مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا نیا شوشہ

 دہلی کی جھلستی گرمی اور حبس سے چھٹکارا پانے کے لیے میں ہماچل پردیش کے ہرے بھرے پہاڑوں میں پناہ لینے کے لیے پہنچی تھی۔ بطور صحافی دوران سفر کان اور آنکھیں کھول کر رکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔

روہنی سنگھ، نئی دہلی
اس سفر کے دوران ٹرین کی کھڑکی سے کہیں دور سے ایک مسجد کے میناروں سے اذان کی آواز آ رہی تھی۔ تو پاس بیٹھے ایک شخص نے لقمہ لگایا، ”یہ لوگ (مسلمان) کئی کئی شادیا ں کر کے پچیس پچیس بچے پیدا کر کے اس ملک کا بیڑا غرق کرنے پر تلے ہیں۔ ویسے ہی اتنی زیادہ آبادی ہے، یہ پوری خوراک ہضم کر جاتے ہیں۔” اتنا تو یقین ہو گیا کہ ادھیڑ عمر کا یہ آدمی اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور سوشل میڈیا کی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے۔ میں نے اپنا رخ اس کی طرف کر کے پوچھا کہ انکل آپ کا کیا کوئی مسلمان دوست ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جواب نفی میں تھا۔
میں نے پھر پوچھا کہ جس آفس میں آپ کام کرتے ہیں، تو وہاں کوئی مسلمان تو ہو گا یا جس علاقے میں آپ رہتے ہیں، وہاں آس پاس کوئی مسلم آبادی تو ہو گی؟  معلوم ہوا کہ ان کے دفتر میں چپراسی اور چوکیدار مسلمان ہیں اور ان کی محلے میں بھی چند مسلم گھرانے ہیں۔ میں نے بات آگے بڑھانے کے لیے کہا کہ ان کے دفتر کے چوکیدار اور چپراسی کی کتنی بیویاں اور بچے ہیں اور ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں جو مسلم گھرانے ہیں ان کے ہاں کتنے بچے ہیں؟  وہ اس پر اپنی بغلیں جھانکنے لگے۔ میں نے کہا کہ آپ اتنی بڑی بات اس طرح چھوڑ کر پہلے تصدیق کیوں نہیں کرتے ہو؟
پرانے زمانے میں مسلمان کیا ہندو ایک قبائلی سسٹم اور دیہاتوں میں کھیتی وغیرہ کے لیے سبھی کو زیادہ افراد کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لیے زیادہ بچوں کا مطلب مضبوط قبیلہ اور کھیتی باڑی کے لیے زیادہ ہاتھ ہونا ہوتا تھا۔ کیا رامائن کے اہم کردار بھگوان رام کے والد راجہ دشرتھ کی چار بیویاں نہیں تھیں؟ کئی اور ہندو اساطیری کہانیوں کے کرداروں کی بھی تو ایک سے زائد بیویاں ہوتی تھیں۔
چونکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم انتخابی ایشو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا اور ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر عالیشان رام مندر تعمیر کرنا اب مکمل ہو چکے ہیں، اس لیے اب اس کے لیڈران کوئی نیا ایشو کھڑا کرنے کی کوشش میں ہیں، جس سے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ووٹ بٹور سکیں۔
بی جے پی کی قیادت میں متعدد صوبائی حکومتوں نے ان دنوں آبادی کنٹرول سے متعلق قوانین بنانے کی کوششیں شروع کیں ہیں۔ ادھر پارلیمنٹ کے رواں مون سون اجلاس میں بھی بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ نجی بل لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگلے سال اتر پردیش میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہندو مسلم شادیوں پر پابندی عائد کرنے اور آبادی کو کنٹرول کرنے والا قانون لا کر اور مسلمانوں کو معتوب بنا کر وہ انتخابات کے لیے ماحول تیار کر رہے ہیں۔
اس قانون کی رو سے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے خاندانو ں کے لیے سرکاری اسکیموں سے فائدہ حاصل کرنے پر پابندی عائد ہو گی اور وہ انتخابات بھی نہیں لڑ سکیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لیڈر اس مجوزہ قانون کا اعلان کر رہا تھا اور بتا رہے تھا کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا، اس لیڈر کے اپنے آٹھ بچے ہیں۔ خود اترپردیش اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے 152اراکین کے تین سے زیادہ بچے ہیں۔ دیکھنا ہوگا اب اس قانون کے بعد وہ ان بچوں کا کیا کریں گے؟
وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ 2024ء  کے عام انتخابات میں وزارت اعظمیٰ کے بھی امیدوار ہیں۔ لیکن اتر پردیش میں کورونا وباء سے نمٹنے میں ناکامی اور نظم و قانون کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے ان کے سیاسی قد کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ کوئی ایسی کارکردگی نہیں ہے، جس کی بنیاد پر ووٹ مانگے جا سکیں یا وہ اپنے آپ کو نریندر مودی کا جانشین ثابت کر سکیں۔ ان کے لیے زعفرانی لباس پہن کر ہندو ووٹروں کو رام کرنا ہی مشکل ہو رہا ہے۔
ترقیاتی اور سرکاری فلاحی منصوبوں میں وہ صفر ہی کیوں نہ ہوں، صوبے کی  79.73فیصد ہندو آبادی کو  19.26فیصد مسلمانوں کے خلاف کو بھڑکانا ان کو ایک آسان ہتھیار لگتا ہے۔ آدتیہ ناتھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمت بسوا سرما نے تو پہلے ہی اسمبلی انتخابات میں ‘ہندو بنا مسلمان‘ اور بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کی حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر ہندو علاقوں میں گوشت فروخت کرنے پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ کیا گوشت صرف مسلمان ہی کھاتے ہیں؟ میرا تجربہ تو ہے کہ ہندوؤں کو بھی گوشت کے سالن اور بریانی سے اتنی ہی محبت ہے، جتنی کسی اور کو۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول نہیں کیا گیا، تو چند برسوں میں ہی ہندو بھارت میں اقلیت بن جائیں گے۔ ان کو اب کون بتائے کہ مسلم حکمرانوں کے ایک ہزار سالہ دور اور پھر برطانیہ کے دو سو سالہ اقتدار میں، جب بھارت میں ہندو اقلیت میں نہیں پہنچے تو اب وزیراعظم نریندر مودی کے دور میں ان کی آبادی کو کیسے خطرہ ہے؟ ایک ہزار سال حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں کا تناسب آبادی میں 20 فیصد سے کم ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کو بھی جوڑا جائے، پھر بھی ہندو آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
ماہر بشریات بتاتے ہیں کہ زیادہ بچوں کا رجحان غریبوں میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کو کمانے کے لیے کئی ہنر مند ہاتھ چاہیں۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہاتھوں کی ضروت پڑتی ہے۔ اس کا کسی کے فرقہ یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت پر سچر کمیٹی اور اس کے بعد کی دیگر رپورٹوں
میں چونکہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں وہ صحت، تعلیم اور فی کس آمدنی کے معاملے میں خاصے پیچھے ہیں، اس لیے اس طبقے میں زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان ہے۔ قومی اوسط 64.8 فیصد خواندگی کے نسبت، مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 59.1 فیصد ہے۔ حکومت سے متعلقہ ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی شرکت انتہائی کم ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غربت کی سطح سے نیچے رہنے والوں کی آمدن کو بڑھانے اور ان کو مڈل کلاس میں پہنچانے سے ہی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مانع حمل فارمولہ ہے۔ تعلیم اور اعلی معیار زندگی کا کم بچے پیدا کرنے کے ساتھ براہ راست رشتہ ہے۔ لیکن حکومت اس عام فہم وضاحت کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور ترقی پر توجہ دینے کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت کو قائم رکھنے میں ہی فائدہ محسوس کرتی ہے۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دو بچوں کے اصول کو نافذ کرنے سے طلاق کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ اس سے خواتین کے حمل گرانے کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا اور اس سے جنسی تناسب کم ہو جائے گا۔ عالمی سطح پر بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ جب چینی حکومت نے ایک بچے کے اصول کو نافذ کیا تھا، تب بہت سے چینی خاندانوں نے بیٹے کی خواہش میں مادہ حمل گرانا شروع کر دیے تھے۔ چین کے علاوہ کسی بھی ملک نے بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی ہے۔
کسی ایک فرقے کو نشانہ بنانے کے بجائے حکومت کو عوام کا معیار زندگی بلند کر نے پر توجہ دینی چاہیے، جس سے خود ہی خاندان چھوٹے ہو جائیں گے اور ملک بھی خود کفیل ہو جائے گا۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے، جب فرقہ وارانہ بنیادوں پر کھڑی سیاست کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی، جس کے امکانات فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