ملت کا اختلاف اوروں کی وجہ اتحاد 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

ملک کے سماجی تانے بانے میں مختلف زبانیں، بولیاں، رسم و رواج، کھان پان، ویش بوشا، رہن سہن، تہذیب و ثقافت، مذہب اور لامذہیت دکھائی دیتی ہے ۔ کوئی یکسانیت نہ ہوتے ہوئے بھی یہ سماج کا حصہ ہیں، اور سیکڑوں سالوں سے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان ایک رشتہ ہے ۔ جسے وطنیت، قربت، کاروباری ضرورت، کاموں کی یکسانیت، علاقائیت، مہارت، انسانیت وغیرہ کا نام دے سکتے ہیں ۔ ملک کی سرحدیں بدلتی رہیں لیکن روابط کی ڈور کبھی نہیں ٹوٹی ۔ ادب نے “کچے دھاگے سے سرکار بندھے چلے آتے ہیں” کی تشبیہ دی ۔ تو دنیا نے “یونیٹی ان ڈئیورسٹی” کہا ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ طبقات کبھی آپس میں ٹکرائے نہ ہوں ۔ مگر اس ٹکراؤ کا دائمی اثر باہمی تعلقات پر نہیں پڑا ۔ مثلاً سناتن دھرم سے اختلاف کے نتیجہ میں گوتم بدھ، مہاویر جین اور گرونانک جیسی عظیم شخصیات وجود میں آئیں ۔ انہوں نے خود کو سناتنی یا ہندو ہونے سے انکار کیا ۔ جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو سناتن دھرم کے دھرم گروؤں کی ناراضگی جھیلنی پڑی ۔ مگدھ جہاں اتنے بودھ وہار بنائے گئے تھے کہ اس علاقے کا نام ہی بہار پڑ گیا ۔ آج بودھ گیا اور دو تین مقامات کو چھوڑ کر بہار میں ڈھونڈنے سے بھی بودھ وہار نہیں ملیں گے ۔ اسی طرح جین مذہب کے کئی مندروں میں جین مذہب کے ماننے والے داخل نہیں ہو سکتے ۔ ان پر سناتن دھرم کے پنڈتوں کا قبضہ ہے ۔ آدی واسیوں کے رسم و رواج اور پوجا کا طریقہ ہندوؤں جیسا نہیں یعنی وہ ہندو نہیں ہیں ۔ جنوب کے لوگ خود کو دراوڈ کہتے ہیں ۔

مسلم حکمرانوں نے اس سماجی بندھن کو اور مضبوط کیا ۔ محمد غوری سمیت جو بھی مسلم حکمران بھارت آئے انہیں یہاں کے عوام نے مندر کے مہنتوں اور راجاؤں کے استحصال و ظلم سے نجات دلانے کے لئے خط لکھ کر بلایا تھا ۔ محمد غوری کے علاوہ باقی مسلم حکمران یا جنگ جو لوگوں کو ظلم زیادی سے چھٹکارا دلا کر اپنے ملک واپس لوٹ گئے ۔ محمد غوری نے بھارت میں پہلی مسلم حکومت قائم کی ۔ غوری کے انتقال کے بعد ان کا غلام علاؤالدین خلجی تخت نشین ہوا ۔ کسی غلام کا حکمران بننا یہاں کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ آج بھی کوئی دلت یا پچھڑا ملک کا وزیراعظم نہیں بن سکتا ۔ لیکن تاریخ غلام خاندانوں کے کارہائے نمایاں کی گواہ ہے ۔ قطب مینار، پرانا قلعہ، تغلق کا قلعہ اور نہ جانے اس دور کی کتنی ہی نشانیاں ملک میں پھیلی پڑی ہیں ۔ سکندر لودی نے سب کے لئے تعلیم عام کی، اس وقت سماج کا صرف اعلیٰ طبقہ ہی تعلیم حاصل کرتا تھا ۔ عام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ علاؤالدین خلجی نے منگولوں سے بھارت کی حفاظت کی ۔ منگول فوجوں نے پوری دنیا میں دہشت پھیلا رکھی تھی ۔ وہ ٹڈی دل کی طرح آتے اور ملکوں کو اجاڑ کر چلے جاتے تھے ۔ مگر خلجی نے انہیں بھارت میں داخل نہیں ہونے دیا ۔

مغلوں کے دور میں بھی سماجی رشتوں میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا ۔ رامائن اور مہا بھارت جیسی کتابیں اسی دور میں لکھی گئیں ۔ جہاں گیر کا انصاف اور اکبر کا بین المذاہب اتحاد مشہور ہے ۔ بھارت کے سبھی تہوار مغل بادشاہ قلعہ میں مناتے تھے ۔ بڑی تعداد میں عوام ان میں شریک ہوتے تھے ۔ مغل دربار اور فوج میں قابل ذکر تعداد میں غیر مسلم بڑے عہدوں پر تعینات تھے ۔ اکبر کی فوج کی کمان راجہ مان سنگھ کے ہاتھ میں تھی ۔ پوری زندگی مغلوں سے مقابلہ کرنے والے شیوا جی کی فوج میں بھی ایک تہائی سردار مسلمان تھے ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اورنگزیب کی قید سے شیواجی کو بچانے والا بھی ایک مسلمان تھا ۔ شیواجی نے اپنے محل کے سامنے جس طرح اپنی پوجا کے لئے مندر تعمیر کرایا تھا اسی طرح مسلمانوں کے لئے مسجد بنوائی تھی ۔ ان کے یہاں مذہبی تعصب نام کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ ہر حال میں صرف اپنی رعایا کی خوشی چاہتے تھے ۔

انگریزوں نے بھارت کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا ۔ وہ انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے ۔ پھر مسلمان ہی سب سے پہلے ان کے مقابلہ کے لئے آگے آئے ۔ مذہبی علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے فتوے دیئے ۔ کچھ ہندو راجاؤں کو چھوڑ کر باقی نے مغلوں کا سورج غروب ہوتا دیکھ انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ رانی لکشمی بائی کو گوالیار کے راجہ کا ساتھ نہ ملنے کی وجہ سے جان گنوانی پڑی ۔ اسی طرح جس نے بھی انگریزوں سے مقابلہ کیا اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی وجہ سے بھارت میں انگریز حکومت کا قیام آسان ہو گیا ۔ ملک میں جہاں تہاں اگر آزادی کی کوئی آواز اٹھی بھی تو اسے انگریزوں نے دبا دیا ۔ اس صورتحال سے انگریز سمجھ گئے کہ ہندو مسلمانوں کو بانٹے بغیر وہ بھارت پر حکومت نہیں کر سکتے ۔ اس کے بعد شروع ہوئی سماجی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش ۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر مسلم حکمرانوں کو حملہ آور اور اورنگزیب کو ہندو مخالف بادشاہ بتا کر نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کام کے لئے نام نہاد ہندو دانشوروں کی مدد بھی لی گئی ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے شیعہ سنی، سنی وہابی، بریلوی دیوبندی، نجدی اور قادیانیوں کو آپس میں الجھا کر مسلک اور عقائد کے اختلافات کو بڑھایا گیا ۔ سرسید نے اسباب بغاوت ہند کتاب لکھ کر مسلم انگریز تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ انگریزی تعلیم سے اگر مسلمانوں کو نہیں جوڑا گیا تو وہ زمانہ کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے ۔ اس کے لئے سرسید کو اپنوں کی شدید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر بعد کے حالات نے سید کی سوچ کو صحیح ثابت کر دیا ۔

