طالبان کا افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے سے نہ روکنے کا اعلان مثبت ہے: امریکہ  

واشنگٹن: امریکہ نے طالبان کے اس عزم کو سراہا ہے کہ 31 اگست کے بعد افغانستان سے کسی کو باہر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے 31 اگست کی ڈیڈ لائن کا اعلان کر رکھا ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق افغان امن عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ہفتے کو یہ بیان طالبان کے مرکزی رہنما کے افغان عوام سے خطاب کے بعد دیا ہے۔
طالبان رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے جمعے کو ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والے بیان میں کہا تھا کہ درست دستاویزات اور پاسپورٹ رکھنے والے افغان شہری ڈیڈلائن کے بعد بھی اپنی پسند کے ملک میں سفر کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ وہ زمین یا فضا کے ذریعے سفر کر سکیں گے۔
زلمے خلیل زاد نے اس بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ “یہ مثبت بیان ہے۔ تاہم ہمارے اتحادی اور عالمی برادری یہ یقینی بنائے گی کہ وہ (طالبان) اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔”
شیر محمد عباس ستنکزئی کے افغان عوام سے خطاب کا مقصد بظاہر ان خدشات کو دُور کرنا تھا کہ طالبان 31 اگست کے بعد ملکی یا غیر ملکی شہریوں کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے۔
ستنکزئی کا کہنا تھا کہ پہلے غیر ملکی فورسز انخلا مکمل کریں اور پھر ہمارے ہم وطن جو آیا امریکیوں یا کسی اور کے ساتھ کام کر چکے ہیں، اگر کسی بھی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں تو وہ جا سکتے ہیں۔ تمام ایئرپورٹ بالخصوص کابل ایئرپورٹ ان کے سفر کے لیے کھلا ہو گا۔
ہزاروں افغان شہری بشمول صحافیوں، سابق حکومتی عہدیداروں اور سول سوسائٹی کے کارکنان مغربی ممالک کے انخلا کے آپریشن کے لیے دی گئی ڈیڈلائن سے قبل کابل ایئر پورٹ سے جانے والی آخری پروازوں کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ملک چھوڑنے کی جدوجہد میں اضافہ کابل میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول سے پیدا ہونے والے اس خوف سے ہوا کہ افغانستان میں دوبارہ سخت اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ جو اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان کے دور کے درمیان نافذ کیے گئے تھے۔
اس وقت طالبان نے خواتین کو بغیر محرم گھر سے نکلنے، لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے اور موسیقی پر پابندی لگانے سمیت دیگر متنازع قوانین نافذ کیے تھے جو افغانستان کی عالمی تنہائی کا سبب بنے تھے۔
البتہ طالبان کی جانب سے اس مرتبہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ کابل میں ان کے بقول ایک ‘جامع افغان حکومت’ تشکیل دیں گے۔ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کی تعلیم اور اُنہیں شریعت کے تحت کام کی بھی اجازت دی جائے گی۔
ستنکزئی نے افغان شہریوں پر جنگ سے متاثرہ ملک کی تعمیر نو کے لیے متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ افراد کو بھی اس کوشش میں شامل ہونے کے لیے واپس آنا چاہیے۔
اسلامی گروپ پر امریکہ اور ہمسایہ ممالک کی جانب سے یہ دباؤ ہے کہ وہ عوامی وعدوں پر پورا اتریں تا کہ ملک چلانے کے لیے تمام افغان شامل ہوں گے اور وہ افغانستان کی عالمی تنہائی سے بچنے کے لیے انسانی حقوق کا احترام کریں گے۔
طالبان کی جانب سے جمعہ کو خواتین ہیلتھ ورکرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی معمول کی ذمہ داروں پر واپس آ جائیں۔
تاہم ملکی اور غیر ملکی ناقدین کو اب بھی شکوک و شبہات ہیں کہ آیا طالبان اپنے وعدوں پر پورا اتریں گے یا نہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے جب جمعے کو سوال کیا گیا کہ کیا طالبان واشنگٹن سے انہیں تسلیم کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے میں یہاں بالکل واضح ہوں۔ امریکہ یا اس کے کسی بھی شراکت دار کو طالبان کو تسلیم کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