مولانا وحید الدین خاںؒ (ذاتی مشاہدات و تاثرات کے آئینے میں)

وارث مظہری
مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں ہوئے جس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی و فکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت اور کئی لحاظ سے نہایت “بدقسمت” واقع ہوئے تھے۔ خوش قسمتی کا پہلو تو ظاہر ہے۔ “بدقسمتی” کا پہلو یہ ہے کہ اس قدر طویل اور سرگرم علمی و فکری زندگی گزارنے کے باوجود ان کی مقبولیت کا دائرہ بہت محدود رہا۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا۔ وہ مسلمانوں کے کسی بھی حلقے میں اپنی کوئی مستقل اور مضبوط جگہ نہیں بناسکے۔ ہر حلقے کے “بے شعور وباشعور” افراد کو ان کے مختلف نظریات سے شدید اختلاف رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح اپنے رفقا و تلامذہ کی کوئی ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال سکے اور اسے پروان چڑھا سکے۔
مولانا سے میرا تعلق
مولانا کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، برتا اور پرکھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ دنوں کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران مجھے ان کے ساتھ طویل علمی صحبتیں میسر آئیں۔ فکری نشستوں اور پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بارہا مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کا اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں میں نے مولانا کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ سالہا سال تک الرسالہ کے مطالعے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کا یکساں طور پر مطالعہ کیا ہے۔ 1995 میں دارالعلوم سے فراغت کے بعد اپنے ذوق عربی کی تسکین کے لیے میں نے ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔ وہاں میرا داخلہ علیا اولی ادب میں ہوا، لیکن دوران سال میں نے ندوے کو خیر آباد کہہ دیا۔ کیوں کہ اس کا ادب عربی کا نصاب مختلف فنون پر مشتمل تھا جن سے میں دیوبند کی طالب علمی کے دورانیے میں گزرچکا تھا۔ میرا مقصود صرف عربی زبان میں تخلیق و ترجمے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ ندوے سے لوٹ آنے کے بعد دہلی، علی گڑھ اور بجنور کے علمی گلیاروں کی خاک چھانتا رہا۔ پھر 1997 میں بطور مدیر معاون الرسالہ سے وابستہ ہوگیا جس کا اشتہار روزنامہ قومی آواز میں شائع ہوا تھا۔ کچھ وقفوں کے ساتھ قریباً ایک سال تک مولانا سے رسمی وابستگی رہی۔
مولانا کی صحبت بافیض سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ایک ایسے دور میں جب کہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بے اطمینانی کی کیفیت ذہن و دماغ پر چھائی ہوئی تھی اور میں خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا تھا کہ مجھے پہلے اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہیے یا علم و مطالعے کو پروان چڑھانے کو ترجیح دینا چاہیے، مولانا کی صحبت نے مجھے دوسرے پہلو پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھنے پر آمادہ کیا۔ مولانا کی صحبت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نرا جاہل اور جدید دنیا سے نابلد ہوں۔ اب تک میں عربی زبان کے سحر میں مبتلا اور اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا۔ واقعہ یہ ہوا کہ مولانا کی معیت میں دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت ہوئی جس کی ساری کارروائی از اول تا آخر انگریزی میں تھی۔ مجھے کچھ بھی پلے نہیں پڑسکا ۔ اس پر میرے لیے ذلت کا سامان یہ ہوا کہ بعض مندوبین نے مجھ سے انگریزی میں سوالات کردیئے جن کا جواب میرے پاس سر کھجانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میرے تاسف و ندامت کو دیکھتے ہوئے مولانا نے مجھے خود سے انگریزی سیکھنے کے گر بتائے اور میں نے اس پر عمل کیا۔ مولانا کی صحبت کا ایک اثر یہ ہوا کہ میں شعر و ادب کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آیا۔ شعر و ادب کا ذوق مجھے وراثت میں ملا ہے کہ میرے والد ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میں خود کو شعرگوئی اور ادب نویسی سے باز نہ رکھ سکا۔ لیکن مدتوں سے منھ کو لگی ہوئی یہ کافر مولانا کی صحبت میں چھوٹ گئی۔ کیوں کہ مولانا نے اس کی شدید حوصلہ شکنی کی۔
یہ عظیم الشان فائدے مجھے مولانا کی زندگی کو قریب سے دیکھنے اور ان کی نصیحتوں پر کسی قدر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوئے۔ تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا میری اس باب میں رہنمائی کریں کہ مجھے کن کتابوں اور کن شخصیات کو ترجیحی طور پر پڑھنا چاہیے؟ کن موضوعات پر مطالعے کو اپنی اس ابتدائی علمی علمی زندگی کے مرحلے میں پیش نظر رکھنا چاہیے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے سامنے اس کا خاکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مجھے الرسالہ لٹریچر پر پوری طر ح ارتکاز کرنا چاہیے۔ وہ معاصرین اور دور حاضرکے اصحاب علم و فکر کی کتابوں کو تو اس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کسی کو ان کے مطالعے کا مشورہ دیں، متقدمین کی کتابوں میں سے چند ایک کے علاوہ وہ تقریباً پوری اسلامی کلاسکس بالفاظ دیگر اسلامی تراث کو دفتر بے معنی سمجھتے ہوئے ’’غرق مے ناب اولی‘‘ تصور کرتے تھے۔
مولانا سے دامن کشی کی بنیادی وجہ ان کی افتاد طبع تھی اور ان کے غلو آمیز نظریات تھے۔ قائل کرنے کے بجائے اپنے نظریات کو مسلط کرنے کا ان کا انداز نہایت ناگوار گزرتا تھا۔ انہیں ایسا معاون چاہیے تھا جو ان کی شخصیت کے آفاق میں اس طرح گم ہو کہ باہر کی پوری دنیا اس کی نظروں سے بالکلیہ اوجھل ہوچکی ہو۔ وہ الرسالہ تحریک کا ایسا مخلص خادم چاہتے تھے جو اپنی ضروریات و مطالبات سے اوپر اٹھ کر خود کو اس تحریک کے لیے پوری طرح تج دینے اور قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔ مجھے بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔ کسی شخصیت کا ضمیمہ بن جانا علمی زندگی اور شناخت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔مولانا کو اس کا کوئی ملال بھی نہیں تھا کہ کون انہیں چھوڑ رہا ہے اور کیوں چھوڑ رہا ہے۔ وہ ان احساسات سے بالاتر تھے۔
۲۰۰۰ میں تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند (نئی دہلی) سے، اس سے نکلنے والے ماہنامے، ’’ ترجمان دارالعلوم‘‘ سے بطور مدیر وابستہ ہوگیا۔ اسی سال تنظیم نے مولانا نانوتوی پر ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شرکت کی مولانا کوبھی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اس کے لیے مقالہ لکھنے کی یہ شرط رکھی کہ راقم الحروف چند دن ان کے پاس حاضر ہو اور وہ یہ مقالہ اس کو املا کرائیں۔ چناں چہ اس شرط کی منظوری کے ساتھ یہ مقالہ تیار ہوا اور شایع ہوا۔ اس میں مدارس کی قدر و معنویت اور اصحاب مدارس کے کردار اور کارناموں کو سنجیدہ علمی اسلوب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن سیمینار میں مولانا کو مقالہ پڑھنے نہیں دیا گیا۔ سامعین کے ایک طبقے نے جس میں بعض معروف علما بھی شامل تھے، وہ شور وہنگامہ برپا کیا کہ مولانا کو اسٹیج چھوڑنا پڑا۔ میں نے مولانا کو ان کے گھر تک پہنچایا۔مولانا نے مقالے پر کافی محنت کی تھی۔ بقول ان کے اس کی پیش کش کی انہوں نے باضابطہ ریہرسل کی تھی۔بلاشبہ یہ ناخوش گوار واقعہ تھا لیکن مولانا کی خوبی (یا خامی!) یہ تھی کہ وہ ایسے تمام ناخوش گوار واقعات کو جھٹک دینے اور برداشت کرجانے کی غیر معمولی نفسیاتی قوت رکھتے تھے۔
انمول خوبیاں
مولانا بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت اور ان کے عملی شب و روز میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں تھیں۔
۱۔ وقت کے استعمال کی جو نادر مثالیں متقدمین کے یہاں ملتی ہیں، وہ ناقابل قیاس حد تک مولانا کے یہاں موجود تھیں۔ وہ ایک ایک لمحے کو ناپ تول کر خرچ کرتے اور اس کے ضیاع پر کف افسوس ملتے تھے۔
۲۔ علم ومطالعے کے لیے اپنی زندگی کووقف کردینے کا جو جذبہ ان کے یہاں پایا جاتا تھا، اس کی نظیر فی زمانہ کم ملتی ہے۔ انہوں نے اپنی اکثر خواہشات، تمناؤں اور حسرتوں کواپنے فکری مشن کی قربان گاہ پر چڑھا دیا تھا۔اس کے منفی اثرات ان کے خاندان پرمرتب ہوئے لیکن مولانا کی سوچ ان سب سے مافوق تھی۔
۳۔ کسی بڑے سے بڑے حادثے سے بھی ان کا ذہن بالکل متاثر نہیں ہوتا تھا ۔ ایک دن میں حاضرہوا تو مولانا نے بتایا کہ ان پر آج جان لیوا حملہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ انہوں نے اس تمہید کے ساتھ بیان کیا کہ: ’’ آدمی کو حالات سے کبھی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اس کی علمی و فکری زندگی کے لیے زہر قاتل ہے‘‘۔ اس دن بھی مولانا ہشاش بشاش پورے دن اپنے کام میں مشغول رہے۔ جیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
۴۔ ان کا ذہن بیداری کے تمام تر لمحات میں متحرک رہتا تھا۔ جس طرح شعرا پر اشعار کا نزول ہوتا ہے، مولانا پر اس طرح افکار کا نزول ہوتا رہتا تھا۔ جیسے ہی کوئی فکر ’’نازل‘‘ ہوتی، وہ اسے کسی ڈائری میں لکھواتے۔ پھر وہی فکر پارہ مستقل مضمون کی شکل اختیار کرلیتا۔
۵۔ ایک مربیانہ وصف یہ تھا کہ وہ وقفے وقفے سے ، جاری مشغولیت کو روک کر نصیحت کرتے تھے۔ مثلاً ایک دن ایک مضمون کا املا کراتے ہوئے قلم رکواکر کہنے لگے : ’’ آپ کو اپنی شادی کو جس حد تک ہوسکے مؤخر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ضمن میں خود اپنی شادی سے متعلق ایسا نیم افسانوی اور حیرت انگیز واقعہ بیان کیا جو ناقبل یقین حد تک انوکھا تھا۔ اس سے ان کی اہلیہ کی بھی قرباینوں کا بھی اندازہ ہوا۔ فنائیت فی العلم کی ایسی مثالیں اب عنقا ہیں۔
۶۔مولانا کی ایک اہم خوبی ان کی سادگی تھی۔ وہ گاندھی جی کا قول دہراتے تھے کہ: سمپل لیونگ ، ہائی تھنکنگ۔ کہنے کو تو ان کے پاس کروڑوں کی دولت و دنیا تھی لیکن ان کی شبانہ روز کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ خالص سبزی خور تھے۔ عید الاضحی کا گوشت بس چکھ لیتے تھے۔ (البتہ ان کے بقول مہمان کو مزید زحمت سے بچانے کے لیے وہ مہمان داری میں گوشت کا استعمال کرلینے لگے تھے) اے، سی، کولر اور فریج جیسی جدید دور کی ’’نعمتوں‘‘ کو وہ اپنے اوپر ’’حرام‘‘ تصور کرتے تھے۔کسی مقامی میٹنگ میں شرکت ہو یا کسی بین الاقوامی فورم میں؛ مولانا کی ان کے لیے تیاری اور ان میں شرکت کا انداز یکساں ہوتا تھا۔
۶۔ مولانا کا ایک قابل تعریف وصف استغنا تھا جس کا اندازہ لوگوں کو کم ہے۔ ایک دن مولانا نے مجھے بتایا کہ آنجہانی پرمود مہاجن اور بی جے پی کے بعض دوسرے رہنما گورنرشپ کی پیش کش لے کر حاضر ہوئے تھے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ صوفی منش آدمی ہیں۔ انہیں اس کی ضرورت نہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کے ٹاپ کے رہنماؤں، جن میں واجپائی اور ایڈوانی دونوں شامل ہیں، سے بے انتہا قربت کی بنیاد پر ان کے لیے شاید نائب صدر جمہوریہ تک کی کرسی تک رسائی حاصل کرلینا بہت مشکل نہیں تھا، لیکن وہ ان چیزوں سے مستغنی تھے۔ مولانا کی ان انمول اور بیش بہا خوبیوں کے ساتھ بعض پہاڑ جیسی کمزوریاں بھی تھیں، ان کا اور بعض دوسری چیزوں کا ذکر اگلی قسط میں کیا جائے گا۔ (جاری)