آزادی کے بعد ملک نے جمہوری نظام حکومت اپنایا ۔ جمہوریت میں عوام اپنے لئے حکومت کا انتخاب کرتے ہیں ۔ جس میں تعداد کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ اسی کے پیش نظر ان سبھی طبقات کو ہندو کہا گیا ،جن کا وجود ہی سناتن دھرم سے انحراف کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا ۔ بھارت کے آئین کے مطابق ہندو وہ ہے جو مسلمان، عیسائی یا پارسی نہ ہو ۔ ہریجنوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو گاندھی جی نے ہندو پہچان کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جبکہ ان طبقات کا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے استحصال کیا اور وہ ہمیشہ ان سے بیزار رہے ۔ مگر ان سب کے ہندو لفظ کے دائرے میں آنے کی وجہ سے یہ ملک کی اسی فیصد آبادی ہو گئے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر آر ایس ایس بھارت کو ہندو استھان یا ہندوستان کہتا ہے ۔ اس کا تصور ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لئے بھارت کو جمہوری نہیں بلکہ ہندو راشٹر ہونا چاہئے ۔ سیاسی ضرورت کے تحت شیواجی جیسے سیکولر شخص کو مسلمانوں کا دشمن اور ہندوؤں کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا ۔ جبکہ وہ ہندو مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے ۔ وہ اپنے عوام کی ہر حال میں بھلائی چاہتے تھے ۔ موجودہ حکومت سنگھ کے نظریہ کی حامی ہے لٰہذا وہ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جس سے ملک کا ہندو راشٹر بننا ممکن ہو سکے ۔ لیکن آج تک سنگھ یا اس کے حامی ملک کو اس بات سے مطمئن نہیں کر سکے کہ وہ جس ہندو راشٹر کو قائم کرنے کا خواب دکھاتے ہیں اس کی بنیاد کیا ہوگی ۔ عام آدمی کی زندگی پر اس کا کیا اثر پڑے گا اور وہ کس طرح سیکولر حکومت سے بہتر ہوگا ۔ ملک کے عوام ساڑھے چھ سال واجپئی جی کی اور سات سال سے نریندرمودی کی حکومت کو دیکھ رہے ہیں ۔ جس میں ملک کے حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوام نے آج تک سنگھ کی سوچ کو قبول نہیں کیا ۔ ہندو دانشوروں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب سے محبت کرنے والوں نے سماج کے توازن کو بگڑنے نہیں دیا ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے غافل رہے ۔ انہوں نے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ۔ بھوک، ڈر، غربت اور اونچ نیچ سے سماج کو کیسے بچا سکتے ہیں انہوں نے نہیں بتایا ۔ زنا بالجبر اور رحم مادر میں قتل سے لڑکیوں کو بچانے پر کام نہیں کیا ۔ ماحول کو بہتر بنانے اور باہمی رشتوں کو سدھارنے کی مسلمانوں نے کوشش نہیں ۔ خدمت خلق اور کمزوروں کو انصاف دلانے کی کوئی مہم نہیں چلائی گئی ۔ کیوں کہ مسلمان خود ذات، برادری کی بیماری ملوث ہیں ۔ عام مسلمان روزی روٹی میں مصروف ہے، دانشور اور علماء مسجد، مدرسہ بنانے اور ان سیاستدانوں کو خوش کرنے میں لگے ہیں جو نہیں چاہتے کہ مسلمان متحد ہو کر کچھ مثبت کام کریں ۔

قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔ مگر مسلمان ان سے بھی زیادہ بٹے ہوئے ہیں جن کے یہاں اتحاد کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں اقلیتیں متحد اور اکثریت منتشر پائی جاتی ہے ۔ مگر عجیب اتفاق ہے کہ بھارت میں اقلیت (مسلمان) اکثریت سے زیادہ منتشر ہے ۔ یہ اس وقت ہے جبکہ مسلمان اپنے ووٹوں سے 60 پارلیمانی سیٹیں جیت سکتے ہیں اور ذرا سی حکمت سے کام لینے پر سو سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی مل سکتی ہے ۔ اگر کسی طبقہ کی پارلیمنٹ میں اتنی نمائندگی ہو تو کیا کوئی حکومت اس کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے بکھراؤ کی وجہ سے ہی غیروں میں اتحاد دکھائی دیتا ہے ۔ وقت آگیا ہے جب ملت کو اپنے اس رویہ پر غور کرنا چاہئے ۔ کیوں کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں ۔ صلاحیت کا شمار نہیں ہوتا، جمہوریت میں جس کی جتنی تعداد بھاری ہوتی ہے اسے وسائل میں اتنی ہی حصہ داری ملتی ہے ۔ مذہبی سطح پر جو بھی عقیدہ ہو لیکن سیاسی ضرورت کے لئے متحد ہونا ہی ہوگا ۔ ہمارا اختلاف ہی اوروں کے لئے وجہ اتحاد ہے اس پر سوچئے گا ضرور ۔

متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن

منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں