مولانا عبد الحمید نعمانی
8؍اگست2021ء کو راجدھانی دہلی، ایک بڑے تاریخی قدم کی گواہ بنی ، ملک کے مخصوص حالات میں اس کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پورے ملک بالخصوس ملت کو متحد اور منظم کر کے ملک و ملت کی تعمیر کے لیے آمادہ کیا جائے۔ عوام کے سامنے تمام قائدین متحد ہو کر ایک لائحہ عمل پیش کریں اور اپنے داخلی اور فروعی انتشار کو ختم کر کے ملک و ملت کی تعمیر کے عظیم مقصد کے لیے کچھ متعینہ خطوط پر کام کر سکیں ۔ اس سلسلے میں اصحاب فکر سے مشورہ کر نے کے لیے ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ملک بھر کا دورہ کیا۔ علماء،مشائخ اور قائدین سے ملاقاتیں کر کے اس سلسلے میں کچھ اقدام کرنے کی بات کی۔ ملک بھر کے ان دوروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ راقم سطور عبد الحمید نعمانی ، مولاناشاہ اجمل فاروق ندوی اور محمد عالم بھی شریک رہے ۔ مشترکہ مشورے سے طے پایا کہ سب سے پہلے ایک اتحاد ملت کانفرنس منعقد کی جائے، جس کی دعوت کسی ایک ادارے یا تنظیم کی طرف سے نہیں بلکہ ملت کی مقتدر شخصیات اور تنظیموں کے سربراہان کی طرف سے دی جائے ۔ لہذا ملت کے جو سترہ اہم ترین اور نمائندہ افراد اجلاس کے داعی بنے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
(1) مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی (2) جسٹس اے ایم احمدی (3) مولانا سید محمد ارشد مدنی (4) مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی (5) مولانا حکیم محمد عبد اللہ مغیثی (6) مولانا سید کلب جواد نقوی (7) مولانا کاکا سعید احمد عمری (8) مولانا علی کوٹی مصلیار (9) مولانا مفتی احمد خان پوری (10) مولانا سید محمد اشرف کچھو چھوی (11) مولانا سید محموداسعد مدنی (12) مولانا شیخ ابو سعید صفوی عثمانی (13) مولانا شاہ آیت اللہ قادری مجیبی (14) جناب سید سعا دت اللہ حسینی (15) مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی (16) جناب نوید حامد (17) مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی۔ جب کہ اجلاس کے کنوینر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور ڈاکٹر محمد منظور عالم تھے ۔ داعیوں میں مولانا سید کلب صادق اور مولانا سید محمد ولی رحمانی کے اسمائے گرامی بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس کہ اجلاس کے انعقاد سے پہلے یہ دونوں شخصیات ہم سے رخصت ہوگئیں۔ ایک خاص بات یہ رہی کہ تمام بزرگ رہ نماؤں نے جس ولولے شرح صدر کے ساتھ مقصد موضوع کا استقبال کیا وہ تاریخ ملت میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔
ہوٹل ریور ویو میں رہ نمایان ملت نے جس کھلے دل سے موضوع پر اظہار خیالات کیا ہے اس سے امید کی کرن پیدا ہونے کے ساتھ حوصلہ بھی ملا ہے ۔
اتحا د ملت کانفرنس کے اغراض مقاصد ، کانفرنس میں متفقہ منظور شدہ قرار داد سے ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ملک و ملت کے حوالے سے کسی طرح کا کوئی ابہام و اشتباہ نہیں رہ جاتا ہے۔ 6نکات پر مشتمل قرار داد میں بہت واضح الفاظ میں اہداف و مسائل کا تعین کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ (1) تمام برادان اسلام بالخصوص مختلف مسالک کے رہنماؤں اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں ، اس کے لیے ممکنہ تدابیر کو اختیار کریں،جس کی ایک صور ت یہ بھی ہے کہ مختلف مسالک و مشارب کی اہم شخصیات کی وفات یا کسی بڑی حصولیابی کے موقعے پر کمیٹی کی جانب سے تعزیتی/تہنیتی جلسہ منعقد ہو تاکہ آپسی محبت کا ماحول قائم بھی ہو اور باقی بھی رہے ۔ نیز ایسی باتوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو دوسرے مسلک و مشرب کے لیے دل آزاری کا سبب بنے، ملت اسلامیہ کے مشترکہ مسائل کے لیے مل جل کر جدو جہد کریں اور فرقہ پرست عناصر کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور اختلاف پیدا کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
(2) مسلمان دین و ایمان پر ثابت قدم رہیں ، چاہے کتنے ہی مادی نقصان سے دو چار ہونا پڑے اور جان و مال یا عزت و آبرو کو خطرہ در پیش ہو،جیسے ہمارے بزرگوں نے ہرطرح کی حالت میں صبر و استقامت کا ثبوت دیا ہے ۔
(3) اسلام میں ہمسایہ قوموں کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور بہتر برتاؤ کی تعلیم دی گئی ہے ، اس لیے ہم تمام برا دران وطن سے تعلقات کو بہتر بنانے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی مشترکہ طور پر کوشش کریں اور اس کے لیے براداران وطن کے مختلف طبقات کے ساتھ ان کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکرات کریں ، انسانی مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف براداران وطن کے ساتھ مل کر کام کریں ،بلکہ اس میں پیش پیش رہنے کی کو شش کریں ، ناانصافی کسی بھی طبقہ کے ساتھ ہو اس کو روکنے کی جدو جہد میں شامل ہوں اور مظلوموں کا سہارا بنیں ،آفات سماوی کے موقع پر خد مت خلق کے کام کو خصوصی اہمیت دیں اور ایک داعی امت کا کردار ادا کریں۔
