دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین کے انتخاب پر ہنگامہ ابھی تک جاری ، مجلس اتحاد المسلمین نے کھولا محاذ ، کلیم الحفیظ کی پریس کانفرنس 

 گزشتہ دوسال سے نہیں ملا بجٹ، 27 آسامیاں خالی، 163مسودے منظوری کے بعد منظر عام پر آنے کے منتظر

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) دہلی اردو کا گہوارہ ہے ، اردو کے دبستان میں دہلی کا نمایاں نام ہے، آزاد ہندوستان میں اردو کی ترویج و بقا کے لیے ریاستوں میں اردو اکیڈمیز قائم کی گئیں تھیں ، مگر حکمرانوں کے تعصب نے ان کا صرف بورڈ باقی چھوڑا ہے، دہلی اردو اکیڈمی کی صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے، گزشتہ دو سال سے طے شدہ بجٹ کے دس کروڑ روپے کورونا کے نام پر ہڑپ لیے گئے ہیں، فی الحال 27 آسامیاں خالی ہیں، 163مسودے منظوری کے بعد منظر عام پر آنے کے منتظر ہیں۔ جب کہ سندھی،ہندی اور پنجابی اکیڈمیاں خوب پھل پھول رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کل ہند مجلس اتحادالمسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے پریس کانفرنس میں کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ دہلی حکومت کا رویہ اردو کے تئیں ظالمانہ ہے۔ سب سے بڑا ظلم تو یہی ہے کہ اردو اکیڈمی کا وائس چیرمین ایک ایسے شخص کو بنادیا گیا ہے جو اردو سے واقف ہی نہیں ہے اس کی خوبی صرف یہی ہے کہ وہ حکومت کے بیربل میں شمار ہوتا ہے۔ سرکار نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تا کہ اردو اکیڈمی دہلی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی جائے۔

ملت ٹائمز کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کلیم الحفیظ نے کہاکہ اروند کیجر یوال نے دہلی اردو اکیڈمی کے ساتھ دہلی اقلیتی کمیشن کا چیرمین بھی ایک غیر موزوں شخص کو منتخب کیا ہے جس کے خلاف ہم آئندہ پریس کانفرنس کریں گے اور کیجریوال کے مسلم مخالف چہرہ کو بے نقاب کریں گے ۔

کلیم الحفیظ نے کیجریوال سے معلوم کیا کہ اردو اکیڈمی کا بجٹ دس کروڑ ہے جو طے شدہ ہے اس کے باوجود گزشتہ دو سال سے اردو اکیڈمی کو رقم ریلیز کیوں نہیں کی گئی؟ انھوں نے پوچھا کہ اکیڈمی کی 27 اہم پوسٹیں جن میں لائبریرین اور اردو ماہناموں کے ایڈیٹران بھی شامل ہیں وہ کیوں پُر نہیں کی گئیں ؟ کیوں پروف ریڈر سے ایڈیٹر کے فرائض ادا کرائے جارہے ہیں؟ اس صورت حال میں کیا اردو رسائل کا معیار باقی رہ سکتا ہے؟ کلیم الحفیظ نے سوال کیا کہ آخر 163 مسودے جن پر ماہرین کی رائے بھی لے لی گئی ہے۔وہ کئی سال سے کیوں دیمک کھارہے ہیں؟ ان کی طباعت میں آخر کیا دشواری ہے؟جب کئی سال پہلے کے مسودے دھول چاٹ رہے ہیں تو نئے مسودوں کی باری کب آئے گی ؟اس کے علاوہ دوسال سے نہ کتابوں پر انعامات دیے گئے اور نہ دیگر ادبی انعامات کا کچھ پتا ہے ؟، اردو گیسٹ ٹیچر بھی اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں ، اردو کے نام پر ہونے والے پروگرام بھی ندارد ہیں حالانکہ وہ آن لائن ہوسکتے تھے ۔ اردو ادب کے سینئر شہریوں کو ملنے والا ماہانہ اعزایہ صرف 25-30 لوگوں تک ہی کیوں خاص ہے ،یہ اسکیم دہلی کے سینکڑوں افارد تک کیوں نہیں پہنچائی گئی ؟۔ کو کیا سرکار کا یہی رویہ دوسری زبانوں کی اکیڈمیوں کے ساتھ بھی ہے؟ اسی طرح اردو شاعروں اور اردو ادیبوں کی جانب سے بھی سرکار لاپرواہ ہے ،وہ مزدوروں اور آٹو ڈرائیوروں کو تو 5000 ہزار روپے دے سکتی ہے لیکن تہذیب کے محافظوں کوجن کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں ہے مرنے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ کلیم الحفیظ نے کہا کہ اردو اکیڈمی کی اس بدترین صورت حال کی ذمہ داری سرکار کے ساتھ ساتھ وائس چیرمین پر بھی عائد ہوتی ہے ، وائس چیرمین کا کام سرکار کی چاپلوسی کرنا نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کما حقہ¾ ادا کرنا ہے۔اگر وہ یہ ذمہ ادا نہیں کریں گے تو عوام اور خدا دونوں جگہ پکڑے جائیں گے جہاں کوئی کیجریوال نہیں بچا پائے گا۔ صدر مجلس نے مطالبہ کیا کہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ بلا تاخیر دونوں سال کی رقم ریلیز کی جائے،تمام منظور شدہ مسودات کی طباعت کا عمل شروع کیا جائے، ادبی انعامات جاری کیے جائیں، خالی آسامیاں دو ماہ کے اندر پر کی جائیں، ادباء اور شعراء کے لئے ماہانہ وظائف مقرر کیے جائیں۔اگر آف لائن نہیں ہوسکتے تو آن لائن پروگرام کرائے جائیں، نئے پرانے چراغ میں شعراءکی تعداد بڑھائی جائے اور ان کو ملنے والا اعزازیہ کم از کم پانچ ہزار روپے کیا جائے۔ کلیم الحفیظ نے تمام اردو دوستوں سے بھی گزارش کی کہ وہ اردو کے جائز حق کے لیے منظم جد و جہد کریں، مجلس ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے۔