پاپولر فرنٹ نے شمال مشرقی دہلی فسادات کی تحقیقات کو تباہ کرنے کے خلاف دہلی عدالتوں کی چوکسی کو بتایا قابل تعریف

نئی دہلی : (پریس ریلیز) دہلی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو کا شو وہار کی مدینہ مسجد میں توڑ پھوڑ کے مقدمے پر دہلی پولیس کی تحقیقات کو پھاڑنا اور پولیس افسران کی ناقص تحقیقات پر کھلی عدالت میں ان کی سرزنش کرنا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ شمال مشرقی دہلی فسادات کی تحقیقات کس قدر جانبدارانہ و مسلم مخالف ہو گئی ہیں، ان خیالات کا اظہار پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے کیا۔ انہوں نے مزید یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اپنی فرقہ وارانہ تعصب پرستی و مسلم مخالف موقف کے لئے بدنام دہلی پولیس کو گذشتہ سال شمال مشرقی دہلی فسادات کو لے کر اس کی سردمہری کے باعث سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ پولیس کو بے قصور مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا تشدد کا ساتھ دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پایا گیا تھا۔
عدالت اس بدیہی رائے پر پہنچی کہ دہلی پولیس کی جانب سے لاپرواہی ہوئی ہے، ساتھ ہی عدالت نے اس تفتیشی ایجنسی کے ”سست رویہ“ پر اپنی تکلیف کا اظہار کیا جو اب تک یہ بھی نہیں جان پائی تھی کہ مسجد میں توڑ پھوڑ کے متعلق ایک علیٰحدہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے (13جولائی 2021کو) دہلی کی ایک عدالت نے فروری 2020کے شمال مشرقی دہلی مسلم کش فسادات سے جڑے مقدمات کی تفتیش میں ”بری طرح سے ناکام“ رہنے پر دہلی پولیس پر 25000روپئے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے ”انتہائی مضحکہ خیز، بیدردی اور لاپرواہی بھرے طریقے“ سے تفتیش کی ہے۔
ملک کی اقلیتیں ہمیشہ سے پولیس کی اس ملی بھگت کی شکار رہی ہیں جنہوں نے بیشتر مواقع پر ہندوتوا تشدد کو مشتعل کرنے، بے قصور متاثرین کو غلط طریقے سے پھنسانے اور پھرہندوتوا فسادیوں کو کاروائی سے بچانے کے لئے ہندوتوا سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سازش رچنے کا کام کیا ہے۔ اس سیاق میں ہم شمال مشرقی دہلی تشدد کی سماعت کے دوران دہلی کی عدالتوں کی اس چوکسی کی ستائش کرتے ہیں۔ عدلیہ سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ان مقدمات کی آگے کی کاروائیوں پر قریب سے نظر رکھیں کیونکہ دہلی کے طاقتور لوگوں کے ساتھ گہری وابستگی رکھنے والے ہندوتوا سیاستدان آج بھی لا اینڈ آرڈر سسٹم کی پکڑ سے باہر ہیں اور وہ سرعام اقلیتی برادریوں کے خلاف مزید اشتعال انگیزی اور تشدد بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