دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا عبدالخالق سنبھلی کا طویل علالت کے بعد انتقال، علمی حلقہ سوگوار

دیوبند: (ایس چودھری) دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی کا آج ساڑھے تین بجے انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم کافی دنوں سے علیل تھے ۔ بیچ میں طبیعت میں کچھ افاقہ بھی ہوا تھا لیکن ادھر دو تین دنوں سے حالت سنگین تھی۔ اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ مولانا خلیل الرحمان قاسمی برنی کی تحریر کے مطابق ’’مولانا محترم کی پیدا ئش قصبہ سنبھل،ضلع مراد آباد میں۴‘جنوری ۱۹۵۰ کو ہو ئی، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی نصیر احمد تھا جو کہ ایک خوش اطوار، خو ش مزاج، رقیق القلب، متواضع، سادگی پسنداور تمکنت سے خالی انسان تھے، وہ ایک خوش گو شا عر بھی تھے۔آپ نے اپنے گھر کے قریب مدرسہ ‘ خیر المدارس سے تعلیم کا آغازکیا۔ اس وقت وہاں حضرت مفتی محمد آفتاب علی صاحب مدرس تھے،کچھ دنوں بعد حضرت مفتی آفتاب علی خان صاحب ‘مدرسہ شمس العلوم منتقل ہو گئے، تو آپ بھی وہیں چلے گئے۔ اس مدرسہ میں آپ نے حافظ فرید الدین صاحب سے قرآن کریم حفظ کی تکمیل کی۔ فارسی اور ابتدائی عربی سے شرح جا می تک کی تمام کتب حضرت اقدس مو لانا مفتی محمد آفتا ب صاحب سے پڑھیں اور پھر ۱۹۶۸میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین طباع اور غیر معمولی دماغی قوت و صلاحیت سے معمور تھے، اس لئے زمانہ طا لب علمی میں ہی ‘دارالعلوم دیوبند پہونچ کر آپ کے علمی گوہر کھلنے لگے، اور اسی بنیاد پر آپ ہمیشہ اپنے ہم درسوں اور ہم چشموں سے ممتاز رہے، کم وبیش پانچ سال آپ دارالعلوم دیوبند میں رہے اس دوران آپ نے اپنے تمام اوقات کو تعلیمی مشاغل میں ہی صرف کیا،اسباق کی پا بندی، مطا لعہ میں انہماک، اساتذہ وآلات علم کا مکمل احترام اور اعمال پر مواظبت جیسے عمدہ اوصاف آپ کی علامت تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ قیام میں کتب متداولہ کی تکمیل وقت کے عباقرہ ٔ فن اور اساطین علم کے سامنے ہو ئی، جس میں بخاری شریف حضرت مو لانا فخرالدین صاحب مرادآبادی ؒ،حضرت مو لانا قاری محمد طیب صاحب ؒ،حضرت مو لانا مفتی محمود الحسن صاحب ؒ اور حضرت مولانا شریف الحسن صاحب سے پڑھی، حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب ؒ سے طحاوی شریف اور التصریح پڑھی۔ ۱۹۷۲ دورہ حدیث شریف میں تیسری پو زیشن سے کا میا بی حاصل کی۔ ادب سے دلچسپی شروع ہی سے تھی اس لئے ہمیشہ امتحان کے جوابات عربی میں لکھے، فراغت کے بعدایک سال تکمیل ادب میں رہ کر حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانویؒ سے خصوصی استفادہ کیا۔ آپ کی تد ریسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۳میں ‘خادم الاسلام،ہا پوڑ سے ہوا، چھ سال تک آپ اپنی علمی ضیا پا شیوں سے خادم الاسلام کی فضاء کو منور کر تے رہے،اس دوران آپ کی تدریسی صلاحیت، عمدہ استعداد اور تبحر علمی کے چرچے بہت دور تک ہو نے لگے تھے۔۱۹۷۹ میں مدرسہ جا مع الہدی مرادآباد کی خد مات کے لئے منتخب کئے گئے، یہاں ۳/ سال تک بحسن وخوبی تدریسی خد مات انجام دیں۔اس کے بعدآپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کے لئے منتخب کر لئے گئے، دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ۱۹۸۲میں ہوا اس وقت سےآج تک ۳۹ سال تک دارالعلوم کی خدمت کی۔ مولانا کامیاب مدرس، بہترین قلم کار ہونے کے ساتھ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ آپ کی تقریریں صاف شستہ سلجھی ہو ئی اور مؤثر ہوتی تھیں متعدد مر تبہ آپ دارالعلوم دیوبند کے ناظم امتحان رہے اور برسوں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم بھی رہے۔آپ نے کئی مو ضوعات پر قلم اٹھا یا ہے، چنانچہ کئی عمدہ کتا بیں آپ کے رشحات قلم سے صادر ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اور علمی حلقوں سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں،ان میں فتاوی عالمگیری جز ۵۱/ (کتاب الایمان) کا تر جمہ تحسین المبانی فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ، عبد المجید عزیز الزندانی الیمنی کی کتاب ‘ التوحید کا تر جمہ جو تقریباً 500/صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل رد مودودیت پر محاضرے جو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے شائع کئے گئے‘‘۔ علم و عمل کا یہ حسین سنگم ۳۰؍ جولائی ۲۰۲۱ کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین