوں بی جے پی کوواقعی ہرانا چاہتی ہیں تو اپنے ذاتی مفادات قربان کیوں نہیں کر دیتے اگر واقعی بی جے پی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں تو ووٹروں کی الجھن کو دور کیوں نہیں کر دیتے ۔اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی لائق بحث ہے کہ کیا ہمیں اپنی قیادت پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے ۔جمعیۃ علماء نے ایک زمانے میں مسلم سیاسی پارٹی بنانے پر غور کیا تھا پھر اپنے قدم واپس کھینچ لئے تھے ۔موجودہ دور میں مسلم سیاسی قیادت کو موقع دینے کا وقت آگیا ہے یا نہیں ۔کیا ملک کے موجودہ حالات اس کے متقاضی ہیں یا نہیں یا اس سے نئی مشکلیں پیدا ہوں گی ۔ذہنوں کے بند دریچے کھول کر تازہ ہواؤں کو آنے کی اجازت دی جائے اور ہر ممکن متبادل پر غور کیا جائے اس لئے کہ انتخابی سیاست بہتا پانی ہے اگر یہ رک جاتا ہے تو سڑاند پیدا ہوتی ہے ۔ اور سڑاند ہم محسوس کر رہے ہیں کچھ کیجئے ورنہ میر خوار پھرتا رہے گا اورکوئی پوچھے گا نہیں ۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE