ممتا بنرجی کا ’ مشن 2024 ‘

معصوم مرادآبادی
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی 2024 میں مودی سرکار کو زبردست ٹکر دینے کے لیے میدان میں اترچکی ہیں۔ انھوں نے راجدھانی دہلی میں اپوزیشن کے اہم لیڈران سے ملاقاتیں کرکے اپنے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا ہے ۔ ممتا بنرجی اپوزیشن اتحاد کے ایک ایسے خواب کی تعبیر ڈھونڈ رہی ہیں ، جو ہمیشہ سے پریشاں کن رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں اپوزیشن میں اتنا تال میل ضرور پیدا ہوجائے کہ ہرحلقہ انتخاب میں بی جے پی امیدوار کے خلاف اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار میدان میں اترے اور سیکولر ووٹ منتشر نہ ہوں۔ ظاہر ہے یہ خیال اگر حقیقت میں تبدیل ہوا تو واقعی بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی اوراس کے امیدواروں کے لیے اپنی ضمانتیں بچانا مشکل ہوگا، لیکن یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس خواب کو کیسے شرمندہ تعبیر کیا جائے گا۔ دراصل اپوزیشن اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی اڑچن یہ ہے کہ ہر اپوزیشن لیڈر وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے اور وہ کسی دوسرے کی قیادت قبول نہیں کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کی یہی خواہش ان کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی رہی ہے ۔ماضی میں اس کے کئی تلخ تجربات ہوچکے ہیں۔
2004 میں کانگریس نے یوپی اے اتحاد کا کامیاب تجربہ کیا اور منموہن سنگھ کی قیادت میں یوپی اے سرکارنے دس سال پورے کئے ۔اس کے بعد بی جے پی نے جب سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے تب سے اپوزیشن کے کسی ایسے اتحاد کی صورت گری نہیں ہوسکی ہے جو بی جے پی کو چیلنج دے سکے ۔یہی وجہ ہے کہ آج بی جے پی خود کو اس ملک کے سیاہ سفید کا تنہا مالک سمجھنے لگی ہے اور وہ اپوزیشن کو خاطر میں ہی نہیں لاتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دوران اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔مغربی بنگال کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست فاش کے بعد اپوزیشن میں ایک نئی توانائی دیکھنے کو ملی ہے۔ اسی سے تحریک پاکرممتا بنرجی میدان میں اتری ہیں اور انھوں نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہے ۔ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے مشن پر گامزن ہونا چاہتی ہیں۔ حالانکہ 2024 کا ہدف ابھی دور ہے ، لیکن ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ آئندہ سال برپا ہونے والے سات صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس اتحاد کو بروئے کار لائیں اور بی جے پی کوان ریاستوں میں بنگال کی طرح شکست فاش سے دوچار کریں۔
عام خیال یہ ہے کہ ممتا بنرجی یہ ساری تگ ودو وزیراعظم بننے کے لیے کررہی ہیں ، لیکن جب ان سے اس بابت پوچھا گیا تو انھوں نے صاف کہا کہ وہ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ اس مشن میں ایک عام سیاسی کارکن کے طور پر شامل ہورہی ہیں۔ انھوں نے اخبارنویسوں سے گفتگو کے دوران اس بات کو دہرایا کہ وہ خود کو نریندر مودی کے مقابل اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے طورپر پیش نہیں کررہی ہیں بلکہ وہ ایک عام سیاسی کارکن کے طور پر پورے اپوزیشن کو سرکار کے خلاف لڑائی کے لیے متحد و مستعد کرنا چاہتی ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا چناؤمیں لیڈر کے سوال پر انھوں نے واضح کیا کہ اس کا فیصلہ ساری سیاسی پارٹیاں مل کرمناسب وقت پر کریں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فیصلہ چناؤ کے بعد ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بی جے پی مخالف سبھی پارٹیوں کے لیڈران سے تو مل رہی ہیں، ساتھ ہی وہ غیر بی جے پی پارٹیوں کے ان لیڈران اور وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقاتیں کریں گی جو غیرجانبدار ہیں اور وقتاً فوقتاً پارلیمنٹ میں بی جے پی کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ انھیں نوین پٹنائک ، جگن ریڈی اور چندرشیکھر راؤ جیسے لیڈروں سے ملنے میں بھی کوئی گریز نہیں ہے۔ جب ان سے نتیش کمار کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک وہ بی جے پی کے ساتھ ہیں تب تک ان سے کوئی بات چیت ممکن نہیں ہے۔