(4) تمام افراد، خصوصاً نوجوان مایوسی سے دور رہتے ہوئے ہمت و حوصلے کے ساتھ زندگی گزاریں ۔
(5) ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہر مسلما ن کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو ملک و قوم کے لیے نافع بنائے اور کوشش کرے کہ معاشرہ میں اس کی نافعیت محسوس کی جائے ،اس کے لیے مسلمان طلبہ و طالبات کو توجہ دیں کہ وہ تعلیم کے ایسے شعبوں پر خصوصی توجہ دیں جن کے ذریعہ سو سائٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ، مظلوموں کی مدد کی جا سکتی ہے ، ملک میں امن و امان کا فضا قائم کی جاسکتی ہے ، اس لئے ان کو سائنس ، ٹکنا لوجی ،تاریخ اور قانون کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔
(6) 25 افراد پر مشتمل ایک ”مرکزی کمیٹی برائے وحدت ملت”بھی تشکیل دی گئی جو کانفرنس کی قرار داد کو روبہ عمل لانے کے لیے حسب ضرورت قدم اٹھائے،کمیٹی میں جو ارکان شامل ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اتحاد ملت کے حوالے سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے ۔کمیٹی میں شامل حضرات کے اسماہ گرامی یہ ہیں :
1۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، 2۔ مولانا سید ارشد مدنی ، 3۔ مولانا محمد سفیان قاسمی، 4۔ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، 5۔ مولانا سید محمود مدنی 6۔ جناب سید سعاد ت اللہ حسینی 7۔مولانا محمد عبد اللہ مغیثی، 8۔ ڈاکٹر محمد منظور عالم ، 9۔ مولانا سید مصطفی رفاعی جیلانی ندوی، 10۔ مولانا سید نثار آغا (حیدرآباد)، 11۔ ڈاکٹر عزیز بھائی صاحب قطب الدین، 12۔ مولانا عبد الحمید نعمانی، 13۔ مولانا عبید اللہ خاں اعظمی، 14۔ مولانا سید اطہر علی، 15۔ مولانا خلیل الر حمان سجا د نعمانی، 16۔ ایڈو کیٹ یوسف حاتم مچھالہ، 17۔ جناب عبد الرشید چودھری، 18۔ مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ، 19۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی، 20۔ پروفیسر شمیم الدین احمد منعمی، 21۔ پروفیسر سید علی محمد نقوی، 22۔ ڈاکٹر ظہیر قاضی، 23۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کنوینر کمیٹی)، 24۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی (جوائنٹ کنوینر) ،25۔ مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی (جوائنٹ کنوینر) کمیٹی کو مجاز و ذمے دار قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر سال وحدت ملت کانفرنس منعقد کرے اور مختلف مسلک و مشرب کے نمائندہ اداروں کو اس کی میز بانی کے لیے تیار کرے ، تاکہ اتحاد کی عملی شکل عام مسلمانوں کے سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے کانفرنس کے مثبت اور پر امید پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اس پر منفی اور مایوسی بھرے تبصرے کیے ہیں ، مثلاً یہ کہ اتحاد ملت کی راہ سے مذہبی تنظیمیں ہٹ جائیں تو مسلمانوں میں اتحاد ضرور ہو جائے گایہ قطعی غیر عملی اور مذہبی تنظیموں اور شخصیات سے خوف و بیزاری کا اظہار ہے۔ سماج میں مذہب اور مذہبی تنظیموں کا وجود ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ، ان کو نظر انداز کر کے کوئی بھی نتیجہ خیز ثمر آور کام نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ غلط طور سے کانفرنس کا رشتہ سیاست بھی جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے ،ایسا عموماً وہ افراد کرتے ہیں جو عملی طور سے کچھ خاص کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ، پہلے کسی تنظیم یا جماعت کی طرف سے اتحاد کے نام پر کوئی پروگرام ہو ا یا دیگر عنوانات کے پروگرام میں اتحاد کی تجویز اور بات بھی آگئی اور کچھ جماعتوں کے ذمے دار بہ طور نمائندہ شریک ہوگئے ، ظا ہر ہے کہ اس طرح کے پروگراموں کی حیثیت اس پروگرام سے مختلف ہوگی ،جس کے نمائندے بہ طور داعی شریک ہوں ،یہ اتحاد ملت کا نفرنس کسی ایک شخص اور تنظیم کی طرف سے نہیں ہوئی تھی ، اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی قدم ہے۔ اس کے پیش نظر نتائج و اثرات بھی مختلف شکل میں برآمد و مرتب ہوں گے اور جس طور سے کانفرنس میں اتحاد ملت کے ضروری امور کا احاطہ کیا گیا ہے اس سے بہتر تبدیلی اور اچھے نتائج کی بجا طور سے امید کی جا سکتی ہے ۔
E-mail: noumani.aum@gmail.com






