اہل سیمانچل کو سوچنا ہوگا

محمد منہاج قاسمی
ہمارا معاشرہ اب سیاسی ہو چکا ہے، اس کو تسلیم کرنے میں ہم جتنی بھی تاخیر کریں گے، نقصان زیادہ ہوگا۔ مسلم قوم پر اس ملک میں آزادی کے بعد بٹوارے کا الزام عائد کر کے انہیں ملزم بنا کر دیگر ہندوستانیوں کے سامنے کھڑا کر دیا گیا. اور ان کی سرزنش کے لئے پردے کے پیچھے سے فرقہ واریت کے نمائندوں کے ذریعہ فسادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری کر دیا. نتیجہ یہ ہوا کہ بیس پچیس برس کے اندر ہی احساس کمتری نے مسلمانوں کو پوری طرح جکڑ لیا اور وہ کانگریس کے ذریعہ پھیلائے گئے اس سیاسی جال میں جا پھنسے کہ کم از کم ان کی جان تو بچے. اور کانگریس نے ان کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ان کے ووٹ کے ذریعہ تقریباً پچاس برس تک ملک پر حکومت کی لیکن اس پورے دور اقتدار میں وہ مسلمانوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلتی رہی. وہ گاہے گاہے مسلم اکثریتی علاقوں میں فساد برپا کرا دیتی اور اس میں نہ صرف مسلمانوں کا قتل عام ہوتا بلکہ ان پر خوف مسلط ہو جاتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں نہ تو تعلیم کی طرف توجہ دے پاتے اور نہ ہی معاشی حالت سدھارنے کا کام کر پاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ وہ اس ملک کے سب سے پسماندہ شہری بن کر رہ گئے. اسی دوران بابری مسجد کا قضیہ مسجد کا تالہ کھول کر کیا گیا اور پھر ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست تنظیم جسے کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے استعمال کرتی رہی تھی یکایک سیاسی قوت بننے اور مرکزی اقتدار پر قبضہ کے لئے سرگرم ہو گئی، کچھ دنوں تک کانگریس نے اس ماحول کا بھی فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قابض رہی لیکن اب اس کا زور ٹوٹ چکا تھا اور خود مسلمانوں میں بھی ان حالات سے نکلنے کی کوشش شروع ہو چکی تھی اس لئے کانگریس کے جال سے وہ نکلنے لگے اور بالآخر کانگریس اقتدار سے باہر ہو گئی، لیکن مسلم ووٹوں کے دوسرے کئی شکاری پہلے سے ہی تیار بیٹھے تھے لہٰذا مسلمان ان کے شکار ہو گئے اور کئی علاقائی پارٹیوں کی چاندی ہو گئی جو سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو ورغلا کر ریاستوں میں اپنی اپنی حکومت چلاتے رہے لیکن ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ وہی رہا جو کانگریس کا تھا بلکہ اس سے بھی برا ۔
آج بھی وہی صورت حال ہے کہ مسلمانوں کو فسادات میں بچانے اور ان کو جان کی امان دینے کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ان کے محلوں میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں. نوکری نہیں، کاروبار نہیں اور نہ ہی سرکاری مراعات کا انصاف پسندانہ تقسیم۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب مسلمان کیا کریں … ؟
اب مسلمانوں کے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنے درمیان کے نوجوانوں کو موقع فراہم کریں کہ وہ خود ان کی نمائندگی کریں۔
سیمانچل کا علاقہ آبادی کے لحاظ سے ایک ایسا مثالی علاقہ ہے جہاں اگر مسلمان چاہیں تو بلدیاتی انتخابات سے لے کر پارلیمانی انتخاب تک میں اپنے نمائندے منتخب کر سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نمائندوں کے انتخاب کا مرحلہ کیسے طئے ہو ؟
یہ دور تعلیم اور تکنیک کو استعمال کرنے کا دور ہے لہٰذا ہمیں ایسے نوجوانوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرنا ہوگا جو تعلیم یافتہ بھی ہوں اور اسلامی تعلیمات سے ان کا شغف ہو. جو جدید ترین ٹکنالوجی کا بھی بھر پور استعمال کرتے ہوں اور ملک کی سیاست و صحافت سے ان کی وابستگی بھی ہو. وہ مسلمانوں کے ماضی اور حال سے بھی واقف ہوں اور نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں کے تمام ہتھکنڈوں سے واقف بھی ہوں اور ان کا جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں. وہ فعال بھی ہوں اور تنظیمی صلاحیت سے بھی واقف ہوں. لالچی نہ ہوں اور ملت کے مسائل کو حل کرنے اور کرانے کے لئے جان کی بازی لگا دینے کی حد تک مخلص ہوں۔ ان کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور وہ خوش گفتار و با کردار بھی ہوں.
اور اس سلسلے میں ایک نام منہاج قاسمی کا ہے جو سیمانچل کا بیٹا ہے اور جس کے سر میں اس علاقے کی ترقی کا سودا سمایا ہوا ہے، اس نے مرکزی سیاست کا بذریعہ صحافت باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور نوجوانوں کا ایک بڑا حلقہ اس کا مداح بھی ہے. اس کو دین اسلام کا پاس بھی ہے اور بزرگوں کا ادب بھی اس کا شیوہ ہے. وہ دینی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہے اور ملک کی جملہ ملی تنظیموں کو اور اس کے سرکردہ سرپرستوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے، جدید تعلیم و ٹکنالوجی سے بھی واقف ہے اور قومی سیاست کے ہر بڑے لیڈر سے اس کی شناسائی بھی ہے۔
ایسے نوجوان کو اگر سیمانچل علاقہ کے لوگ اپنی نمائندگی کا ایک بار موقع دے دیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان کی تمام محرومیوں کا ازالہ کرنے کی بھر پور کوشش کریگا اور سیمانچل کے علاقہ میں سیاست کی ایک نئی عبارت لکھی جائے گی جو خوشحالی فارغ البالی اور اعتماد کی فضا قائم کرے گی ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں