کابل حکومت کا زوال امریکی آمریت کی تاریخ کا ایک اور شرمناک باب: پاپولر فرنٹ

نئی دہلی: (پریس ریلیز) افغانستان کے موجودہ بدلتے سیاسی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان نے گذشتہ 20 سالوں سے چلے آ رہے سفاکانہ غیرملکی قبضے کو شکست دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے افغانیوں نے اپنی دو دہائی طویل مزاحمت کے ذریعہ ناٹو کی جنگی مشین کو کھدیڑا ہے، اس میں دنیا بھر کے ان تمام لوگوں کے لئے سبق ہے جو اپنی سرزمین کو غیرملکی چڑھائی سے آزاد کرانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جمہوریت کے قیام اور ترقی لانے جیسے جنگ کے بتائے گئے اہداف ایک جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے سبب صرف اور صرف موت، تباہی آئی ہے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران 150 ہزار سے زائد افغانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ کی سرپرستی میں قائم ہوئی چور، بدعنوان اور نااہل حکومت نے لوگوں کی حالت زار کو مزید ابتر کر دیا تھا۔ اربوں ڈالر خرچ کرکے امریکہ نے افغان عوام کو نہیں بلکہ محض جنگی آقاؤں اور منشیات کے سوداگروں کو تقویت بخشنے کا کام کیا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ امریکی فوج کے جاتے ہی یہ کیوں بکھر گئے۔ قبضے کے آخری دنوں میں کابل ہوائی اڈے پر دنیا نے افراتفری اور ہلچل کا جو نظارہ دیکھا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قابضوں نے کس طرح سے ان لوگوں کو بھی چھوڑ دیا جنہوں نے اس کی خدمت کی۔

افغانستان میں بُش حکومت کے ذریعہ شروع کی گئی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے ظالمانہ عسکری مہم نے ہر پہلو سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔ اس نام پر بدنام کرنا اور حقوق انسانی کی پامالیاں آج بھی جاری ہیں۔ سیکڑوں بے قصوروں کو بغیر جرم ثابت کئے سالوں تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب امریکی آمریت کی تاریخ کے شرمناک ابواب کے طور پر یاد کئے جائیں گے۔ او ایم اے سلام نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ کم سے کم اب دنیا کو آگے آکر 2001میں افغانستان پر چڑھائی کرنے کے امریکی فیصلے کی مذمت کرنی چاہئے۔ پہلے سے ہی جنگوں کی مارے لوگوں کے خلاف غیرانسانی بمباری اور انتہائی خطرناک ہتھیاروں کا استعمال غلط، غیراخلاقی اور تاریخ کا ایک بدترین المیہ تھا۔
او ایم اے سلام نے یاددہانی کراتے ہوئے کہا کہ دنیا میں امن و امان قائم رہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکی مداخلت پسندی اور تاناشاہ و سفاک حکومتوں کو اس کی عسکری حمایت پر روک لگے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب جبکہ قابض طاقتوں کا انخلاء ہو گیا ہے، ہر طرف کے افغان کو نسلی و گروہی دشمنیوں کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں اور ایک جامع و مستحکم سیاسی نظام قائم کرنا چاہئے جس سے تمام شہریوں کو بلاتفریق فائدہ پہنچے۔ساتھ ہی انہوں نے بھارت سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے ابھرتے سیاسی حالات میں شریک ہوں اور پڑوسی ملک کے ساتھ گہرے و پائدار دو طرفہ تعلقات استوار کرے۔