میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

عمر گوتم کی گرفتاری بھارت کے آئین کا مذاق ہے۔ ان کی گرفتاری پر ہمارا ردعمل بہت مایوس کن ہے

کلیم الحفیظ، نئی دہلی
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ جہاں آئین کی مختلف دفعات اور بنیادی حقوق کے تحت انسان کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے،اس کی تبلیغ کرنے اورقبول کرنے کی آزادی ہے۔ ظاہر ہے قبول کرنے کا معاملہ تبھی آتا ہے جب دوسرے کی جانب سے پیش کش ہو ۔آج کل یہ پیش کش ڈیجٹل بھی ہوگئی ہے ۔ گوگل پر سرچ کیجیے تو ہر مذہب کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی معلومات دستیاب ہیں۔ جس کا جی چاہے دیکھ ،پڑھ اور سن سکتا ہے۔ اس ڈیجٹل دنیا کے لوگ اپنی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق اپنا دین و ایمان بدل لیتے ہیں۔ بھارت کے آئین میں تبلیغ دین کی آزادی موجود ہے۔تبلیغ دین کا لازمی نتیجہ تبدیلیِ مذہب ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے معاملے میں کسی مبلغ کا اس کے سواکوئی فائدہ نہیں کہ اس کے عقیدے کے مطابق کچھ ثواب اور پنیہ مل جائے گا جو اسے مرنے کے بعد جہنم کے عذاب سے بچا سکتا ہے۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق یہ ثواب بھی اس صورت میں ملے گا جب کہ اسلام قبول کرنے والے کو کوئی دنیا وی لالچ، مال، منصب، نہ دیا گیاہو ، اس نے اپنی جان و مال کے ضائع ہونے کے خوف سے اسلام قبول نہ کیا ہو، بلکہ اس نے اپنے پورے ہوش و حواس وعقل و شعورسے سوچ سمجھ کر ، بغیر کسی دنیاوی غرض کے دین قبول کیا ہو۔
پوری اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلامی حکومت نے کہیں بھی اور کسی زمانے میں بھی لالچ اور خوف سے کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔قرآن مجید میں صاف صاف ”لا اکراہ فی الدین“ (دین میں کوئی جبر نہیں) کا اعلان کیا گیا ہے۔جس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ اس لےے مولانا عمر گوتم اور ان کے دعوہ سینٹر پر یہ الزام سراسر جھوٹا اور سیاسی مقاصد کے لیے لگایا گیا ہے کہ وہ جبراً اور لالچ دے کر اسلام قبول کراتے تھے۔یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ مولانا دعوہ سینٹر کے ذریعے یہ کام گزشتہ 11سال سے کررہے تھے، ان کا سینٹر کسی جنگل میں زیر زمین تہہ خانے میں نہیں تھا۔بلکہ ملک کی راجدھانی کے مشہورعلاقے بٹلہ ہاؤس میں ہے۔ یہ مسلم علاقہ ہمیشہ سے جانچ ایجنسیوں کی زد میں رہا ہے۔ آخر آج 11سال بعد یوگی حکومت کو معلوم ہوا؟کہ عمر گوتم مذہب کی تبدیلی کا کوئی ریکٹ چلا رہے تھے؟ جیسا کہ مجھے معلوم ہے عمر گوتم صاحب نو مسلموں کے ڈاکیومی نٹیشن میں مدد کرتے تھے اور ڈاکیومی نٹیشن کے سارے کام سرکار کی عدالتوں میں ہوتے ہیں ،ان کے پاس بیشتر نومسلم مجسٹریٹ کا سر ٹیفکیٹ ساتھ میں لاتے تھے ،گویا یہ سارے کام علی الاعلان ہورہے تھے اور یہ بھارتی آئین کے مطابق تھے۔اس لیے ان کی گرفتاری بھارت کے آئین کا مذاق ہے۔ اس گرفتاری پر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ بیان کہ ان پر دیش دروہ کا مقدمہ لگایا جائے اور ان کی جائداد قرق کرلی جائے ملک کے آئین کی توہین ہے ، ایک اہم آئینی منصب پر بیٹھے ہوئے شخص کو گلی، محلے کے غنڈوں کی زبان میں بات نہیں کرنا چاہئے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی اور چھپی نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ کی سیاسی تنظیم ہے ۔ نہ ہی اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت ہے۔سنگھ کا مقصد بھارت کو ہندو راشٹر بنانا ہے اور منو اسمرتی کے قوانین کے مطابق رام راجیہ قائم کرنا ہے۔سنگھ کی 1925سے ساری جد جہد اسی مقصد کے لیے ہے ۔مجھے سنگھ کے مقصد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ یہ ہر سچے دھارمک انسانی گروہ کی دھارمک ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دھرم کے مطابق نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے ، مگر یہ کوشش اس ملک کے آئین کے مطابق ہونا چاہئے۔ سنگھ کو پورا اختیار ہے اور اس وقت تمام ذرائع و وسائل اس کے قبضے میں ہیں کہ وہ اپنے دھرم کا پرچار کرے، رام راجیہ کا نقشا پیش کرے، اگر دیش کی جنتا ان کو قبول کرتی ہے تو کسی مسلمان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ لیکن باطل مذاہب ہمیشہ سے پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں، مناظرے اور مباحثے سے گریز کرتے ہیں۔ سیدھے سیدھے مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں ، ذاتیات پر حملہ آور ہوتے ہیں، غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں اور ہمیشہ اپنے منھ کی کھاتے ہیں۔
عمر گوتم کی گرفتاری پر ہمارا ردعمل بہت مایوس کن ہے۔ابھی تک ہم پریس نوٹ اور سوشل یوٹیوب چینلوں پر مباحثہ کررہے ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر ذاکر نائک کی گرفتاری پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس وقت تو بعض مسلم گروہوں نے اپنی خوشی کا اظہار تک کر ڈالا تھا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ عمر گوتم کی گرفتاری اس لیے نہیں ہوئی ہے کہ وہ کوئی غیر شرعی اور غیر قانونی دھندہ کررہے تھے۔ بلکہ اس لئے ہوئی ہے کہ وہ دین حق کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ملک میں یہ کام صر ف ان کا ہی نہیں ہے بلکہ ملت کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا دین دوسروں تک پہنچائے۔ ان کی گرفتاری پر ہماری خاموشی مستقبل میں اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ بن جائے گی ۔ موجودہ مرکزی حکومت تبدیلی مذہب کے حق کو آئینی طور پر ختم کردینا چاہتی ہے ۔ ہوسکتا ہے اس کے لیے وہ آئین میں ترمیم کرے اور پارلیمنٹ میں کوئی بل لے آئے جس کو منظور ہونے سے موجودہ حالات میں کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان میں مذاہب کی اشاعت اور تبلیغ ایک جرم بن جائے گا۔ یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سلسلہ عمر گوتم پر ختم ہوجائے گا اور یہ صرف اتر پردیش میں الیکشن جیتنے کے لیے ایک حربہ تک محدود ہے ۔نہیں نہیں ایسا قطعاً نہیں ہے، ایسا سوچنے والوں کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ رام راجیہ کے قیام کے لےے لازمی ہے کہ یہاں مذہب کی تبلیغ اور تبدیلی پر روک لگائی جائے،اس لیے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔ ابھی افراد نشانے پر ہیں پھر تنظیموں کا نمبر آئے گا۔
ضرورت ہے کہ مسلم تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارموں مثلاً مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم مجلس مشاورت، ملی کونسل وغیرہ کے تحت کوئی مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے۔ قانون دانوں پر مشتمل ایک لیگل سیل ہو جو ایک طرف غیر آئینی گرفتاریوں پر اعلیٰ عدالت سے رجوع کرے اوردوسری طرف نرسنگھ آنند جیسے لوگوں کی گرفتاریوں کو یقینی بنائے جو سماج کے لیے ناسور ہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر ”مذہب کا انتخاب انسان کا بنیادی حق ہے “ موضوع پر مباحثے ہوں، اس کام میں دیگر مذاہب کے علماء اور دانشوروں کو ساتھ لیا جائے۔ وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اور وہ بڑے عہدوں پر ہیں انھیں باہر لایا جائے ان کے ذریعے پریس کانفرنس کرائی جائے۔ ہندو تنظیموں کی شدھی کرن تحریک اور گھر واپسی کے نام پرظلم و زیادتی کی کارگزاریاں اجاگر کی جائیں۔ بھارتی آئین پر یقین رکھنے والی سیاسی لیڈر شپ کو متحد کیا جائے۔ ان کے ذریعے آواز بلند کی جائے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر شخص عمرفاروق ؓنہ سہی عمر گوتم بن جائے اور نور حق بن کر باطل کے اندھیروں کا خاتمہ کردے۔ مگر عمر گوتم کی گرفتاری پریہ خوف ناک سناٹا اور وحشت ناک خاموشی،ملی اور مذہبی قیادت کی کم ہمتی ظاہر کررہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ میرے اندیشے کہیں حقیقت نہ بن جائیں ۔ اس لیے کہ
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
(مضمون نگار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر ہیں)