عہدہ کی طلب جائز نہیں لیکن اگر مجھے امیر شریعت بنایا جاتا ہے تو بزرگوں کی امانت کو بچانے کیلئے تیار ہوں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

نئی دہلی: (سفیان سیف؍ملت ٹائمز) معروف عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے کار گزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ امارت شریعت کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے امیر شریعت کا عہدہ قبول کرنے کو تیار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہار میں امیر شریعت کے حوالے سے بہت زیادہ اختلافات ہیں اور یہاں کے مسلمان اور ارباب حل وعقد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے یہ ذمہ داری سونپنے کے بعد انتشار ختم ہو جائے گا تو ہم انشاء اللہ تعالی اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کریں گے۔
مولانا نے انٹرویو کے درمیان یہ بھی کہا کہ اسلام میں عہدہ کی طلب جائز نہیں ہے اور وہ لوگ جو عہدہ طلب کرتے ہیں انہیں کوئی عہدہ نہیں دیا جانا چاہیے تاہم میں یہاں دیکھ رہا ہوں کہ بہت زیادہ اختلاف اور انتشار پایا جارہا ہے ایسے میں اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں امیر شریعت کی یہ ذمہ داری نبھاؤں تو انشاء اللہ تعالی میں پوری کوشش کروں گا کہ بزرگوں کی اس امانت کی حفاظت کر سکوں حالانکہ ایسی میری کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ پہلے تھی‌ ۔
واضح رہے کہ میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کی ایک مشترکہ تنظیم ہے جس کی عمر سو سال ہو چکی ہے اور یہاں امیر شریعت کا عہدہ سب سے کلیدی ہوتا ہے۔ ساتویں امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحب کے انتقال کے بعد یہ جگہ خالی ہے اور آٹھ اگست کی تاریخ میں امیرشریعت کے انتخاب کے لئے طے کی گئی ہے۔ امیر شریعت کا انتخاب ارباب حل و عقد کرتے ہیں جس کی تعداد 800 سے زیادہ ہے ہے اور تینوں صوبوں کے مختلف اضلاع سے ان کا تعلق ہوتا ہے ، مانا جاتا ہے کہ ارباب حل و عقد ان تینوں صوبوں کے تمام مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔
مولانا رحمانی نے اپنے انٹرویو میں امیر شریعت کے انتخاب کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ پٹنہ کی ایک مسجد میں ڈاکٹر احمد عبدالحی کے ساتھ بھی ایک میٹنگ کے دوران مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ امیرشریعت بننے کو تیار ہیں۔ ہم آپ کو بتادیں کہ چند دنوں پہلے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا تھا کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے امیر شریعت کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا بیان سامنے آنے کے بعد امارت شرعیہ کی طرف سے بھی ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں مولانا رحمانی کے بیان پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ امارت کے ممبر ہیں اور جب وہ امارت شرعیہ کے دفتر میں آئے تھے تو انہوں نے انتخاب کے طریقہ پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر مولانا کو انتخاب کے طریقہ پر اعتراض تھا تو انہیں یہاں گفتگو کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے یہ گفتگو نہیں کی اور میڈیا میں آکر ایسی باتیں کر رہے ہیں جس سے مزید انتشار بڑھے گا۔ تین دن قبل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر گئے تھے تھے جہاں نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی نے ان کا والہانہ استقبال کیا تھا اس کے علاوہ پٹنہ میں مولانا نے دیگر سرکردہ شخصیات سے بھی ملاقات کی اور صحافیوں سے بھی انہوں نے بات چیت کی ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا بیان سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے جب خواہش کا اظہار کردیا ہے تو اب بغیر کچھ سوچے ہوئے امیر شریعت ثامن کے لیے ان کے نام کا اعلان کر دیا جائے اور اب انتخاب کرانے کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ اس سے زیادہ موزوں شخصیت بہار میں اب کوئی اور نہیں ہے کچھ لوگ اعتراض بھی کر رہے ہیں کہ مولانا کو خود خواہش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا معترضین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مولانا بہار میں مقیم نہیں ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی امارت شرعیہ کی عظیم شخصیتوں میں شامل حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔ دربھنگہ کا جالے گاؤں آپ کا آبائی وطن ہے۔ مولانا طویل عرصے سے حیدرآباد میں مقیم ہیں اور معروف ادارہ المعھد العالی الاسلامی حیدر آباد کے بانی ہیں ، اس کے علاوہ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے سکریٹری جنرل، انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے کارگزار جنرل سکریٹری اور دیگر کئی اہم اداروں کے آپ ذمہ دار اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔
امارت شرعیہ کے نئے امیر شریعت کے لیے جن شخصیات کا نام سامنے آ رہا ہے ان میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے علاوہ سابق امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کے بیٹے مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مفتی نذر توحید وغیرہم کے نام سرفہرست ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ انہیں ناموں میں سے کسی ایک کو ارباب حل و عقد امیر شریعت منتخب کر سکتے۔