ریپ کے ملزموں کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر خود سوزی

نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے سامنے خود سوزی کرنے والے لڑکے کی موت ہو گئی جب کہ لڑکی کی حالت نازک ہے۔ اس اقدام سے قبل دونوں نے حکام پر ریپ کے ملزموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

نئی دہلی: (صلاح الدین زین) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے جس نوجوان لڑکی اور لڑکے نے سپریم کورٹ کے گیٹ نمبر چار پر خود کو آگ لگا لی تھی، اس میں سے ہفتے کی صبح نوجوان کی موت واقع ہو گئی جب کہ لڑکی کی حالت کافی نازک ہے اور ان کے بھی بچنے کی امید کم ہے۔
ہلاک ہونے والے دہلی یونیورسٹی کے 27 سالہ گریجویٹ اپنی ایک 24 سالہ دوست کے ساتھ اسی ہفتے نئی دہلی آئے تھے اور ان کی شکایت یہ تھی کہ لڑکی کے ساتھ جس رکن پارلیمان نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی تھی ان کے خلاف کئی شکایتوں کے باوجود حکام کارروائی نہیں کر رہے۔
دنوں اسی لیے نئی دہلی آئے تھے اور حکام سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم جب اس کے بعد بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گيا تو دونوں نے سپریم کورٹ کے باہر خود کو آک لگا لی۔
ایسا کرنے سے قبل دونوں نے فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کی اور ریاست اتر پردیش کے حلقہ گھوسی سے رکن پارلیمان اتل رائے پر لڑکی کے ساتھ ریپ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سلسلے میں کارروائی کے لیے انہوں نے بہت کوشش کی تاہم حکام ان کی شکایت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال کے حکام کا کہنا تھا کہ ایسے متاثرین کو عموماً ایک دن آبزرویشن میں رکھنے کے بعد سرجری کی جاتی ہے تاہم، ”ان دونوں کی حالت ایسی تھی کہ ڈاکٹروں نے رات میں ہی سرجری کی لیکن پھر بھی لڑکے کو بچایا نہیں جا سکا اور وہ چل بسا۔‘‘
طبی حکام کا مزید کہنا تھا، ”خاتون کی بھی حالت بہت نازک ہے اور انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گيا ہے ۔۔۔ ان کے بھی بچنے کے امکان بہت کم نظر آتے ہیں۔ ان کا اسّی فیصد سے بھی زیادہ جسم زخموں سے متاثر ہے۔‘‘
اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد یو پی اور دہلی کی پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کی ہے تاہم وہ ابھی تک متاثرہ خاتون کا بیان ریکارڈ نہیں کر سکے ہیں۔ اس حوالے سے اتر پردیش پولیس کی ایک ٹیم بھی دہلی پہنچی ہے اور متاثرین کے لواحقین سے بات کی ہے۔
ہلاک ہونے والے لڑکے کے دوستوں نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ وہ مبینہ ریپ کیس کی متاثرہ لڑکی کے دوست تھے اور اس معاملے میں وہ بطور ایک کارکن سرگرم تھے اور اس کے بارے میں اکثر سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے رہے تھے۔ ان کے مطابق چونکہ اس کیس کا تعلق ایک طاقت ور رکن پارلیمان سے ہے اس لیے انہیں ‘حکام کی جانب سے ہراساں‘ کیا جاتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مبینہ ریپ کا یہ واقعہ سن 2019 میں پیش آیا تھا۔ اس وقت شکایت کرنے کے بعد ملزم رکن پارلیمان اتل رائے کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ اس کے بعد مقامی رہنما کے لواحقین نے متاثرہ لڑکی کے خلاف جعل سازی کا ایک کیس درج کرا دیا تھا۔
بھارت میں سن 2012 میں نربھیا جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد کافی کوششیں ہوتی رہیں کہ ریپ کے واقعات پر قابو پایا جا سکے، تاہم اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور ریپ کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔
اس کیس کے بعد حکومت نے ایسے جرائم پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین بھی بنائے لیکن ان کا کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہو سکا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں سن 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز درج کیے گئے۔ حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے سماجی بدنامی کے ڈر سے معاملے کو پولیس میں نہیں لے جاتے۔
بعض اوقات پولیس خود بھی ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جب کہ کئی معاملات میں ریپ کا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر بھی متاثرہ خواتین کو کسی کارروائی سے باز رکھا جاتا ہے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے 2018ء میں اپنے ایک سروے میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جنسی زیادتی کا شکار 11 فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2001ء سے 2017ء کے درمیان جنسی

زیادتی کے واقعات میں دو گنا اضافہ ہوا۔

(ڈی ڈبلیو)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں