شمع فروزاں : مولانا خالد سیف ﷲ رحمانی
آپ اکے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی رعایت کا حال یہ تھا کہ بعض اوقات مسجد نبوی میں خواتین کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے بھی آجاتے تھے اور بچے اپنی عادت کے مطابق رونے لگتے تھے ، آپ اان کی وجہ سے اپنی نماز مختصر کردیتے تھے ؛ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا : بعض دفعہ میں طویل قرأت کرنا چاہتا ہوں ؛ لیکن جب بچوں کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو مختصر کردیتا ہوں کہ اس سے ان کی ماؤں کو تکلیف نہ ہو : ’’ قال صلی ﷲ علیہ وسلم : إنی لأدخل فی الصلاۃ وأنا أرید إطالتھا فأسمع بکاء الصبی فأ تجوز فی صلا تی مما أعلم من شدۃ وجد أمہ من بکاۂ‘‘ (بخاری ، باب من أخف الصلاۃ الخ ، حدیث نمبر : ۶۷۷) آپ اکے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپ انے ان کو مخاطب بناتے ہوئے فرمایا :
اے ابراہیم ! اگر موت برحق بات نہیں ہوتی ، اللہ کا وعدہ سچا نہیں ہوتا، اور ایک دن سب کو جمع کرنے والا نہیں ہوتا، عمر محدود نہیں ہوتی اور وقت مقررہ طے نہیں ہوتا ، تو تمہاری جدائی پر مجھے اس سے بھی زیادہ غم ہوتا ، اے ابراہیم ! ہم غم زدہ ہیں ، آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل غمگین ہے ؛ لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتے ، جو پروردگار کو ناراض کردے ۔
پھر حضرت ابراہیمؓ کی وفات کے بعد آپ انے لوگوں سے کہا : جب تک میں اسے دیکھ نہ لوں ، کفن میں نہ لپیٹنا ، آپ تشریف لائے ، ان پر جھک گئے اور رونے لگے ، ( مسلم ، کتاب الفضائل ، باب رحمۃ الصبیان الخ ، حدیث نمبر : ۲۳۱۵) آپ اپنے ایک نواسے کے انتقال کے وقت تشریف لائے ، بچہ آخری سانس لے رہا تھا ، آپ انے اسے ہاتھوں میں لیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ، حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ انے فرمایا : یہ وہ جذبۂ رحم ہے ، جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے ، اللہ کے بندوں میں جو رحم دل ہوتا ہے ، اسی پر اللہ رحم فرماتے ہیں ، ( بخاری ، عن اسامہ بن زید ، حدیث نمبر : ۱۲۳۸) اسی طرح بال بچوں کی صحت اور اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی دیکھ ریکھ کا بھی خیال کرتے تھے ، غزوۂ بدر کا موقع ایسا موقع تھا ، جب ایک ایک فرد کی اہمیت تھی ؛ لیکن اس وقت حضرت رقیہؓ بہت علیل تھیں ، وہ حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں تھیں ، آپ نے حضرت رقیہؓ کی تیمارداری کے لئے حضرت عثمانؓ کو مدینہ میں چھوڑ دیا ، (الإستیعاب فی معرفۃ الإصحاب : ۲؍ ۹۵ ، السیرۃ النبویۃ: ۲؍۵۰۹) گھر کے چھوٹے بچوں کو آپ دم بھی کیا کرتے تھے ؛ چنانچہ حضرت حسنؓ و حسینؓ کو دم کرتے ہوئے یہ دُعا پڑھتے تھے :
أعیذ کما بکلمات ﷲ التامۃ من کل شیطان وھامۃ ومن کل عین لامۃ ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۱۹۱)
میں تم دونوں کو اللہ کے مکمل کلمات کے واسطہ سے ہر شیطان ، موذی جانور اور تکلیف پہنچانے والی نظر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔
جہاں آپ ابچوں کے ساتھ شفقت و محبت اور بے تکلفی کا معاملہ فرماتے ، وہیں ان کی دینی اور اخلاقی تربیت پر بھی پوری توجہ فرماتے تھے ؛ چنانچہ آپ انے فرمایا : اپنے بچوں کو عزت دیا کرو اور ان کو بہتر ادب سکھاؤ : ’’ أکرموا أولادکم واحسنوا أدبھم‘‘ ( ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۶۷۱) حضرت حسنؓ نے ایک بار زکوٰۃ کی کھجور میں سے ایک کھجور کھانی چاہی تو آپ انے ان کو منع فرمادیا ، ( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۰۷۹)بعض روایات میں ہے کہ حضرت حسنؓ و حسینؓ نے کھجوریں اپنے منھ میں رکھ لی تھیں ، آپ نے ان کے منھ سے اُگلوا دیں اور فرمایا : تمہیں معلوم نہیں کہ آلِ محمد زکوٰۃ نہیں کھاسکتے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۴۲۵) حضرت عباسؓ کے صاحبزادے حضرت فضلؓ زمانۂ جاہلیت کے رواج کے مطابق نظر بد سے حفاظت کے لئے دھاگہ لٹکائے ہوئے تھے اور اس وقت بہت کم عمر تھے ، آپ نے اس دھاگے کو توڑ دیا ۔ (مصنف عبد الرزاق ، حدیث نمبر : ۲۰۳۴۲)
قربانی کے موقع سے حضرت فاطمہ سوئی ہوئی تھیں ، آپ ان کے پاس تشریف لے گئے ، ان کو بیدار کیا اور فرمایا : اُٹھ جاؤ اور اپنی قربانی کے وقت موجود رہو ، ( سنن بیہقی ، حدیث نمبر : ۱۸۹۴۴) ایک موقع پر جب آپ اکے پاس ڈھیر سارا مالِ غنیمت آیا ہوا تھا ، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا : مشکیزے کھینچنے کی وجہ سے میں اپنے سینے میں تکلیف محسوس کرتا ہوں ، حضرت فاطمہؓ نے کہا : چکی پیستے پیستے مجھے بھی تکلیف ہو رہی ہے ، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا : حضور اسے ایک خادم مانگ لو ، بعض روایتوں کے مطابق دونوں خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، آپ انے فرمایا : تم لوگ مجھ سے خادم مانگنے کے لئے آئے ہو ؟ میں تم کو اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں ، اور وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد ۳۳ ؍ دفعہ سبحان اللہ ۳۳؍ دفعہ الحمد للہ اور ۳۴ ؍ دفعہ اللہ اکبر پڑھا کرو ، اور جب رات میں بستر پر جاؤ ، اس وقت بھی پڑھ لو ، اس طرح کل سو تسبیحات ہوجائیں گی ، ( صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر : ۵۵۲۴) بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو دے دوں اورصفہ والوں کو چھوڑ دوں : ’’لا أعطیکما وأدع أھل الصفۃ‘‘ ۔(مسند احمد : ۱؍۱۰۶ ، حدیث نمبر : ۸۳۸)
حضرت عمر بن ابی سلمہؓ اپنی والدہ اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ کے ساتھ رسول اللہ اکی پرورش میں تھے ، ایک بار آپ اکے ساتھ کھانا کھارہے تھے اور بچوں کی عادت کے مطابق کبھی اِدھر سے کبھی اُدھر سے لقمہ اُٹھاتے تھے ، آپ انے نرمی کے ساتھ ان کو کھانا کھانے کا طریقہ بتایا : اے بچے ! بسم اللہ کہو ، داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھایا کرو : ’’ کل مما یلیک‘‘ (بخاری ، کتاب الأطعمہ ، باب التسمیۃ الطعام ، حدیث نمبر : ۵۰۶۱) ۔۔۔ حضرت جابرؓ بھی کم عمر صحابہ میں تھے ، ایک بار سیدھے گھر میں داخل ہوگئے ، آپ انے فرمایا : باہر جاؤ ، سلام کرو ، پھر اجازت لے کر داخل ہو ۔
حالاں کہ بچوں سے اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ مسجد کے احترام کا لحاظ نہ کرپائیں ، اس کے باوجود آپ ابچوں کے مسجد آنے کی حوصلہ افزائی فرماتے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان بچوں کی صف رکھتے ، (السنن الکبریٰ للبیہقی ، کتاب الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۴۹۴۷) سرپرستوں کو بھی ایسے کسی عمل سے منع فرماتے ، جو تربیتی نقطۂ نظر سے مناسب نہ ہو ؛ چنانچہ ایک کم سن صحابی حضرت عبد اللہ بن عامرؓ نقل کرتے ہیں : رسول اللہ ا ہمارے گھر میں تشریف فرماتے تھے کہ میری والدہ نے مجھے کہا : آؤ ، میں تمہیں دوں گی ، آپ انے ان سے دریافت کیا : تم اس کو کیا دینا چاہتی ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : میں اسے ایک کھجور دوں گی ، آپ انے فرمایا : اگر تم اس کو کچھ نہیں دیتیں تو یہ تمہارے حق میں جھوٹ لکھا جاتا ۔ ( سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۴۹۹۳)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بہت کم سن تھے ، آپ ا ان کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھائے ہوئے تھے ، آپ نے ان سے بڑی نصیحت آمیز باتیں فرمائیں ، آپ انے فرمایا :
