موہن بھاگوت کا بیان اور قول وعمل کا تضاد

خبر در خبر 660

شمس تبریز قاسمی
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے تسلیم کرلیاہے کہ بھارت کے ہندو آتنکوادی بن چکے ہیں ۔ متشدد ہوچکے ہیں ۔ مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرتے ہیں ۔ اسلام مذہب سے نفرت کرتے ہیں ۔ بھار ت کے مسلمانوں کو دیکھنا گورا نہیں کرتے ہیں ۔ بھائی چارہ کے خلاف ہیں ۔ ہندو سماج کے دلوں میں نفرت ، تشدد اور تعصب ہے ۔
4جولائی 2021 کو اتر پردیش کے غازی آباد میں مسلم راشٹریہ منچ نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا ۔ یہ تنظیم آر ایس ایس کی ہی ونگ ہے جو مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہے ۔ اس پروگرام کے چیف گیسٹ تھے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کچھ باتیں ایسی کی جس پر چرچا ہونا ضروری تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ماب لنچنگ کرنے والے ہندتوا کے خلاف جارہے ہیں ۔ جو لوگ ماب لچنگ میں ملوث ہیں ان کے خلا ف قانونی کا ر وائی ہونا چاہیے ۔ بھارت کے ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہیں ۔ دونوں کا ڈی این اے بھی ایک ہے ۔ہندواور مسلمان سبھی بھارتیہ ہیں اور ایک ہیں ۔ سبھی کے آباء و اجداد اسی بھارت کے رہنے والے تھے۔ عبادت اور پوجاکے طریقے الگ الگ ہیں اس لئے اس بنیاد پر کسی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے ۔ ہندواور مسلمان کوئی شبدھ نہیں ہے ۔ اصل شبدھ بھارتیہ ہے ۔ ہندو اور مسلمان کے مفاد کی بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ بھارت کے ورچسپ اور مفاد کی بات ہونی چاہیے کیوں کہ بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ۔ یہاں کسی ایک مذہب اور ذات کے مفاد کی بات ممکن نہیں ہے ۔ جو کوئی بھی یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں نہیں رہنا چاہیئے وہ ہندو نہیں ہے ۔
یہ خلاصہ ہے موہن بھاگوت کی تقریر کا ۔ اس کے کچھ اہم حصے ملت ٹائمز کے فیس بک پیج پر اپلوڈ کئے گئے ہیں ۔
اس تقریر کی سراہنا ہورہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ موہن بھاگوت نے ہندو مسلم بھائی چارہ کی بات کی ہے ۔ گنگاجمنی تہذیب کو فروغ دیاہے ۔ لیکن اس تقریر کے اند ر جو چھپا ہے اس پر کوئی بات نہیں کررہا ہے کہ موہن بھاگوت یہ مانتے ہیں کہ ہندو سماج متشدد ہوچکا ہے ۔ ہندوسماج دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔ ہندو سماج کے لوگ ماب لنچنگ کے ذمہ دار ہیں ۔ ہندو سماج کے لوگ مسلمانوں سے مذہب کی بنیاد پر نفرت کرتے ہیں اور یہ خطرناک وائرس کیسے ختم ہوگا ۔ آر ایس ایس کی اس کے لیے کیا پلاننگ ہے ۔ ذہنوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کیسے مٹائی جائے گی ۔
موہن بھاگوت کا یہ بیان بظاہر بہت اہم ، سنجیدہ اور پرکشش ہے لیکن اس پر یقین کرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ قول وعمل کا تضاد ہے ۔ موہن بھاگوت کو کہنے سے زیادہ کرنے کی ضرروت ہے ۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے اور بی جے پی آر ایس ایس کی پولٹیکل ونگ ہے ۔ حکومت کی باگ دوڑ موہن بھاگوت کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس لئے انہیں لنچنگ کے خلاف بیان دینے کے ساتھ اس پر روک لگانے کیلئے سرکار کوحکم دینا چاہیے ۔ ماب لنچنگ کے خلا ف قانون پاس کرانا چاہیے ۔ ماب لنچنگ میں ملوث لوگوں کو پارٹی سے نکالنا چاہیے لیکن جن لوگوں نے ماب لنچنگ کی ہے ۔ ماب لنچنگ کرنے والوں کو سپورٹ کیاہے انہیں بی جے پی میں عہدہ دیاگیاہے ۔ نفرت پھیلانے والے ، زہر گھولنے اور مسلمانوں کے خلاف دن رات بولنے والے بی جے پی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ اتر پردیش کا وزیر اعلی بھی آر ایس ایس یوگی جیسے شخص کو بنایا جنہیں مسلمانوں سے شدید نفرت ہے ۔ پھر مسلمان یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ موہن بھاگوت بھائی چارہ کی بات کررہے ہیں ۔
پھر کیا مقصدہے موہن بھاگوت کی ا س تقریر کا ؟ دراصل آر ایس ایس کی پہچان متشدد تنظیم کی بن چکی ہے ۔دنیا بھر میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے بارے میں یہ بات لکھی اور بولی جارہی ہے کہ یہ تنظیم بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کرتی ہے ۔ عیسائیوں پر جبر کرتی ہے ۔ بھارت میں ہندو مسلمانوں کو برداشت نہیں کررہے ہیں ۔ ہندو سماج میں دہشت گردی پنپ رہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے جس طرح داعش اور القاعدہ ایک دہشت گرد تنظیم کی حثیت سے جانی جاتی ہے ایسی ہی پہچان اب آر ایس ایس کی دنیا بھر میں بننے لگی ہے ۔ہندو کمیونٹی کی بدنام ہورہی ہے اس لئے موہن بھاگوت ڈیمیج کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔ انٹر نیشنل میڈیا اور عالمی طاقتوں کو وہ یہ میسج دینا چاہتے ہیں کہ ہندو سماج میں تحمل اور برداشت ہے ۔ اس کی سچائی وہ نہیں ہے جو دنیا بھر کی میڈیا دکھارہی ہے ۔
لیکن بھاگوت صاحب ! صرف بولنے سے نہیں ہوگا بلکہ آپ کو عمل بھی کرنا ہوگا ۔ اگر واقعی آپ ماب لنچنگ کے خلاف ہیں ۔مسلمانوں اور ہندوؤں کو بھارت کا حصہ مانتے ہیں ۔ دونوں کو آپ ایک درجے کا شہری سمجھتے ہیں تو پھر ماب لنچنگ کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ لیں ۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو بی جے پی اور سبھی تنظیموں سے نکال باہر کریں۔ سی اے اے جیسے قانون کو ختم کرائیں جس میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جارہی ہے اور اس طرح کی تقریر صرف مسلم راشٹریہ منچ کے پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ سنگھ کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں کریں ۔
مسلمان یقیناً خیر مقدم کریں گے ۔ مسلمان آپ کے قدم سے قدم ملائیں گے ۔ بھارت کے وکاس اور ترقی کیلئے ہمیشہ مسلمان آگے آگے رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ مسلمانوں نے کبھی بھی بھارت میں صرف مسلم کمیونٹی کی مفاد کی بات نہیں کی ہے بلکہ بھارت کے مفاد کی بات کی ہے ۔ سبھی مسلم دور حکومت میں بھارت کی ترقی ہوئی ۔ انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی جنگ لڑی ۔ 1947 کے بعد بھی مسلمان ہمیشہ بھارت کیلئے قربانیاں دے ہیں کیوں مسلمان بھارتیہ ہیں ۔ بھارت کے شہری ہیں ۔ اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں ۔ اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور سبھی کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں ۔
جہاں تک موہن بھاگوت کی یہ بات کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں تو اس میں کوئی غلط بیانی نہیں ہے بلکہ ہم مسلمانوں کے نزدیک پوری دنیا کے انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں ۔ گورے کالے ، امیر ، غریب سبھی سبھی برابر ہیں ، ہر کوئی انصاف ، مساوات اور آزادی کا حقدار ہے ۔ ذات ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر تفریق کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے آباء و اجداد دوسرے ملکوں اور علاقوں سے آئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ اسی ملک کے ر ہنے والے تھے۔ ہمارے آباء و اجداد کو اسلام کی توفیق ملی ، وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہماری ولادت ایک مسلم گھرانے میں ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس بنیاد پر مسلمانوں کو بھی ہندو کہا جائے بلکہ ہم ہندی ہیں اور ایک ہندی مسلمان ہونے پر ہمیں فخر ہے ۔
stqasmi@gmail.com