حلب کی خوں ریزی ـانسانی تاریخ کا بڑا المیہ

محمد عمران

شام کے شہر حلب میں ہونے والی خوں ریزتباہی انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔اقوام متحدہ کے مختلف ذرائع کے مطابق ملک شام میں ظالمانہ طرز کواپنانے والی موجودہ حکومت کی حمایت میں کھڑی فورسیز حلب کے علاقے میں وہاں کے معصوم شہریوں کے مکانوں میں نہایت ہی جارحانہ طریقے سے داخل ہوکر ان کاقتل عام کررہی ہیں،اور ان کا یہ وحشیانہ و جارحانہ سلوک بلاشبہ انسانیت کا جنازہ نکل جانے جیسا ہے ۔ انسانیت کے دشمن اورحیوان صفت ان قاتلوں کو اس بات سے قطعی کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے کہ ان بے گناہ معصوم شہریوں کے گھروں میں بڑی تعداد میںخواتین،بچے،بیمار اور ضعیف العمر بزرگ بھی رہتے ہیں۔
ایسا لگتاہے کہ ان ظالموں کو انسانیت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ بربریت کا سلوک کرنے والے انسانیت کے ان سفاک قاتلوں نے آج کل حلب میں انتہائی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانیت کا پوری طرح سے ہی گلا گھونٹ کر رکھ دیاہے۔آج وہاں کی سڑکوں پر جابجا انسانی لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔لیکن کوئی ان کا پرسان حال تک نہیں ہے۔یونیسف کے مطابق جس مکان میں 100سے بھی زائد بچے بغیر کسی بڑے کے ساتھ کے پھنسے ہوئے ہیں،اس مکان پر پر بھی شدید حملہ کیاجارہاہے۔معصوم اور بے قصور بچے جن کی پرورش وپرداخت کا معقول انتظام کیاجانا چاہئے تھا وہ آج مجبور وبے بس ہوکر اپنی جانیں قربان کررہے ہیں لیکن کسی انسانیت کے ہمدرد کی آنکھ میں آنسو تک نہیں آرہے ہےں۔جگہ جگہ خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیاجارہا ہے ،لیکن کسی انسانیت کے علمبردار کی احتجاج کی صدا فضا میں گونجتی اور خلاؤں کو چیرتی ہوئی سنائی نہیں دے رہی ہے۔وہاں کا ہر دردناک منظر اتنااندوہناک ہے کہ کلیجہ ہی منہ کو آجائے،لیکن ایسا لگتاہے کہ اخلاقیات کے تمام پہلوؤں کا ہی جنازہ اٹھ گیاہے وہاں۔وہاں کے معصوم شہری اس قدر لاچار،بے بس اور مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے کھانے تک کے بھی لالے پڑگئے ہیں۔آج وہ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر میں اپنے لئے خوراک ڈھونڈتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہائے!کہاں چلی گئی ہے انسانیت ؟آخر کوئی اس بابت سوچتا کیوں نہیں ہے؟ کہاں چلی گئی ہیں سنجیدہ فکریں؟ آخرصدائے احتجاج بلند کرنے کی کوئی جسارت کیوں نہیں کررہاہے؟ آج یہی سب سوچنے کاموقع ہے اور یقینی طور پر کسی نتیجے پر بھی پہنچنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس بے بسی اور لاچاری کی حالت میں ملک شام کے شہر حلب کے باشندوں کے پاس اپنی بات کہنے کے ذرائع تک بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کسمپرسی کی حالت میںآج اگر وہ اپنی درد بھری داستان کسی کو سنائیں بھی توکیسے سنائیں؟ذرا سنجیدگی سے غور کیجئے ،اگرخدانخواستہ ان پر ہونے والے مظالم کی انتہا اور انسانیت کی ٹوٹتی پھوٹتی ہوئی انتہائی حساس قسم کی یہ تصویریں ملک اور بیرون ملک میں دوسروں تک نہیں پہنچےں گی تو شام کی پاک سرزمین کو ناپاک کردینے کی انتہائی سازش رچنے والے ظلم کے خونیں پنجے تاریخ کے سیاہ باب میں اپنے ظلم کی ان منحوس اور شرمسار کرنے والی غیر اخلاقی تصویروں کو ہمیشہ کے لئے چھپانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یقینی طور پریہ انسانیت کی ہی شکست ہوگی۔انسانیت کا علم بلند کرکے اپنی بلندی کالوہا منوانے کا خواب دیکھنے والی اور اسی خواب کی تعبیر کو حاصل کرنے کی فکر میں اپنے شب وروز کوسیاہ کردینے والی آج کی اس دنیا کے لئے یہ بھی کم حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ حلب کے باشندے مارے جارہے ہیں اور کوئی ان کا معین ومددگار بن بھی کر سامنے نہیں آرہاہے۔
بلاشبہ میڈیا کے مختلف ذرائع بھی حلب کے معصوم شامی شہریوں کے ساتھ ہونے والے بدبختانہ، ظالمانہ اور درندہ صفت سلوک کو نشر کرنے سے گریز کررہے ہےں۔لیکن اس کے ساتھ ہی کسی حد تک یہ ایک خوشگوار پہلو بھی ہے کہ آج حلب کے مظلوم شہریوں کے پاس سوشل میڈیا ایک ذریعہ کے طور پر بچاہواہے جس کے حوالے سے اپنے ان احساسات کو شیئر کرنے میں آج وہ کسی حد تک کامیاب ہوپارہے ہیں کہ جن کو دیکھ اور سن کروہاں کی چیختی ہوئی دردناک تصویریں لامحالہ آنکھوں کے سامنے آجاتی ہےں اور حساس دلوں کو جھنجوڑ دیتی ہےں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کے یہ پیغامات دیکھ کر،سن کر اور پڑھ کرکوئی بھی حساس دل رکھنے والا شخص اپنے خون میں ابال محسوس کرنے لگتاہے،اس کی آنکھیں آٹھ آٹھ آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔بلا شبہ سوشل میڈیاکے ذریعے پہنچنے والے درد میں وہاں کے مظالم کی صداقت ہوتی ہے ۔غور طلب امر ہے کہ یہ ظلم کی کیسی انتہائی شکل ہے کہ آج وہاں کے باشندے اپنے ہر لمحے کو آخری لمحہ تصور کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اسی لئے سوشل میڈیاپر جو پیغامات ان کے ذریعے پوسٹ کیے جارہے ہیں ،انہیں الوداعی قرار دیاجارہاہے۔بلاشبہ ان کی یہ پوسٹ بہت ہی دلخراش ہیں۔اب دیکھئے نہ ایک سات سال کی معصوم سی بچی اپنے پوسٹ میں کہتی ہے کہ یہ اس کے آخری لمحات ہیں۔بتائیے ،کتنا گراں گزرتا ہے یہ سچ۔بھلایہ کوئی عمر ہوتی ہے ایسے حساس قسم کے احساس کو قلمبند کرنے کی؟حیرت ناک سچائی یہی ہے کہ تقریباً ہر پوسٹ میں انہی خدشات کااظہار کیا گیاہے کہ یہ ان کی آخری پوسٹ ہے۔
مختلف پیغامات میں ان کی لاچاری بھی صاف نظر آتی ہے،اور ظلم کا دہکتا ہوا منظر بھی دکھائی دیتاہے۔ ان کی اداسی اور مایوسی ہرچہار جانب پھیل چکی ہے۔دل دہل جاتاہے جب اپنے پیغامات میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اب ہم بات چیت سے تھک گئے ہیں اورتقریروں سے بھی عاجز آگئے ہیں۔کوئی ہماری نہیں سن رہاہے،کوئی جواب بھی نہیں دے رہاہے۔یہاں یکجہتی کاثبوت دیتے ہوئے سنجیدگی سے غور کرناچاہئے کہ آخر دنیانے ان پر ہونے والے مظالم کی جانب سے اپنی آنکھیں کیوں بند کررکھی ہیں اور اپنے کانوں میں روئی کیوں ڈال رکھی ہے؟کیا کسی کو مظالم کی یہ تصویریں اور مظلومین کی کراہیںدکھائی اور سنائی دیتی ہےں جب شامی اپنے ویڈیو پیغامات میں یہ کہتے ہیں کہ وہ دیکھو بیرل بم گررہاہے اور پھر بم گرنے کی آواز کے ساتھ ہی ویڈیو ختم بھی ہوجاتاہے۔یعنی ظاہر سی بات ہے وہ پیغام پہنچاتے ہوئے ہی بم کے شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
بلا شبہ یہ پیغامات یہ واضح کررہے ہیں کہ وہاں اب تک کی سب سے شدید بمباری ہورہی ہے ۔وہاں کے قتل و خون کی منظر کشی کرتے ہوئے کسی نے اس کو جہنم سے تعبیر کیاہے تو کسی نے قیامت کے اندوہناک دن سے۔ان کے پیغامات میں یہ بھی دکھایاگیاہے کہ وہاںہرطرف بم گررہے ہیں،لوگ بے تحاشہ بھاگے جارہے ہیں ، انہیں کچھ خبر بھی نہیں ہے کہ آخر وہ کس سمت میں جارہے ہیں ،انہیں کہاں پہنچ کر ٹھہرنا ہے اور آخران کی منزل کہاں ہے۔ان کے پیغامات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ بڑی تعداد میں لوگ ملبے میں دبے ہوئے ہیں اور کوئی ان کی مدد کے لئے آگے نہیں آرہاہے۔گویا آج ان کا گھر ہی ان کے لئے قبر کی صورت میں تبدیل ہوگیاہے۔ویڈیو پیغامات کے ذریعے قتل عام کے خطرات کو بھی واضح کیاجارہاہے اور حلب کے ساتھ ہی انسانیت کو بھی بچانے کی پکار لگائی جارہی ہے۔حالانکہ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے حلب سے ملنے والی دلدوز رپورٹس پر اپنی خوفزدگی کا اظہار کیا ہے اور حلب میں محصور شامیوں کے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا ہے،لیکن چونکہ موجودہ حالات میںیہ بہت ہی ناکافی ہے اورمحض اتنا بھر کہہ دینے سے ہی اتنے بڑے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا ہے ،غالباًاسی لئے وہاں کے باشندوں کو اس بات کابھی شدید احساس ہے کہ اقوام متحدہ جیسے بڑے ادارے تمام معلومات رکھنے کے باوجود بھی ان کی مدد کے لئے آگے نہیں آرہے ہیںجبکہ شامی باشندے جو ظالمانہ حکومت کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں آج عہد نو کے شدید ترین قتل کاسامناکررہے ہیں۔ان کے پیغامات میں کسی پل بھی موت یابشارالاسد کی ظالم حکومت کے ذریعے گرفتار کیے جانے کے خدشات کا اظہار کیا جانا اس بات کی دلالت کرتا جان پڑتا ہے کہ حلب شہر میں شامی باشندے اب تک کی تاریخ کے کس شدید بحران کے شکار ہیں۔
حق تو یہ تھا کہ شام کی حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ اور ان کی فلاح وبہبود کی تمام کوششوں میں پیش پیش رہتی،کسی باہری طاقت کو اپنے ہی شہریوں پر بمباری کی نہ تو کوئی موقع فراہم کراتی اور نہ ہی اس کی اجازت دیتی۔کیونکہ رعایا کو امن امان میں رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہی ہوتی ہے۔لیکن موجودہ شامی حکومت نے اپنی ان ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کی ہوئی ہے اور شہریوں کی ہلاکت کاسامان فراہم کرارہی ہے جویقینی طور پر تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔وہاں مظالم کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے اور شامیوں کی درد بھری کراہ فضاؤں کاسینہ چیرتی ہوئی ہرلمحہ انسانیت سے ان کی ذمہ داریوں کے متعلق سوال پوچھ رہی ہے۔
شام کے پڑوسی عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی بھی حیران کرنے والی ہے۔ان کی جانب سے کوئی بھی پیش قدمی نہیں ہورہی ہے،محض مذمتی بیان دے کروہ اپنی ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑتے ہوئے نظر آرہے ہیںجبکہ شام کی صورت حال نہایت ہی سنگین ہے۔حیرتناک امر ہے کہ انسانیت کادم بھرنے والا امریکہ بھی اس وقت خاموش ہے،شام میں وہاں کی جابرانہ حکومت کے ساتھ مل کر ظلم کی نئی داستان لکھنے والے روس کے جارحانہ تیور کے سامنے اس کی زبان گنگ ہوگئی ہے،ٹھیک ویسے ہی جیسے امریکہ کے ساتھ دیگر مغربی ممالک نے جب عراق اور افغانستان کو تباہ وبرباد کرنے کا گھناؤنا بیڑہ اٹھایا تھا تو روس نے خاموش تماشائی بن کر انہیں مسلم ممالک اور ان کے باشندوں کو برباد کردینے کا موقع دیاتھا۔شام میں آج اسی تاریخ کا اعادہ کیاجارہا ہے۔کم از کم مسلم ممالک کو اس سچائی کو ضرور سمجھنا چاہیے،ورنہ کسی بھی مسلم ملک میں کسی بشارالاسد کی حکومت قائم کرکے روس اور امریکہ جیسی طاقتیں انہیں بھی تباہ وبرباد کردیں گی۔آج شام کی باری ہے کل کسی کا بھی نمبر آسکتاہے۔
فی الوقت سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ حلب کے مشرقی حصے سے طبی مدد کی فراہمی کے لئے ایک گروپ کو روانہ کیاگیا ہے۔مختلف شہروں میں حلب شہر کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے مظاہرے بھی کیے گئے ہیں اور بشارالاسد حکومت اور اس کے حلیفوں کی جانب سے کی جانے والی منظم نسل کشی کی مذموم کارروائیوں کی مذمت بھی گئی ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔عوامی مظاہرے کے ساتھ انسانیت کا دم بھرنے والے ممالک کو حقوق انسانی کے پیش نظر آگے آناچاہئے ،اقوام متحدہ کو بھی پیش قدمی کرتے ہوئے ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔یہ سمجھنا چاہئے کہ خون کسی کابھی وہ خون ہی ہوتا ہے۔ مغرب کے خون اور شامی مسلمانوں کے خون کے رنگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ شامی مسلمانوں کی ہلاکتیں بھی انسانیت کاہی نقصان ہیں ۔ اس لئے ان ہلاکتوں کو روکنے کے لئے متحدہ طور پر آگے بڑھنا چاہئے۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔(ملت ٹائمز)
mohd1970imran@gmail.com

SHARE