یا غلام ! إنی أعلمک کلمات : احفظ ﷲ یحفظک ، احفظ ﷲ تجدہ تجاھک و إذا سألت تسأل ﷲ الخ ۔ (سنن ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، حدیث نمبر : ۲۵۱۶)
اے لڑکے ! میں تم کو چند نصیحتیں کرتا ہوں ، تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو ، اللہ تمہاری حفاظت کریں گے ، اللہ کو یاد رکھو ، تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے اور جب بھی مانگنا ہو ، اللہ ہی سے مانگو ، اور جان لو کہ اگر تمام لوگ مل کر بھی تم کو نفع پہنچانا چاہیں تو جو نفع تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے ، وہی تم کو ملے گا ، اور اگر سب مل کر تم کو نقصان پہنچانا چاہیں تو اتنا ہی نقصان پہنچے گا ، جو اللہ نے تمہارے لئے طے کردیا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک شب حضور اکے ساتھ گزاری ، جب آپ اکا قیام ان کی خالہ اُم المومنین حضرت میمونہؓ کے گھر میں تھا ، آپ نے تہجد کی نماز میں ان کو اپنے ساتھ رکھا ، آپ نماز پڑھا رہے تھے ، وہ آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوگئے ، آپ انے ان کا کان پکڑ کر ان کو دائیں جانب کردیا ، (مسلم ، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ ، حدیث نمبر : ۷۶۳) ۔۔۔ حجۃ الوداع میں حضرت فضل بن عباسؓ آپ کی سواری پر آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، قبیلہ بنو خثعم کی ایک لڑکی آپ سے مسئلہ پوچھنے کے لئے آئی ، حضرت فضلؓ ان کی طرف دیکھنے لگے ، آپ ا نے اپنے ہاتھ سے ان کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا ۔ (بخاری ، عن عبد اللہ بن عباسؓ ، باب وجوب الحج وفضلہ ، حدیث نمبر : ۱۴۴۳)
غرض کہ آپ جیسے بچوں کی ضروریات اور جذبات کا خیال رکھتے تھے ، ویسے ہی ان کی تربیت کی طرف بھی متوجہ رہتے تھے ؛ لیکن تربیت میں بھی بچوں کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے ، حضرت سہل ساعدیؓ سے مروی ہے کہ آپ اکے پاس کوئی پینے کی چیز لائی گئی ، آپ انے اس میں سے نوش فرمایا ، آپ اکے داہنے طرف ایک بچہ تھا اور بائیں طرف عمر رسیدہ لوگ تھے ، آپ انے بچے سے پوچھا : کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں انھیں دے دوں ؟ اس نے کہا : خدا کی قسم ! میں آپ کے جھوٹے کے معاملہ میں ایثار نہیں کرسکتا ؛ چنانچہ آپ انے ان ہی کو عطا فرمایا۔ (ترمذی ، باب مایقول اذا أکل طعاماً ، حدیث نمبر : ۳۴۵۵)
بچوں کے لئے رشتہ کے انتخاب میں بھی دین داری ، حسن اخلاق اور سن و سال کی مناسبت کا لحاظ رکھتے تھے ، آپ انے اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت ابوالعاصؓ سے فرمایا ، آپ نے بحیثیت داماد ان کی تعریف کی ؛ کیوں کہ جب وہ غزوۂ بدر میں گرفتار ہوکر آئے ، آپ نے ان کا فدیہ متعین کیا کہ وہ حضرت زینبؓ کو مدینہ پہنچادیں اور انھوں نے اس وعدہ کو پورا کیا ؛ چنانچہ جب حضرت ابوالعاصؓ ایمان لے آئے تو آپ نے دوبارہ حضرت زینبؓ کو ان کے نکاح میں دے دیا ، (مستدرک حاکم ، کتاب الطلاق ، حدیث نمبر : ۲۸۱۱ ) حضرت رقیہؓ اور حضرت اُم کلثومؓ کو یکے بعد دیگرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دیا ، جو نہ صرف اسلام کی خدمت میں نمایاں مقام رکھتے تھے ؛ بلکہ صاحب ثروت بھی تھے اور ان کی سخاوت بھی مشہور تھی ، حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے نکاح کا پیغام دیا ؛ لیکن آپ نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ ان کی عمر کم ہے ، یعنی عمر کے اعتبار سے مناسبت نہیں ہے ؛ چنانچہ حضرت علیؓ نے نکاح کا پیغام دیا اور آپ انے اسے قبول فرمایا ، ( نسائی ، عن بریدہؓ ، حدیث نمبر : ۳۲۲۱) اور حضرت علیؓ عالی نسبی ، اسلام میں سبقت کا شرف اور فہم و ذکاوت میں جو مقام تھا ، وہ عہد صحابہ میں بھی مسلَّم تھا ۔
داماد کا رشتہ بیٹی کی نسبت سے ہوتا ہے اور داماد سے خوش گوار تعلق کا اثر بیٹی پر بھی پڑتا ہے ؛ چنانچہ آپ انے اپنے تمام دامادوں سے بے حد خوش گوار تعلق رکھا اور ہمیشہ سلوک میں ان کا لحاظ کرتے رہے ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ میں ایک بار کچھ کہا سنی ہوگئی ، آپ حضرت فاطمہؓ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کو موجود نہیں پایا ، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ حصرت علیؓ ناراض ہوکر کہیں چلے گئے ہیں ، آپ ا تلاش میں نکلے ، حضرت علیؓ مسجد میں ملے ، وہ زمین ہی پر لیٹ گئے تھے اور ان کی پیٹھ میں مٹی لگ گئی تھی ، آپ محبت سے ان کی پیٹھ صاف کرنے لگے ، ساتھ ہی ساتھ خوش طبعی کے طورپر کہتے جاتے تھے : یا أبا تراب یا أبا تراب ، ’’ اے مٹی والے ، اے مٹی والے ‘‘ ۔ (بخاری ، باب نوم الرجال فی المسجد ، حدیث نمبر : ۴۳۰)
جہاں آپ ابچوں کے ساتھ شفقت فرماتے اور ان کی تربیت پر توجہ رکھتے ، وہیں ان کے لئے دُعا کا بھی اہتمام کرتے ، صحابہ اپنے بچوں کو آپ کی خدمت میں لے کر آتے ، آپ انھیں برکت کی دُعا دیتے ، حضرت انسؓ آپ کے خاص خادموں میں تھے ، آپ انے انھیں ایک موقع پر خوش ہوکر دُعاء دی : اے اللہ ! ان کو قرآن مجید کا خصوصی فہم عطا فرما اور دین کے تفقہ سے سرفراز کر : ’’ اللّٰہم علمہ التأویل وفقھہ فی الدین‘‘ (مستدرک حاکم ، کتاب الفضائل ، باب مناقب عبد اللہ بن عباسؓ ، حدیث نمبر : ۶۲۸) حضرت انسؓ آپ کے خاص خادموں میں تھے اور ان کی والدہ ماجدہ نے اس وقت ان کو آپ اکی خدمت میں دے دیا تھا ، جب ان کی عمر صرف دس سال تھی ، آپ انے ان کو مال و اولاد اور عمر میں برکت کی اور مغفرت کی دُعا دی ؛ چنانچہ مال میں برکت کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دو باغ میں سال میں دوبار پھل آتا تھا ، اولاد میں برکت کا حال یہ تھا کہ آپ کے ۷۸ لڑکے اور لڑکیاں ہوئیں ، نیز عمر تقریباً ۱۱۰ سال پائی ۔ ( الاستیعاب فی معرفۃ الصحابہ : ۱؍۳۵)
غرض کہ آپ اکی حیاتِ طیبہ ایک شفیق ماں باپ ، ایک کامیاب مربی اور ذمہ دار سرپرست کے لئے بہترین نمونہ ہے ، جس میں بچوں کے جذبات کی رعایت ، دینی و اخلاقی تربیت اور مادی نگہ داشت ، تمام پہلوؤں کا لحاظ ہے ؛ کیوں کہ بچے ہی سماج کا مستقبل ہیں اور وہ ماں باپ کے لئے ایسے ہی ہیں، جیسے کسی کاشت کار کے لئے کھیت کی پیداوار ، کسی باغبان کے لئے اس کے باغ کے لگائے ہوئے پھل اور کسی مالی کے لئے اس کے لگائے ہوئے گلستان کے پھول ۔(ملت ٹائمز)
(کالم نگار معروف فقیہ، درجنوں کتاب کے مصنف ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری اور معہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے ڈائریکٹر کے علاوہ متعدد اداروں کے سربراہ ہیں)