ممتا بنرجی میں اس وقت بلا کی خوداعتمادی ہے۔ انھوں نے جس طرح مغربی بنگال کی سرزمین پر بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا ہے ، اس سے قومی سیاست میں ان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔ مغربی بنگال کے انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی سیاسی مبصرین نے کہا تھا کہ 2024 کے عام چناؤ کے لیے اپوزیشن کو ایک چہرہ مل گیا ہے اور وہ آئندہ لوک سبھا چناؤ میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے اپوزیشن کی ایک مضبوط امیدوار ہوں گی۔ اس الیکشن کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے لیے جس طرح وقار کا مسئلہ بنالیا تھا اور بار بار وہاں جاکر ’’ دیدی او دیدی ‘‘ کی گردان کررہے تھے، اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ چناؤ ممتا اور مودی کے درمیان ہے۔ نتائج نے یہ ثابت کیا کہ وزیراعظم مصنوعی طریقوں سے لاکھ اپنی برانڈنگ کریں لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کے باشعور عوام نے وزیراعظم مودی کے مقابلے میں وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو ترجیح دی۔
سبھی جانتے ہیں کہ بنگال کی سرزمین پر ممتا کو شکست دینے کے لیے بی جے پی نے ہر وہ ہتھکنڈہ اختیار کیا، جو اس کی دسترس میں تھا۔ نوٹوں کی بارش ہوئی۔ ترنمول کانگریس کے لوگوں کو توڑا گیا اور ممتا بنرجی کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ، لیکن جب نتائج برآمد ہوئے تو سب دھول ہی دھول تھی ۔ ممتا پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر تیسری بار اقتدار میں آئیں اور بی جے پی ہاتھ ملتی رہ گئی۔ ان کی پارٹی کے جن لوگوں کو بی جے پی نے سبز باغ دکھاکر توڑا تھا، ان میں سے بیشتر کی ’ گھرواپسی‘ ہوئی۔ ممتا کی کامیابی کے بعد ان کے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے سی بی آئی اور ای ڈی کا بھی سہارا لیا گیا، لیکن ترنمول کانگریس کے لوگ خوفزدہ نہیں ہوئے اور انھوں نے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔
ممتا بنرجی نے جس انداز میں اپنی ریاست میں بی جے پی کے چیلنج کو قبول کرکے اسے وہاں دھول چٹائی اب وہ اسی طرح کی دھول بی جے پی کو پورے ملک میں چٹانا چاہتی ہیں۔ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دہلی میں پانچ دن گزارے۔ حالانکہ انھوں نے اس دوران وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی اوربنگال کو زیادہ مقدار میں کورونا ویکسین فراہم کرنے اور پوگاسس معاملے کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کا بھی مطالبہ کیا، لیکن ان کا اصل مقصد اپوزیشن رہنماؤں سے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے علاوہ این سی پی صدر شردپوار، راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر لالو پرساد یادو اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال سے بھی تبادلۂ خیال کیا ۔ انھوں نے کانگریس لیڈر کمل ناتھ اور آنند شرما سے بھی ملاقات کی اور اس دوران راجدھانی کے سرکردہ اخبار نویسوں کو مدعو کرکے سارے ٹیڑھے ترچھے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات بھی دئیے۔ مجموعی طور پر ان کا یہ پانچ روزہ دورہ بہت کامیاب رہا۔
اگر آپ ان کی حکمت عملی جاننا چاہیں تو اس کا نچوڑ یہ ہے کہ و ہ وزیراعظم نریندرمودی اور بی جے پی کو بنگال ماڈل سے ٹکر دینا چاہتی ہیں۔ وہ اپوزیشن اتحاد کے ذریعے بی جے پی کو 375 سیٹوں پر سیدھے چنوتی دینے کی تیاری میں ہیں۔ وہ ان میں سے 200 سیٹوں پر کانگریس کو واک اوور کی تجویز دے سکتی ہیں۔ ممتا کے مشن 2024 کا اصل مقصد بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ اس کام کے لیے سونیا ، شردپوار اور ممتا ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف اتحاد کا پیغام دیں گے۔ اس کا آغاز اترپردیش سے ہوگا ، جہاں اگلے سال کے شروع میں چناؤ ہونے والے ہیں۔ مقصد صاف ہے کہ 2022 میں سات صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو دھول چٹائی جائے۔ملک بھر میں 375 لوک سبھا سیٹیں ایسی ہیں، جہاں بی جے پی مقابلے میں ہے۔ ان میں 200 سیٹیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی اور کانگریس کی سیدھی ٹکر ہے۔ ان سیٹوں پر اپوزیشن کانگریس کی حمایت کرے۔ وہیں کانگریس ایسے صوبوں میں دخل نہ دے جہاں دوسری پارٹیاں بی جے پی کو سیدھی ٹکر دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس مہم کا سب سے بڑا نعرہ ’’ بی جے پی کو ووٹ نہیں‘‘ ہوگا۔ اس کے تحت بی جے پی کے مضبوط صوبوں میں اس کے امیدواروں کو سیدھی ٹکر دی جائے گی۔ جبکہ غیربی جے پی اقتدار والے صوبوں میں غیربی جے پی اتحاد کی پارٹیوں کو حمایت دی جائے گی۔ اس مہم کے دوران مذہبی ، جذباتی اور جارحانہ قوم پرستی جیسے موضوعات کا جواب مہنگائی، پوگاسس،کسان تحریک، بے روزگاری، کورونا وبا جیسے زمینی موضوعات سے دیا جائے گا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں