امریکی صدر بائيڈن اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب

خورشید عالم داؤد قاسمی
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں کام یابی کے بعد،کچھ لوگ ان سے پر امید تھے کہ وہ  مشرق وسطی اور خاص طور پرقضیۂ فلسطین کے حوالے سے کچھ مثبت طریقہ اختیار کریں گے۔ اس کی وجہہ یہ تھی سابق امریکی صدر ٹرمپ نے کھلے طور پر غاصب ریاست اسرائیل کی حمایت میں، امریکی سفارت خانہ کو “تل ابیب” سے  بیت المقدس منتقل کرنے کا ایک ظالمانہ کام کیا۔ پھر اس نے “صدی کی ڈیل” کے نام پر، جس طرح فلسطین کو حرف غلط کی طرح روئے زمین سے مٹانے کی سازش رچی کہ اس سے اس کا مکروہ چہرہ ہرکسی کے سامنے کھل کر آگیا۔ مگر 20/جنوری کو صدارتی منصب پر فائز ہونے بعد، بائیڈن کے حوالے سے لوگوں کی خوش فہمی دن بہ دن دور ہوتی جارہی ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں واقع “شیخ جراح”  اور مسلمانوں کے قبلۂ اوّل “مسجد اقصی” میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کرکے، 7/مئی 2021ء سے شروع کی جانی والی موجودہ اسرائیلی دہشت گردی  اور حماس کے عسکری ونگ “القسام” کی طرف سے دفاعی کاروائی کے حوالے سے 12/مئی 2021 کو امریکی صدر کی طرف سے جاری ایک  پریس ریلیز میں، انھوں نے جہاں اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے، وہیں انھوں نے  یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔ اپنے قوم اور وطن کی طرف سے دفاع کرنے والی تنظیم “حماس” کی طرف سے اسرائیلی شہروں پرراکٹ داغے جانے کی صدرنے اپنے پریس ریلیز میں مذمت بھی کی ہے۔
دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ امریکی صدر کی طرف سے غاصب اسرائیل کے دفاعی حق کی وکالت کا مطلب کیا ہے! اس کی وجہہ یہ ہے پچھلے ہفتہ سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طرف سے جو دہشت گردانہ کاروائی ہو رہی ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر کسی کو پہنچ رہی ہے۔ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ اسرائيلی کورٹ نے “شیخ جراح” کے فلسطینی باشندوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کا جو حکم صادر کیا، وہ دنیا کا کوئی بھی شخص قبول نہیں کرسکتا۔  جب انھوں نے کورٹ کا یہ حکم ماننے سے انکار کیا؛ تو صہیونی قابض فوجیوں نے زبردستی ان سے مکانات خالی کرانے کی کوشش کی۔ جب انھوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، تو فوجیوں نے طاقت کے زور پر اس احتجاج کوکچلنے کی کوشش کی۔ پھر ان فوجیوں نے مسجد اقصی میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کیا۔ یہ دہشت گردی اور درندگی غاصب ریاست اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی۔ پھر اس  کے بعد، جب فلسطینیوں کی طرف سے رد عمل کا اظہار ہوا، غاصب ریاست نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردی۔ اس طرح حقائق کےعیاں ہونے کے باوجود، امریکی صدر کا اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب رہنا اور حماس کی دفاعی کاروائی کی مذمت کرناانتہائی مضحکہ خیز ہے۔ بائیڈن کے اسرائیل کی حمایت کے اعلان پر، ان کی ہی جماعت کے بعض کانگریس ارکان نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
بدھ کے روز صدر جو بائیڈن، وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور وزیردفاع لائیڈ آسٹن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلی وان نے اپنے اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے بات چیت کی تھی۔ ان سب کا اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے رابطہ میں رہنا، کھلے طور پر اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت ہے؛ جب کہ ٹرمپ کے صدارتی دور میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر رہ چکا مائیک پومپیونے اپنے سابق بوس ٹرمپ  کی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ “امریکی خارجہ پالیسی کمزور ہے اور اسے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔” اس نے ٹویٹ کیا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کمزور ہے جو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور دنیا کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکی قیادت کو واضح کرنا چاہیے کہ ہم غیر متزلزل انداز میں اپنے اتحادی اور دوست اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔” مسٹر مائیک نے 12/مئی کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ (America Stands with Israel) یعنی “امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے” ۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکرون نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے جمعہ کو فون پر بات چیت کی اور حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے۔
اس اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری اور میزائل حملے میں درجنوں انسانی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر خونریزی اور تباہی وبربادی کا مرتکب ہورہا ہے۔آج کے نام نہاد مہذب ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی کی زبان اس دہشت گردی کے خلاف نہیں کھل رہی ہے۔ سب کے سب خاموش ہیں۔  مگر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والی تنظیم “حماس” سب کو دہشت گرد نظر آتی ہے۔ جن ممالک اور ان کے قائدین کو دہشت گردی سے زیادہ دل چسپی ہے، ان کو چاہیے کہ وہ غاصب قابض ریاست اسرائیل پر ایک نظر ڈال لے۔صرف اِن  چند دنوں میں، اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 15/مئی 2021 کی شام تک خواتین اور بچے سمیت شہداء کی تعداد150 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ان شہید ہونے والوں میں 32 بچے اور 21 خواتین بھی شامل ہیں۔ اب تک اس ظالمانہ حملے میں،  زخمی ہونے والوں کی تعداد 1330 سے متجاوز کرچکی ہے۔ غزہ کی پٹی میں اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔ اب ان کے پاس مزید زخمیوں کے  علاج کے لیے گنجائش نہیں ہے۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، قابض فوج غزہ کی شمالی سرحد پر بھاری توپ خانہ اور ٹینک منتقل کرچکی ہے۔ کسی بھی وقت بری کاروائی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
اسرائیلی جنگی طیارے غزہ میں بغیر کسی امتیاز کے  بمباری کر رہے ہیں۔ ان بمباری میں رہائشی عمارتوں  اور بڑے بڑے تجارتی ٹاوروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب تک ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریبا دس ہزار لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں تیس سے زائد اسکولوں کو بھی اسرائیلی بمباری نے نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل غزہ پٹی کے لوگوں کو اپنی قیادت سے متنفر کرنے کے لیے عام طور پر رہائشی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔ کئی رہائشی مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شاطی مہاجر کیمپ میں ایک تین منزلہ رہائشی عمارت کو اسرائیلی جنگی طیارے نے نشانہ بنایا، جس میں ابو حطاب فیملی کے آٹھ بچے اور دو خواتین شہید ہوگئیں۔ اس اسرائیلی دہشت گردی میں کافی جانی ومالی نقصان ہو رہا ہے۔ پوری کی پوری آبادی کو تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔
اسرائيل یہ نہیں چاہ رہا ہے کہ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے خلاف اس کی دہشت گردانہ کاروائی کی حقیقت کھل کر سامنے آئے؛ چناں چہ 15/مئی کی صبح کو غزہ کی پٹی میں واقع تیرہ منزلہ”الجلا ٹاور”پر چار میزائل داغ کر، زمین بوس کردیا۔ اس ٹاور میں متعدد بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز: الجزیرہ ، ایسوسی ایٹڈ پریس، مڈل ایسٹ آئی وغیرہ کےدفاتر تھے۔ ان میڈیا ہاؤسز کے صحافی یہاں سے اپنی صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے اسرئیلی دہشت گردی کو اجاگر کر رہے تھے۔اسرائیلی فوج نے ایک گھنٹے کی مہلت دی کہ جو لوگ اس ٹاور میں ہیں، وہ یہاں سے نکل جائیں۔ میزائل داغنے سے کچھ دیر پہلے ٹاور کے مالک نے کسی اسرائیلی آفیسر سے فون پر بات کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ مزید دس منٹ کا وقت دیں؛ تاکہ صحافی اپنے ساز وسامان یہاں سے اٹھالیں؛ مگر اس نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور میزائل داغ دئیے ۔ اسرائیلی دہشت گردی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اس نے فلسطین اور فلسطینیوں کے حالات بد سے بدتر کردیا ہے۔ ان موجودہ صورت حال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جمعہ کو اجلاس منعقد کرنا چاہتی ہے، جسےبائیڈن انتظامیہ نے روک دیا۔جب بھی اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے؛ تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے۔ اب “اسلامی تعاون تنظیم” کے وزراء خارجہ سطح کا اجلاس، سعودی عرب کی درخواست پر، بروز: اتوار، 16/مئی کو منعقد ہونے جارہا ہے۔ خدا کرے کہ اس تنظیم کی طرف سے کوئی مناسب تجویز سامنے آئے!
“القسام بریگیڈ” کی طرف سے دفاعی کاروائی میں، اسرائیل میں ہزاروں راکٹ داغے جاچکے ہیں۔ اس جوابی کاروائی میں اب تک دس اسرائیلیوں کے  ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔  یہ پہلا موقع ہے کہ القسام بریگیڈ غزہ سے ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلہ تک، اسرائیل میں راکٹ داغ رہا ہے۔  اسرائیل نے اپنے جنوبی اور وسطی علاقوں میں راکٹ حملے کے خطرے کے پیش نظر سائرن بجا دیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل کی آئل ریفائنری ، اسرائیلی شہر عسقلان کابجلی گھر اور بندرگاہ، کئی بڑی عمارتیں،ایک پائپ لائن اورایک فوجی چھاونی تباہ ہوچکی ہیں۔ القسام بریگیڈ کے راکٹ سے اسرائیلی شہری جس طرح اس بار خوفزدہ ہیں، اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔  بہت سے شہری زیر زمین پناہ گاہوں میں رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تل ابیب میں بہت سے سرکاری دفاترزیرزمین  منتقل کیے جارہے ہیں۔
اندرون ملک یعنی اسرائیل کے کئی شہروں میں مسلمان اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کی وجہ سے مسلمانوں اور  یہودیوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے یہودی شہری ان  کے خلاف ظلم وجبر کر رہے ہیں۔ اندروں ملک بھی نیتن یاہو کی حکومت کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس شدید کشیدگی اور جھڑپوں کی وجہہ سے نتن یاہو نے ملک میں مسلمان مظاہرین کو کچلنے کے لیے پولیس کی مدد کےلیے فوج طلب کرلیا ہے۔ فوج کریک ڈاؤن کرکے مسلمان شہریوں کو گرفتار کررہی ہے۔
امریکہ، انگلینڈ اورکچھ مغربی ممالک کا اپنے طاقت کے بل پر، اقوام متحدہ کی آڑ میں، عرب کے قلب یعنی فلسطین میں، “اسرائیل” کے نام سے، ایک یہودی ریاست کی کاشت بہت سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ ان طاقتوں کا اسرائیل کے قیام کا اہم ہدف مشرق وسطی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے اپنا ایک نمائندہ اور داروغہ کو بیٹھانا تھا، جس میں وہ کام یاب ہوگئے۔پھر بہت ہی جلدی اس نو زائیدہ ناجائز ریاست کو اس طرح اپنے مال وزر اور خاص طور پر اپنے ہتھیاروں سے لیس کردیا کہ وہ چند سالوں میں نہ صرف اپنے حریف اوّل فلسطین؛ بل کہ پورے عرب ممالک کو شکشت سے دوچار کرکے، پورے مشرق وسطی میں اپنی برتری ثابت کرنے میں کام یاب رہا۔ آج اسرائیل کی فوجی طاقت اور اسلحہ کے مقابلے سارے عرب ممالک ہیچ نظر آرہے ہیں۔ جن طاقتوں نے اسرائیل کے قیام کو وجود بخشا، آج ان طاقتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مخلصانہ کوشش کرکے، فلسطین نام کی ایک آزاد ریاست قائم کروادے اور قبلۂ اوّل کو مسلمانوں کے لیےآزاد کروادے،نادانی ہے۔ اس حوالے سے اگر مسلم ممالک مل کر کوشش کرتے ہیں؛ تو عین ممکن ہے کہ یہ قضیہ جلدی حل ہوجائے۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے جتنی جلدی ہوسکے پہل کریں! لوگوں کو میری بات سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ آج کی تاریخ میں فلسطینی لوگ ایک چھوٹی سی تعدادمیں ہونے کے باوجود جو کوششیں کررہے ہیں، وہ بیکار ہے؛ بل کہ ان کی یہ کوشش اس قضیہ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگی۔
کچھ لوگ حماس کو بدنام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی لوگ بے کار اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ان کو کسی طرح کا سمجھوتہ کرکے خاموش ہوجانا چاہیے۔ مگر موجودہ صورت حال اس کی شہادت دیتی ہے کہ فلسطینیوں کی سمجھ ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ قبلۂ اوّل کی حفاظت اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست بنانے کے لیے ان کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہوگی۔ اگر وہ کوشش کرنا چھوڑ دیں گے؛ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو انصاف نہیں دلا سکتی ہے۔فلسطینی اس سے بھی واقف ہیں کہ یہ دنیا “دار المحن” ہے۔ اللہ پاک اس دنیا میں اپنے بندوں کا مختلف طریقے سے امتحان لیتے ہیں؛ اس لیے جو حالات و حوادث پیش آئیں اور جوجانی و مالی نقصان ہو، ان پر مسلمانوں کو گھبرانا نہیں چاہیے؛ بل کہ صبر سے کام لینا چاہیے۔ جو بندے صبر سے کام لیں گے، ان کے لیے اللہ کی طرف سے بشارت وخوش خبری کا پیغام ہے۔سورہ بقرۃ کی آیت نمبر: 155 میں اللہ پاک نے اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: (ترجمہ)  “دیکھو، ہم تمھیں آزمائیں کے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے اور (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنا دو۔”
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in