جمہوریت جاسوسوں کے نرغے میں!

معصوم مرادآبادی
جمہوریت میں فردکی آزادی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہمیں اس بات پر فخرہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اور ہمارے جمہوری ادارے ہرقسم کے دباؤ سے آزاد ہوکر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت، جمہوری اداروں کی خودمختاری اور بنیادی انسانی آزادی کا تصور آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہماری جمہوریت کو جاسوسوں نے اپنے نرغہ میں لے لیا ہے۔ اس کا تازہ ثبوت وہ جاسوسی اسکینڈل ہے جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اسرائیل کے تیار کردہ ’پیگاسس اسپائی ویر‘ کے ذریعہ دنیا میں جن پچاس ہزار لوگوں کی ہمہ وقت نگرانی کی جارہی تھی، ان میں ہندوستان کی بھی 300 شخصیات کے نام منظرعام پر آئے ہیں۔ ان میں اپوزیشن لیڈروں ،سرکردہ صحافیوں، سپریم کورٹ کے ججوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، تاجروں اور خود مرکزی کابینہ کے بعض وزیروں کے نام شامل ہیں۔ جاسوسی کا شکار ہونے والوں میں بیشتر وہ لوگ ہیں جن سے حکومت کسی بھی معنوں میں خوفزدہ ہے اور ان کی حرکت وعمل پر نگاہ رکھنا چاہتی ہے۔ جن لوگوں کی ہمہ وقت جاسوسی کی جارہی تھی ، ان میں گانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی بھی شامل ہیں۔
جس وقت یہ جاسوسی اسکینڈل سامنے آیا ، اسی وقت پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس شروع ہوا تھا۔ اپوزیشن نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کردی۔ حکومت حسب عادت اسے ملک کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کررہی ہے اور کسی ایسی جانچ سے بھی پہلو تہی کررہی ہے جس کے ذریعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ حالانکہ فرانس نے، جہاں یہ جاسوسی اسکینڈل بے نقاب ہوا ہے، اس کی تہہ تک جانے کے لیے باضابطہ تحقیقات کا اعلان کردیا ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں ایسی کوئی امید نہیں ہے، کیونکہ یہ حکومت اپنے ناقدین کو ڈرا دھمکا کر، ای ڈی اور انکم ٹیکس کے چھاپے ڈلواکر خاموش کردینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
پیگاسس جاسوسی اسکینڈل کے پس منظر میں جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ موبائل میں نقب زنی کرنے کاحق حاصل کرنے کے لیے وزارت داخلہ نے 20 دسمبر 2018 کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت حکومت ہند کی 9 خفیہ ایجنسیوں اور دہلی پولیس کو انٹرنیٹ و موبائل میں جاسوسی اور نقب زنی کی قانونی اجازت مل گئی تھی۔ دو سال قبل جب کیلی فورنیا کی ایک عدالت میں فیس بک نے یہ انکشاف کیا کہ ہندستان سمیت کئی ملکوں میں ’پیگاسس اسپائی ویر‘ کا استعمال کرکے اس کے صارفین کے موبائل کی سبھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں تو سافٹ ویر بنانے والی اسرائیلی کمپنی نے اسے قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف خود مختار ملکوں کے خفیہ اداروں کو ہی ’ پیگاسس‘ فراہم کرتی ہے۔ کیلی فورنیا کی عدالت نے 16 جولائی 2020 کو اپنے فیصلے میں فیس بک کی طرف سے لگائے گئے الزامات صحیح پائے ۔ اب مغربی ملکوں کے اخباروں نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت ہند اپنے کچھ وزیروں ، سپریم کورٹ کے ججوں، اپوزیشن لیڈروں ، درجنوں صحافیوں، تاجروں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کے فون اس اسپائی وئیر کے ذریعہ ٹیپ کررہی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت اس معاملے کو بھی غیرملکی سازش قرار دے کر کمزور کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ اس جاسوسی اسکینڈل کا انکشاف کرنے والوں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی اخبار ’ واشنگٹن پوسٹ‘ کا اشتراک ہے ۔اس لیے اس سے وابستہ حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انھیں جھٹلایا جاسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی میڈیا تنظیم’ فوربڈن اسٹوریز‘ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کو پچاس ہزار سے زیادہ فون نمبروں کی فہرست تک رسائی ملی ہے، جو اسپائی وئیر بنانے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ وئیر پیگاسس کو استعمال کرنے والے ملکوں کے ممکنہ اہداف تھے۔ اس کمپنی کا سب سے معروف سافٹ وئیر ’ پیگاسس‘ ہے جوکہ ایپل کمپنی کے آئی فون اور اینڈرائڈ فون تک خفیہ طریقے سے رسائی حاصل کرکے ان کی جاسوسی اور نگرانی کرسکتا ہے۔ کمپنی کے مطابق ان کا یہ اسپائی وئیر دنیا کے40 ملکوں میں 60 حکومتی صارفین کے استعمال میں ہے۔ ’ واشنگٹن پوسٹ ‘ کے مطابق این ایس اوکمپنی کے 750 ملازمین ہیں اور گزشتہ برس کمپنی کی سالانہ آمدنی 24 کروڑ ڈالرسے زیادہ تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پیگاسس خریدنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے، کیونکہ اس کی خرید وفروخت کی تمام دستایزات مکمل طورپر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ پیگاسس بنانے والی کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا سافٹ وئیر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور کمپنی اس سافٹ وئیر کو صرف ان ہی ملکوں کو فروخت کرتی ہے جو انسانی حقوق کے بارے میں اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں۔ یہ سافٹ وئیر ای میل یا میسیج بھیجے جانے والے لنک پرکلک کرتے ہی جاسوسی کرنے والے کو متاثرہ فون تک مکمل رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فون کا کیمرہ ، مائک وغیرہ استعمال کرکے فون پر یا اس کے قریب ہونے والی بات چیت سن اور ریکارڈ کرسکتا ہے۔ ا س سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس کسی کے فون میں یہ اسپائی وئیر لوڈ ہوجاتا ہے اس کی ہر سرگرمی اور نقل وحرکت جاسوسی کرنے والوں تک براہ راست پہنچتی ہے ۔
اسرائیلی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ جاسوسی سافٹ ویئر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی نگرانی کے لیے ایجاد کیا ہے ، لیکن جو نام منظر عام پر آئے ہیں ان میں نہ تو کوئی دہشت گرد ہے اور نہ ہی جرائم پیشہ بلکہ اس کی زد میں آنے والے تمام ہی لوگ یا تو حکومت کے سیاسی مخالفین ہیں یا پھر اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔اس جاسوسی کا شکار ہونے والے کانگریسی لیڈرراہل گاندھی کا کہنا ہے کہ’’ پیگاسس ایک سافٹ وئیر ہے جس کی اسرائیل کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کئے جانے کی درجہ بندی کی گئی ہے، مگر وزیراعظم اور وزیرداخلہ امت شاہ نے اس ہتھیار کا استعمال ریاست ہند اور جمہوری اداروں کے خلاف کیا ہے۔‘‘ راہل گاندھی نے اس معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا طلب کیا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت اپنے سیاسی یا نظریاتی مخالفین کی جاسوسی کرتی ہوئی پائی گئی ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ہوئے ، لیکن فرق یہ ہے کہ اس وقت حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کی اور اس کا مداوا بھی ہوا ، لیکن فی الوقت اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
کیونکہ یہ حکومت کھلے عام جمہوری آزادیوں پر حملہ آور ہے۔
جہاں تک قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے کسی کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کا سوال ہے توحکومت کے پاس اس کی محدود طاقت موجود ہے، لیکن ہیکنگ کرنا ہندوستان میں قابل سزا جرم ہے۔ ہندوستانی ٹیلی گراف ایکٹ 1885کی دفعہ5 (2) اور آئی ٹی ایکٹ مجریہ 2000 کی دفعہ 69ملک کی سلامتی، تحفظ، دیگر ملکوں سے دوستانہ تعلقات یا عوامی نظام کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں ٹیلی فونک گفتگو اور الیکٹرانک ڈاٹا کو انٹرسیپٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔حالانکہ اس طاقت کے استعمال کو سپریم کورٹ نے 1996 کے ایک مقدمے میں محدود کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ کہ انٹرسیپشن کا حکم صرف مرکزی داخلہ سیکریٹری یا صوبائی حکومتوں کے داخلہ سیکریٹری ہی دے سکتے ہیں۔ انھیں ایک ہفتے کے اندر ایک جائزہ کمیٹی کو بھیجنا ضروری ہے، جس میں انٹر سیپٹ کئے گئے لوگوں کی تفصیل ہو۔ نگرانی کی دو ماہ کی مدت طے کی گئی ہے ، جسے 6 ماہ سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہیکنگ ہندوستان میں غیرقانونی ہے، سوائے اس کے کہ قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔ لیکن اس معاملے میں ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کے موبائل کی جاسوسی کی گئی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔جاسوسی آئی ٹی ایکٹ میں ایک جرم ہے جس کے لیے تین سال کی سزا یا پانچ لاکھ تک کا جرمانہ یا دونوں کی گنجائش ہے۔کسی اور کے فون کو کنٹرول کرنا یا اسپائی وئیر سے ہیکنگ واضح طورپر نجی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے پیگاسس جیسے جاسوسی وئیر سے نگرانی بھی غیرقانونی ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں